راولپنڈی : گزشتہ روز لاپتہ افراد کی تنظیم ڈیفینس آف ہیومن رائٹس کے سال کے آخری اجلاس میں گزشتہ سال کی کارکردگی اور ملک میں انسانی حقوق کی دگرگوں صورت حال کا جایزہ پیش کیا گیا۔ سب سے پہلے پشاور کے ننھے شہدا کے لیے دعا کی گئی اور چیرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے پشاور دورے کے دوران شہدا کے اہل خانہ سے ملاقاتوں کا احوال بتایا۔ پشاور سانحے کے حوالے سے ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہسال 2014 کا بد ترین اور سیاہ ترین دن 16دسمبر تھا۔ جس میں پاکستان کے روشن مستقبل پر حملہ کرتے ہوئے معصوم بچوں کا بے دریغ قتلِ عام کیا گیا۔
ڈیفنس آف ہیومن رائیٹس کی چئیر پرسن آمنہ جنجوعہ نے نے اس اجلاس میں اس سانحہ پر شدید غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس طلم کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ ہم اپنے بچوں کا خون کبھی فراموش نہیں کریں گے اور انکا خون انشاءاللہ کبھی رائیگاں نہیں جائے گا۔ 16 دسمبر کی سیاہ رات کو ہم 2015 میں ایک نئے اُجالے میں تبدیل کریں گے۔ ہم اپنے آنسوﺅں کو پی کر انہیں اپنی طاقت بنائیں گے تا کہ مستقبل میں کوئی بھی ہمارے وطن عزیز کی طرف ٹیرھی آنکھ سے نہ دیکھ سکے۔ ہم 2014 میں شہید ہونے والے تمام شہداء کو خراج ِ تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے وطن عزیز کے لیے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا اور پاکستان کو ایک محفوظ اور مستحکم ملک بنانے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ ان شہدا ءکا تعلق چاہے عوام سے ہو، افواجِ پاکستان سے ہوچاہے وکلاءبرادری، تاجر برادری، کالج و یونیورسٹیوں سےہو یا پھر سکولوں میں پڑھنے والے معصوم پھول اور کلیاں ہوں۔ اس بات کا اعلان بھی کیا گیا کہ شہداء کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ایک قومی سطح کی تقریب انشاءاللہ جنوری 2015 میں منعقد کی جائے گی جو کہ شہداءکے والدین کے ساتھ ہو گی۔
اجلاس میں ڈی ایچ آر کی سالانہ رپورٹ پر گفتگو کی گئی جو کہ اگلے سال جنوری میں جاری کی جائےگی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ سال 2014 کا آغاز ایک طرف سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی آمد اور دوسری طرف تحفظ پاکستان آرڈینینس کے نفاذ سے ہوا۔ جہاں تحفظ پاکستان آرڈینینس نے بہت سے غیر اسلامی اور غیر انسانی اقدامات کو جائز بنا دیا وہیں چیف جسٹس تصدق جیلانی نے اپنے طرز عمل اور اس کے بعد اپنے متعدد بیانات سے انسانی حقوق کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کی۔ گزشتہ سال سے جاری لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت کو بتدریج کم کرتے ہوئے ختم کر دیا گیا۔
سپریم کورٹ کے سرد رویے کے بارے میں مذید ذکر کرتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا کہ ڈی ایچ آر کی طرف سے اس سال تین اہم درخواستیں دایر کی گئیں جن میں سے ایک غیر ممالک میں قید پاکستانیوں کےلیے، دوسری تحفظ پاکستان ایکٹ پر نظر ثانی کے لیے اور تیسری درخواست 100 سے زاید لاپتہ افراد کی لاشیں ملنے کے حوالے سے تھی مگر ان میں سے کسی درخواست کی شنوائی نہ ہو سکی۔
مسلم لیگ نواز کی حکومت بھی جبری گمشدگی کے ذمہ داروں کے سامنے جھکتی چلی گئی۔ حکومت کے تین اہم نمایندوں رکن اسمبلی پرویز ملک، رکن اسمبلی اور وزارت داخلہ کی پارلیمانی سیکریٹری مریم اورنگزیب اور ڈپٹی سپیکر مرتضٰی عباسی نے مختلف مواقع پر ڈی ایچ آر انتظامیہ کی وزیر اعظم سے ملاقات اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ٹھوس اقدامات کا وعدہ کیا مگر تمام وعدے جھوٹ ثابت ہوئے۔اسی دوران تحفظ پاکستان آرڈینینس کو اسمبلی سے پاس کروا کر باقاعدہ ایکٹ کا درجہ دے دیا گیا۔
حکومت کا ظلم اس حد تک بڑھا کہ لاپتہ افراد کی مظلوم ماؤں، بہنوں، بیٹیوں تک کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا اور لاٹھیوں سے پیٹا گیا۔ ڈی ایچ آر کی چیر پرسن آمنہ مسعود جنجوعہ پر تشدد کرتے ہوئے ان کو اور متعدد ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔
اس سب کے باوجود ڈی ایچ آر کی جدوجہد پورا سال پورے زور شور سے جاری رہی۔ بتایا گیا کہ تنظیم نے اس سال 46 سے بھی زیادہ سرگرمیاں منعقد کیں۔ یہ سرگرمیاں لاپتہ افراد کے مقدمات میں اس مفت قانونی معاونت کے علاوہ ہیں جس کی مالیت 90 لاکھ روپے سے زیادہ بنتی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملک میں اس وقت لاپتہ افراد کی مصدقہ تعداد 5149 تک پہنچ چکی ہے جس میں سے 2116 کیس ڈی ایچ آر نے درج کیے جبکہ 3033 کیس پشاور ہائی کورٹ میں سامنے آچکے ہیں۔ ان میں سے سال 2014 میں سامنے آنے والے کیسوں کی تعداد 252 ہے۔
رپورٹ میں مذید بتایا گیا کہ ڈی ایچ آر لاپتہ افراد کی بازیابی کے علاوہ دیگر فلاحی کاموں میں بھی مصروف رہی ۔ اس سلسلے میں وزیرستان کے آئی ڈی پیز کے لیے خیبر پختونخواہ کے شہر بنوں میں تین امدادی کیمپ قائم کئے گئے جن میں ڈاکٹری سہولیات، ادویات، نئے کپڑے اور کھانے پینے کا سامان فراہم کیا گیا۔
اجلاس کے اختتام پر اس بات کا عہد کیا گیا لاپتہ افراد کے بازیابی اور انسانی حقوق کی ترویج کے لیے آیندہ سال بھی پوری شدت سے جدوجہد جاری رہے گی۔
میڈیا ٹیم ڈیفینس آف ہیومن رائیٹس پاکستان۔ آفس نمبر 25 تیسری منزل مجید پلازہ بینک روڈ صدر راولپنڈی۔