تحریر: ڈاکٹر سید علی عباس شاہ ایران کے معروف عالم ِدین آیت اللہ سید مرعشی نجفی (سید شہاب الدین حسینی مرعشی نجفی ،١٣١٥ھ تا٧صفر ١٤١١ھ/٢٩اگست ١٩٩٠ء ) فرماتے ہیں کہ میں ایک روز امیر المؤمنین کی بارگاہ میں متوسل ہواکہ میں اِس رات اللہ رب العزت کے مقرب بندے سے ملاقات کا متمنی ہوں۔ اس رات خواب میں دیکھا کہ مسجد ِکوفہ کے ایک گوشے میں امیر المؤمنین جلوہ افروز ہیں اور فرماتے ہیں کہ شعرائے اہل ِبیت کو حاضر کیا جائے ۔عرب شعرا حاضر ہوئے تو حضرت نے فرمایا کہ فارسی گو شعرا کہاںہیں؟فارس کے شعرائے اہل ِبیت حاضر ہوئے تو حضرت نے فرمایاہمارا شہریار کہاں ہے ؟شہریار حاضر ہوئے تو حضرت نے فرمایا، ”شہریار! مجھے اپنے اشعار سنائو۔
”شہریار عرض گذار ہوئے ،”علی! اے ہمائے رحمت تو چہ آیت ِخدا را،کہ بہ ماسوافگندی ہمہ سایہ ٔہمارا”آیت اللہ مرعشی فرماتے ہیں کہ میںشہریار کو نہیں جانتا تھا ۔ خواب سے بیدار ہوکرمستفسرہواکہ شہریار کون ہے ؟ بتلایا گیا کہ تبریز کا ایک غیر معروف شاعر ہے ۔ میں نے ملاقات کی خواہش کا پیغام بھیجا تو چند روز بعد صبح چھ بجے وہ میرے گھر آئے اور کہا کہ میں سید محمد بہجت تبریزی معروف بہ شہریار ہوں اور تبریزسے آیا ہوں۔
آیت اللہ نے انہیں دیکھتے ہی فرمایا کہ یہ وہی ہیں جنہیں اُس رات میں نے خواب میں امیر المؤمنین کی بارگاہ میں دیکھا تھا ۔پوچھا”شہریار!علی اے ہمائے رحمت والے اشعار کب ترتیب دیے ؟”شہریار نے تعجب سے دیکھ کر کہا حضرت کچھ روز قبل یہ اشعار کہے تھے اور میرے علاوہ ان کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔
Manuscript of Sheheryar e Tabzeri
علی! اے ہمائے رحمت تو چہ آیت ِخدا را کہ بہ ماسوافکندی ہمہ سایہ ٔہمارا دِل اگر خدا شناسی ہمہ در رخ ِعلی بیں بہ علی شناختم بہ خدا قسم خدارا بہ خدا کہ در دو عالم اثر از فنا نماند چو علی گرفتہ باشد سر چشمہ ٔبقارا مگر اے سحاب ِرحمت تو بباری ارنہ دوزخ بہ شرار ِقہر سوزدہمہ جان ِماسوارا برواے گدائے مسکیں در ِخا نہ ٔ علی زن کہ نگین ِپادشاہی دھد از کرم گدارا بجز از علی کہ گوید بہ پسر کہ قاتل ِمن چو اسیر تست اکنوںبہ اسیر کن مدارا بجز از علی کہ آرد پسری ابوالعجائب کہ علم کند بہ عالم شہدائے کربلا را چو بہ دوست عہد بنددزمیان ِپاکبازاں چو علی کہ می تواند کہ بسر برد وفا را نہ خدا توانمش خواندنہ بشر توانمش گفت متحیرم چہ نامم شہ ِملک ِلاَفَتیٰ را بدو چشم ِخونفشانم ھلہ ٔ نسیم ِ رحمت کہ زکوئے اُو غبار بہ من آر توتیا را بہ امید ِآں کہ شاید برسد بہ خاک ِپایت چہ پیامہا سپردم ہمہ سوز ِدِل صبا را چو توئی قضائی گردان بہ دعائی مستمندان کہ زجان ِما بگردان رہ ِآفت قضا را چہ زنم چونائی ہردم زنوائی شوق اُودم کہ لسان ِغیب خوشتر بنوازداین نوارا ”ہمہ شب در ایں امیدم کہ نسیم ِصبح گاہی بہ پیام ِآشنائی بنوازدآشنا را ” حافظ شیرازی زنوائے مرغ ِیاحق بشنو کہ در د ل ِشب غم ِدِل بہ دوست گفتن چہ خوش ست شہریارا ٢
”علی !اے رحمت کے ہما!آپ خدا کی کیسی نشانی ہیں کہ آپ کاسایہ ٔ ہما کائنات پہ محیط ہے ۔اے دل! اگر تو خدا شناس ہے تو ہر چیز کا علی کے چہرے میںمشاہدہ کر کہ بخدا میں نے خدا کو بھی علی ہی سے پہچانا ہے ۔خدا کی قسم !اگر علی سرچشمہ ٔبقا تھام لیں تو دونوں جہانوں میں فنا کا ذرہ بھی نہ رہے۔
اے رحمت کے بادل !یقیناآپ اپنی نوازشات جاری رکھیں گے کہ ایسا نہ ہواتو قہر آگیں جہنم آپ سے مفرق کو جلا کر خاکستر کردے گی ۔گداومساکین !علی کی چوکھٹ تھام لو کہ وہ اپنے کرم سے گداگر کو شاہی انگشترسے نوا زدیتے ہیں۔علی کے سوا کون ہے جو فرزند سے کہے کہ میراقاتل اب تمہاری قید میں ہے اس سے نیک سلوک کرو۔علی کے سوا کس کا فرزند عجائب کا سردار ہے جو دنیا میں شہدائے کربلا کو درخشاں کرے۔
Hummaye Rehmat
متقین میںعلی کے سوا کون ہے جو پیمان ِوفا کو نبھائے ۔نہ خدا کہنے کی جرأت ہے نہ بشر کہہ سکتا ہوں ششدر ہوں کہ کشور ِلافتیٰ کے تاجدار کو کس نام سے پکاروں؟نسیم ِرحمت !میری دونوں خونفشاں آنکھوں میں جھانکواور ان کی گلی کی خاک میری آنکھوں کاسرمہ لے آئو۔میں نے سوختہ دِل سے کئی نامے اس امید پہ صبا کے سپرد کیے کہ شاید کسی روز آپ کی خاک ِپا تک پہنچ جائیں۔ چونکہ آپ ہی قضا کے بدلنے والے ہیں لہٰذا آپ کو دردمندوں کی التجائوں کا واسطہ دیتا ہوں کہ میری جان پر سے بھی قضا کی آفت پلٹا دیجئے۔
ہر وقت بجنے والی بانسری کی طرح اُن کے اشتیاق میں کیا حرف زنی کروں کہ لسان ِ غیب مجھ سے بڑھ کر نواریز ہیں،” میں پوری رات اس امید میں گزارتا ہوں کہ شاید صبح کی ہوا آشناکے پیغام سے شناسا کو نوا زدے ۔” شہریار!خدا کا ذکر کرنے والے مرغ کی آواز سے توجہ کرو کہ شب گیری میں محبوب سے رازونیاز کیسا مسرت خیز ہے۔”
١۔ اقتباس از فرازہائے وصیت نامہ الٰہی اخلاقی آیت اللہ العظمیٰ مرعشی نجفی صفحہ ٥٠تا٥٣ ٢۔سید محمد حسین بہجت شہریار تبریزی(١٩٠٦ئ/١٣٢٤ھ تا ١٨ستمبر١٩٨٨ء )ایران کے سربرآوردہ شعرا میں سے ہیں ۔آپ بہجت تخلص کرتے تھے لیکن اضطراب کے باعث دیوان ِحافظ سے فال نکالی تو حافظ کے شعر ”غم ِغریبی وغربت چو برنمی تابم ،روم بہ شہر خود وشہریارِخود باشم ”کے باعث شہریار متخلص ہوئے ۔تہران کی میڈیکل یونیورسٹی میں دوران ِ تعلیم آخری سال عشق ِمجازی کا شکار ہوئے اور ناکامی میں ہسپتال جا پہنچے ۔دربدرشہریار نے فارسی زبان میں اٹھائیس ہزار او ر ترک آذری زبان میں تین ہزار اشعار کہے ہیں۔