تحریر : مبارک علی شمسی اب یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں انسانوںکے تلاطم خیز سمندر میں کتنے چہرے ابھرے اور کتنے ابدی طوفان کی نذر ہو کر ساگر زیست سے اوجھل ہو گئے۔ بازار دنیا میں کتنے چہرے نمودار ہوئے ، کچھ بھول گئے، کچھ یادرہے، اور کچھ عزیز ازجان چہرے لوح ذہن سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے مٹ گئے۔ بچھڑنے اور ملنے والے چہروں میں کچھ چہرے ایسے بھی تھے جو دل کے کورے کاغذ پر کسی مقدس تحریر کی طرح ثبت ہو کر ہمیشہ کے لیئے محفوظ ہو گئے ۔ انسانوں کی ٹھاٹھیں مارتے میلے میں جسے” دنیا” کہتے ہیں جب کوئی بہت پیارا چہر ہ دور ہوتا ہے تو میلے کی فکر نہیں رہتی بلکہ بہت دکھ ہوتا ہے۔ کبھی جو یادوں کی پٹاری کھولیں تو کیسی کیسی رنگ برنگی یادیںہماری آنکھوںکو خیرہ کرتی ہوئی اِدھر اُدھر بکھر جاتی ہیں۔ اس ذات اور اس کی پرانی یادوں سے وابستہ کتنے دیکھے بھالے منظر لمحہ بھر کے لیئے ہماری نظروں کے سامنے ٹھہر جاتے ہیں۔
گزرے ہوئے سنہری بچپن کی یادیں، پھول تتلی اور جگنو کو مٹھی میں بند کرنے کی معصوم یادیں،کتابوں میں نام لکھنے اور گلاب کے پھول رکھنے کی نادان یادیں بارش کے پانی میں کشتی چلانے کی ننھی یادیں کسی کی الفت میں گزرے ناقابل فراموش لمحات کی کرب آمیز یادیں، ہجر وصال کی صلیب پہ سسکتے، تڑپتے مہرووفا کے لاشے اور اس سے جڑی دلخراش یادیں ، عہد شباب میں عہد شکستہ کے کرب کی رنج آمیز یادیں، انسان یادوں کی اس نایاب کتاب کو زندگی کی شلف (الماری) میں کس قدر سجا کر رکھتا ہے اور پھر انہی حسین و سنگین یادوںکے سہارے باقی ماندہ حیات کے شب و روز گزرتے زندگی کی بند گلی میں شام ہو جاتی ہے۔
معزز قارئین یادیں ہی زندگی کا بہترین ساتھی اور تنہائیوں کی ہمراز ہوتی ہیں۔ کچھ یادیں اذیت ناک ہوتی ہیں اور کچھ یادیں سامان راحت میسر کرتی ہیں۔ یادیں کبھی اشکبار کرتی ہیں۔ تو کبھی سرشار ، انسان کا اپنی ذات سے جڑی یادوں سے الگ ہونا کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے۔ زندگی کی گھٹا ٹوپ اندھیری گھٹامیں جب آرزئوں کے جگنو چمکنا چھوڑ دیںتو یادیں بہت دور تک اجالے کا کام کرتی ہیں۔ جب سر سفر قدم ڈگمگاتے ہیں منرل کے نشان سے پہلے ہی شریک سفر اکتا کے ساتھ چھوڑ جاتے ہیں تو یادیں ہی مشعل راہ بن کر منزل کا پتہ دیتی ہیں۔
Sad Girl
جب مایوسیوں کے تندوتیز جکھڑ حوصلوں کے تنکے بکھیرنے لگتے ہیں تو یادیں پختہ مکان کی فصیل بن کر پناہ دیتی ہیں۔ یادیں قلب و روح میںسما کر ہماری زندگی کا اہم حصہ بن جاتی ہیں۔ انسان دنیا فانی سے کوچ کر کے منوں مٹی تلے دفن ہو جاتے ہیںمگر یادیں زندہ جاوید رہتی ہیں۔ عید کی آمد آمد ہے، گلی محلوں، گھروں اور بازاروں کو سجایا جا رہا ہے۔ روپے پیسے اور مادیت پرستی کی ہوس نے ہمیں اتنا بے بس بنا ڈالا ہے کہ ہمیںکسی کی خبر تک نہیں، ادھر ہمارے حکمرن اپنی سیاست چمکانے میں مصروف ہیں اور اپنی عیاشیوں میں مگن ہیں۔ انہیں ملک و قوم کی کوئی فکر نہیں ہے۔
انہیں فکر ہے تو بس اپنی تجوریاں بھرنے کی؟ترقی یافتہ قومیں اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرتی ہیں ایک ہم ہیں کہ غلطی در غلطی کی گردان دہرارہے ہیں۔ اب کہ بار بھی پہلے کی طرح ہمیں عیدالفطر پہ گوجرانوالہ ٹرین حادثہ میں جام شہادت نوش کرنیوالے پاک آرامی کے نوجوانوں کے جسد خاکی اور کراچی میں گرمی سے جاں بحق ہونیوالے سینکڑوں شہریوں کے لاشے ہمیں تحفے میں ملے ہیں۔اب لاکھ تحقیقات ہوئیں جانے والے کبھی لوٹ کے واپس نہیں آئیں گے۔ ہم حکومتی نااہلی کے باعث ملنے والے یہ تحفے کبھی فراموش نہیںکریںگے۔
اب بھی وقت ہے کہ حکومت ہوش کے ناخن لے اور ملک کو بحرانوں سے نجات دلائے اسی میں ہم سب کی فلاح ہے۔ اے ہلا ل عید! اب کہ بار بھی ہم عید کی خوشیاں منا نہ پائیں گے اے عید کے چاند سن ذرا خداراہ! ہمارے آنگن میں نہ آنا کیونکہ ابھی تک ہم غموں کے حصار میں ہیں
Mubarak Shamsi
تحریر : مبارک علی شمسی ای میلmubarakshamsi@gmail.com