رحل دل پر اُس کی یادوں کا صحیفہ رکھ دیا پھر تصور میں وہ آنکھیں اور چہرہ رکھ دیا
حبس ِ غم سے تونے انساں کو بچایا شکریہ!! اس مکانِ دل میں آ نکھوں کا دریچہ رکھ دیا
عمر بھر کی وحشتوں کے بعد قسمت میں مِری آخر اس نے عافیت کا ایک لمحہ رکھ دیا
اب کے موسم کی عنایت میں بھی اسکارنگ تھا زرد پتّوں، خشک شاخوں پر شگوفہ رکھ دیا
وقت ِ رخصت میز سے وہ سارے خط تو، لے گیا جس پہ تھا نام و پتہ بس وہ لفافہ رکھ دیا
وہ نہیں تو اس کے بعد اب اس کتاب ِ وصل کا ہم نے مضموں پھاڑ ڈالا ، خالی صفحہ رکھ دیا
مالک ِ تسنیم و کوثر! مجھ سے کیسی بے رُخی؟ تشنہ لب ہوں پھر بھی میراپیاس حصہ رکھ دیا
دل کا ذاد ِ رہ تو دیکھو، تیرگی کے شہر میں ہر تصور کے افق پرط اس کا چہرہ رکھ دیا پہلے تو وہ نام “ایماں” لکھ رہے تھے ساتھ ساتھ آج لیکن درمیاں میں ہم نے وقفہ رکھ دیا
مراسلہ: امان اللہ گُل رمدانی۔ چوٹی زیریں۔ ڈیرہ غازی خا