تحریر : صادق رضا مصباحی آپ کبھی کسی مسلمان سے یہ کہہ کردیکھ لیں ’’جناب!ایسالگتاہے کہ شایدآپ اللہ سے زیادہ بی جے پی سے ڈرتے ہیں‘‘۔وہ کبھی آپ کی یہ بات نہیں مانے گابلکہ الٹاآپ سے خفا ہو جائے گااورآپ کے ایمان پرکمزوری کاالزام لگادے گا،اوراگرآپ کےمخاطب کوئی مولاناصاحب ہوں توممکن ہے کہ آپ کے خلاف فتویٰ بھی صادر کردیاجائے۔لیکن اگرکبھی ہمارا ضمیر مہلت دے اورہم خوداپنی عدالت میں روبروہوکرجواب تلاش کریں تویقین کیجیے آپ میری بات کی تصدیق کردیں گے ۔ ہم اگرچہ اس کااعتراف نہ کریں لیکن بیان واقعہ یہی ہے۔ مسلمانوں کی حالت دیکھ کر اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ انہیں شایداپنے معبودبرحق کااتناخوف نہیں ہے جتنابی جے پی کے اقتدار کا ہے ۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خداپران کا توکل کم ہوگیا ہے ،انہیں اپنی قوت بازوپربھروسہ نہیں رہا۔اس تناظرمیں ہندوستانی مسلمانوں کاکیس دراصل ان کانفسیاتی کیس ہے ۔یہ جب تک اس دبائو،خوف اوراحساس کمتری سے نہیں نکلیں گے،وہ آگے بڑھنا تو بہت دورکی بات ہے ،ایک قدم بھی چل نہیں سکیں گے ۔یہا ںسوال یہ ہے کہ مسلمانوں کامعاملہ آج کےد ورمیں نفسیاتی معاملہ کیوں بن گیاہے ؟ آج کی دنیا’’مارکیٹنگ‘‘کی دنیاہے ،اس کے ذریعے کوئی بھی کسی کوبھی رائی کوپہاڑ،مٹی کوسونا،کھوٹے کوکھرااورزیروکوہیروبناکرپیش کرسکتاہے ۔مارکیٹنگ میں اتنی طاقت ہے کہ یہ پوری قوم کوظالم اورمظلوم ثابت کرسکتی ہے۔
یہ مارکیٹنگ کاہی کمال ہے کہ آج بی جے پی ،برادران وطن کی نظرو ںمیں ’’وکاس پارٹی ‘‘کی حیثیت سے اپنی اہمیت منواچکی ہے اور مسلمان دہشت گرداورملک مخالف بتائے جارہے ہیں۔اس زبردست مارکیٹنگ ،ایڈورٹائزنگ اوراشتہارات سےمسلمان نفسیاتی طورپراحساس کمتری،دبائواورایک طرح کے خوف میں مبتلا ہوگئے ہیں۔اسی خوف کانتیجہ ہے کہ انتخابات کے موقع پران کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ چاہے جوپارٹی اقتدار میں آجائے مگربی جے پی نہ آئے ۔ وہ بی جے پی کے خوف میں کانگریس جیسی بدترین فرقہ پرست پارٹی کوبھی اپنالیتے ہیں ۔ مسلمانوں کی اس سوچ کے پس پشت دومضبوط عناصرکھڑے ہیں ۔ایک توخودبی جے پی اوردوسری نام نہاد سیکولر پارٹیاں ۔ بی جے پی لیڈران اس کثرت سے مسلمانوں کے خلاف بیانات دیتے چلے آرہے ہیں اوردیگرنام نہادسیکولرپارٹیاں اس شدت سے مسلمانوں پربی جے پی کاخوف طاری کرتی رہی ہیں کہ مسلمان خوف کی نفسیات میں جینے پرمجبورہوگئے ہیں اورشایداسی خوف نے ان سے صحیح اورکارگرفیصلہ کرنے کی بھی صلاحیت سلب کرلی ہے۔ انہوںنے پالیسی بنارکھی ہے کہ وہ اپناووٹ اسی امیدوارکودیں گے جس کے اندرفرقہ پرست پارٹی یعنی بی جے پی امیدوار کو ہرانے کی اہلیت ہوگی ۔(مسلمانوں کی یہ پایسی کتنی کامیاب ہوتی ہے ،اس پرگفتگوپھرکبھی)۔
حالاں کہ مسلمانوں کوجتناخوف اورجتنی نفرت کانگریس سے ہونی چاہیے ،اتنی بی جے پی سے نہیں ہونی چاہیے کیوں کہ کانگریس جوسیکولرہونے کا دعویٰ کرتی ہے اورمسلمانوں کوکئی دہائیوں سے فرقہ پرستوں سے ڈراتی آرہی ہے ،ایک بہترین فرقہ پرست پارٹی کے طورپرخودکوثابت کرچکی ہے ۔مسلمان آج جن بدترین حالات تک پہنچے ہیں ان کے پیچھے صرف اور صرف کانگریس ہے مگرپتہ نہیں مسلمانوں کو کیا ہوگیا ہے کہ انہیں کانگریس سے اتنی شکایت نہیں ہے جتنی بی جے پی سے ہے ۔مسلمانوں کومعلوم ہوناچاہیے کہ بی جے پی کھلی دشمن ہے اور کانگریس جیسی فرقہ پرست سمیت دیگرسیاسی پارٹیاں جوکچھ نہ کچھ ضرورفرقہ پرستی کے جراثیم رکھتی ہیں،چھپی ہوئی دشمن ہیں،اوریہ حقیقت ہے کہ چھپاہوادشمن کھلے ہوئے دشمن سے زیادہ خطرناک ہوتاہے ۔ بی جے پی اس لیے خطرناک اورکھلی ہوئی دشمن بن گئی ہے کہ اس کے وزرااورامیدوارمسلمانوں کے خلف مسلسل بیان بازی کرتے ہیں ،انہیں ذہنی طورپر ہراساں کرتے ہیں ۔اس طرح کی بیان بازیوں سے ان کاسب سے بڑامقصدیہ ہوتاہے کہ کہ ہندومتحدہوجائے اوروہ اقتداربی جے پی کی جھولی میں ڈال دے ۔بی جے پی کہتی چلی آئی ہے کہ اسے مسلمانوں کاووٹ نہیں چاہیے ۔ وہ یہ کہہ کرنشانہ کسی اورطرف لگاتی ہے مگرسادہ لوح برادران وطن اس کی معنویت کوسمجھ ہی نہیںپاتے بالکل ایسے ہی جیسے ہمارے سادہ لوح مسلمان بھائی پوری قوت سے بی جے پی کوہرانے کے لیے آمادہ ہوجاتے ہیں ۔آپ ذراتجزیہ کرلیجیے کہ جن امیدواروں کوآپ نے اس لیے ووٹ دیاتھا کہ اس کی وجہ سے بی جے پی کاا مید و ار ہار جائے،اورآپ کی کوششوں سے بی جے پی ہاربھی گئی لیکن آپ کے منتخب امیدوارنے کتنے فیصد آپ کے کام کیے ؟۔آپ کی بیمارسوچ کاحال تویہ ہے کہ آپ مسلمانوں کے حقوق کی بات کرنے والی پارٹی کے امیدوار کے بجائے کانگریس یااس جیسی نام نہادسیکولرپارٹیوں کو ووٹ دینازیادہ پسندفرماتے ہیں ۔ممبئی میونسپل کارپوریشن نے آپ کارازفاش کردیاہے۔
آپ نے مجلس اتحادالمسلمین کے امیدوار کے بجائے کانگریس یادیگرنام نہادسیکولراورآزمائے ہوئے کودوبارہ آزمایاہے ۔اس طرح آپ نے چبے چبائے نوالے دوبارہ کھائے ہیں۔آپ نے ۲۰۱۴کے پارلیمانی الیکشن میں پوری کوشش کرڈالی کہ بی جے پی ہارجائے ،مگروہ جیت گئی اوربہت شاندارجیتی ۔ممبئی میونسپل کارپوریشن میں بھی بی جے پی توقع سے کہیں زیادہ کامیاب ہوگئی اوراب آپ یوپی الیکشن کے نتائج کے لیے بھی تیاررہیے ۔اندازہ ہونے لگاہے کہ وہاں بھی بی جے پی ہی بڑی پارٹی بن کرابھرنے والی ہے ۔اس لیے ایسے حالات میں مسلمانوں کو زبردست حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔جس طرح مسلمان دیگرپارٹیوں کو ووٹ دیتے آئے ہیں اسی طرح اگرمسلمان بی جے پی کوووٹ دینے لگیں اورپارٹی کوبھی یہ احساس ہوجائے کہ مسلمان اسے سپورٹ کررہے ہیں توممکن ہے کہ بی جے پی اپنی مارکیٹنگ کا اسٹائل بدل دے اورآپ کی خوف کی نفسیات کا علاج بھی ہوجائے ۔چنددنوں قبل بی جی پی کے سینئرلیڈرونے کٹیارنے کہاتھا کہ بی جے پی مسلمانوں کواس لیے ٹکٹ نہیں دیتی کہ مسلمان اسے ووٹ نہیں دیتے ۔میراناقص مشورہ ہے کہ جس طرح آپ دیگرپارٹیوں کوووٹ دیتے ہیں یا یوںکہیے کہ ووٹ دے کرمارکھاتے ہیں اسی طرح بی جے پی کوبھی ووٹ دے کردیکھ لیجیے ،شایدآپ کااحساس کمتری ختم ہوجائے ۔ مسائل توخیراتنی جلدی ختم نہیں ہوںگے اورآپ کو ابھی برسوں تک دوسروں کی خیرات پرپلناہے ۔اسی لیے کم ازکم جہاں سب کچھ کرتے آئے ہیں ،وہاںیہ بھی کرکےدیکھ لیجیے۔
یادرکھیے، سیاسی پارٹیاں کسی کی بھی نہیں ہوتیں حتیٰ جن کے ووٹوں سے یہ منتخب ہوکرآتی ہیں ان کی بھی نہیں ہوتیں۔حکمراں صرف اپنے اقتداراورمفادکے پجاری ہوتے ہیں ۔ یہ کسی بھی کمیونٹی کافائدہ اسی وقت کراتے ہیںجب انہیں اس سے فائدے کی امیدہوتی ہے ۔جس کوہم فرقہ پرست اورفرقہ پرستی کہتے ہیں حقیقت میں یہ مفادپرست اورمفادپرستی ہے ۔ سیاست میں فرقہ پرستی نہیں مفادپرستی چلتی ہے ،یہاں ہوتاکچھ ہے، دِکھایاکچھ اورجاتاہے ۔ذرابی جے پی کی پالیسی ملاحظہ کیجیے کہ ایک طرف تووہ ہندئوں کومسلمانو ںکے بارے میں یہ کہ کرخوف دلاتی ہےکہ اگرمسلمانوں کے نمائندے ایوانوںمیں پہنچ گئے توہندومذہب خطرے میں پڑجائے گا اورہندئوں کوکاٹ ڈالاجائے گا ۔وغیرہ وغیرہ ۔ برادران وطن اتنے سادہ لوح اوربیوقوف واقع ہوئے ہیں کہ اتنابھی نہیں سمجھتے کہ ملک میں ہندو۸۰فی صدہیں اورمسلمان صرف ۲۰فیصد۔۲۰فی صد کا۸۰فی صدسے کیامقابلہ ۔دوسری طرف مسلمانوں کی حماقتیں دیکھیے ،بی جے پی کی ان بیان بازیوں سے یہ احساس کمتری میں ڈوب جاتے ہیں اوردفاعی پوزیشن پرکھڑے ہوجاتے ہیں ۔انہیں سمجھانے والاکوئی نہیں کہ میاں!تمہیں بی جے پی سے ڈرنے کی ضرورت ہی کیاہے ۔اگروہ آجائے توآجانے دو۔بی جے پی توچاہتی ہی یہ ہے کہ ایسی ہوابنادوکہ بی جے پی مسلمانوںکی دشمن ہے ،وہ ظاہریہی کرناچاہتی ہے کہ مسلمانوں کے حقوق پرڈاکہ ڈالاجارہاہےتاکہ ا نہیں اقتدارتک پہنچانے کے لیے ہندومتحدہوجائے۔ اوراگرواقعی ہم اسے فرقہ پرستوں کی سازش سمجھتے ہیں توکیااللہ نے ہماری کھوپڑی میں مغز نہیں رکھا؟ہم ان کی سازشوں کوکامیاب ہی کیوںہونے دیتے ہیں ۔ چورکاکام چوری کرناہی ہوتاہے ،اگرآپ اپنے مال کوچوری سے بچاناچاہتے ہیں تواس کی نگہ بانی کریں ، مضبوط پہرے بٹھائیں۔اگراس کے باوجودچوری ہوجائے تواس میں غلطی کس کی ہے ؟چورکی یا پہرے دارکی ؟اس لیے فرقہ پرستوں کے اشتعال انگیزبیانات کومت کوسیےکیو ںکہ ا ن کاکام ہی یہی ہے،ان کی تربیت ہی اسی طرح ہوئی ہے۔انہیں بدلنے کامطالبہ مت کیجیے بلکہ آپ خودبدل جائیے اورایک دن ایساآئے گاکہ وہ خودبدل جائیں گے۔
Narendra Modi
ان اشتعال انگیزیوں کے پیچھے آرایس ایس کی کئی دہائیوں کی محنت ہےاس لیے اس کانتیجہ توبھکتناہی ہے ۔ہم اس لیے بھکت رہے ہیں کہ ہمارے آبانے ایساکوئی کام نہیں کیااوراگرکیابھی توہم نے اسے مطعون کرنے کی کوئی کسرنہ چھوڑی۔ اگرہم آج کچھ نہیں کریں گے توکل ہمارے بچوں کوبھی یہی جھیلناہوگا۔اقبال نے غلط نہیں کہا ہے جرم ضعیفی کی سزامرگ مفاجات کمزورہمیشہ دوسرے نمبرپررہتاہے اوراس خو ف ،احساس مظلومی اوراحساس کمتری نے ہمارے سارے کس بل نکال کررکھ دیے ہیں ۔اس لیے اگرمرگ مفاجات کی سزاسے نجات حاصل کرنی ہے توجرم ضعیفی سے باہر جلد از جلدباہرنکلناہوگا۔ماہرین نفسیات کہتےہیں کہ خوف کاکہیں کوئی خارجی وجودنہیں ہوتا،یہ صرف ہمارے ذہن کاوہم ہوتا ہے لیکن اسے خود کو مجسم کرنے کے لیے خارج میں کوئی وجودچاہیے ہوتاہے ۔اس وقت مسلمانوں نے بی جے پی کے اندراپنے خوف کومجسم کرلیاہے ۔ماہرین نفسیات کے مطابق جب کسی قوم یا انسان پر خوف کی نفسیات سوارہوجاتی ہے تووہ اس کے پورے وجودپرمسلط ہوجاتی ہے اورانسان اس کی وجہ سے یاتومرجاتاہے یااگرطاقت ورہےاور آگے بڑھنے کاجذبہ ہے توپھراس پر قابو پا لیتا ہے ۔نفسیات کے ان اصولوں کی روشنی میںاب یہ فیصلہ ہمیں کرناہے کہ ہم زندہ رہناچاہتے ہیں یامردہ۔