معاشرتی مسائل کا ذمہ دار کون ہے کہا جاتا ہے

Society

Society

تحریر : اختر سردار چودھری

کہ معاشرہ ترقی کر رہا ہو تو ملک بھی ترقی کرنی شروع کر دیتا ہے، ملکی ترقی کا انحصار معاشرے پر ہے ،مگر معاشرے کی ترقی کی انحصار افراد پر ہے یعنی ہم پر ہے۔ ہم یعنی میں اور آپ ۔ہم کیا کرتے ہیں ہر برائی کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال دیتے ہیں خود اپنے فرائض پورے نہیں کرتے بلکہ اپنے حقوق لینے کی جہدوجہد بھی نہیں کرتے اور ملکی زوال کی ذمہ داری حکمرانوں پر ڈال کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ اگر کسی معاشرتی مسائل یا معاملے میں حکمرانوں کو معاف کر بھی دیں تو معاشرے میں جتنی برائیاں ہیں ان کو بیرونی سازش قرار دے دیتے ہیں۔

دو باتیں غور طلب ہیں ہمارے حکمران ہیں یہ بھی تو عوام ہی ہوتے ہیں ان کو ہم اپنے ووٹ دے کر خواص بنا دیتے ہیں جس کے بعد یہ عوام نہیں رہتے حکمران بن جاتے ہیں اور پھر ان کے خلاف ہم عوام ہی ہر وقت رونا روتے رہتے ہیں کہ انہوں نے یہ کر دیا یہ نہیں کیا وہ کیوں کر دیا وغیرہ اور خود کچھ نہیں کرتے اگر ہم عوام خود کو سنوار لیںصرف اپنی ذمہ داریاں پوری کریں تو معاشرہ سنور سکتا ہے ملک ترقی کر سکتا ہے کیونکہ جیسی عوام ہوتی ہے ویسی حکومت ہوتی ہے ۔دوسری بات سازش کا رونا رونے کی ہے کہ غیر مسلم ہمارے خلاف سازش کر رہے ہیں اس میں بھی ہمارا اپنا قصور ہے ہم جانتے ہوئے بھی ان کی سازش کا حصہ بن جاتے ہیں ۔اور جو کہ ہوتی بھی ہمارے خلاف ہے ایک سازش یہ ہے کہ ہم کو آپس میں لڑا کر کمزور کر دیا جائے ہم سندھی ،مہاجر،پنجابی،بلوچی،پشتونی اور اب سرائیکی بھی بن کر آپس میں لڑیں اس سے ملک کمزور ہو گا ہم ایسے ہیں کہ ان کی سازش میں آکر آپس میں لڑ رہے ہیں

کتنی بے دلیل بات ہے۔ہم کو چاہیے کہ ان کی سازش کا حصہ نہ بنیں اسی طرح فرقہ پرستی کا کینسر ہے ہم اپنے مخالفین کی بات مانتے ہیں آپس میں ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھولے ہوئے ہیں اللہ کی مان لیں کہ سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اب جو اللہ کی نہیں مانے گا اس کا یہی حال ہونا ہے جو ہمارا ہو رہا ہے بھائیوں۔۔۔ ہم نے تو ویسے بھی اللہ کے خلاف اعلان جنگ کیا ہوا ہے ۔سود ی نظام رائج کر کے اس کو برداشت کر کے اس کے خلاف جہاد نہ کر کے ۔میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ اگر ہم خود کو سنوار لیں اس سے معاشرہ سنور جائے گا ۔خود غرضی ہمارے اندر رچ بس گئی ہے چند ایک مثالیں دیکھیں اگر ہم ڈاکٹر ہیں تو ہمارا مقصد زیادہ سے زیادہ پیسے کمانا ہے مریضوں کا علاج کرنے کو ترجیح دینے کی بجائے۔ سنا ہے ڈاکٹر ادھار بھی نہیں کرتے۔

گلی محلے میں ڈاکٹر ہیں وہ دوائیں خریدتے ہیں جن سے بچت زیادہ ہو تی ہے جو آدھی قیمت پر ملے چاہیے وہ ناقص ہوںایسی ادویات ہوتی ہیں اکثر تو دو نمبر ادویات خریدی جاتی ہیںمثلا ایک سیرپ پر 60 روپے قیمت لکھی ہے مگر ڈاکٹر کو وہ سیرپ 30 روپے میں ملتا ہے اسی بیماری کے علاج کے لیے اصلی سیرپ جو کہ خالص ہوتا ہے 50 روپے کا ملے گا اور اس کی ڈبی پر 60 ہی لکھیں ہوں گے جتنی قیمت اور بچت کا فرق ہے اتنا کوالٹی میں فرق ہو گا اب مریض کو یہ سیرپ جو قیمت لکھی ہے اسی حساب سے ملے گا لیکن ڈاکٹر اپنے فائدے کے لیے ایسی ہی ادویات مریضوں کو دیں گے۔یہ جو ڈاکٹر ہے عوام ہے ،کتنے افراد کی زندگی سے کھیلتا ہے

Law

Law

صرف اپنی خود غرضی کے لیے ۔ہمارے معاشرے کا ایک کردار وکیل ہے اس کو اس سے کیا لینا دینا ہے کہ اس کا موکل ظالم ہے یا مظلوم اسے تو اپنی فیس سے غرض ہے وکیل جانتے ہیں ان کو علم بھی ہوتا ہے کہ کون سچ پر ہے لیکن وکیل خود ہی پیسے لے کر اسے بتاتے ہیں کہ قانون کے شکنجے سے کیسے بچنا ہے ،اس طرح دیکھا جائے تو معاشرے میں یہ وکیل نا انصافی کو تحفظ فراہم کر رہا ہے،کامیاب وکیل وہ ہوتا ہے جو سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کر دے۔اسی طرح استاد کو دیکھ لیں،معاشرے کی اصلاح میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے لیکن اس کے بر عکس ہمارے اساتذہ کی اکثریت کو اپنی تنخواہ سے غرض ہوتی ہے سرکاری ٹیچر ہے

تو یقین کریں اپنا حق ادا نہیں کرتے علم بیچتے ہیں ،بچوں کو رٹو طوطے بناتے ہیں ۔اکیڈمیا ں کھولی ہوئی ہیں سکول کی بجائے ٹیوشن پڑھانے کو ترجح دیتے ہیں ۔ہم عوام ہی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے اسی طرح ہم دکاندارحضرات کی اکثریت اشیائے خودرنوش میں ملاوٹ کرتے ہیں اس بات کو جانتے بھی ہیں کہ ملاوٹ کرنا معاشرتی اور اخلاقی برائی ہے جس نے ملاوٹ کی ہمارے نبی ۖ نے فرمایاہے اس کا ہم سے تعلق نہیں ہے ،ہم خود رشوت لیتے ہیں اور دیتے ہیں ہمارے معاشرے میں اب جائز کام کروانے کے لیے بھی رشوت دینی پڑتی ہے اس کے باوجود کہ رشوت دینے اور لینے والا دونوں دوزخی ہیں کہتے ہیں کہ فحاشی اور بے حیائی معاشرے میں پھیلتی جا رہی ہے اس کا ذمہ دار کون ہے نصیبو لال کے گانے عوام کو پسند ہیں اس لیے تو گائے جاتے ہیں کیا یہ ہمارے محلوں،گاڑیوں میں حکمرانوں کے حکم پر بلند آواز سے چلائے جاتے ہیں یا یہ ہمارے معاشرے کا قصور ہے ہمارا قصور ہے۔

جس بات سے ہم اختلاف رکھتے ہوں اور کوئی دلیل نہ ملے تو گالیاں دینا ،چھوٹی چھوٹی باتوں پر قتل کر دینا ،چوری ،ڈاکہ زنی ،یہ سب تو ہم عوام ہی کر رہے ہیں ۔اگر ہم یہ سوچیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں کیا ہم اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں ،ہم اپنا احتساب کر یں تو علم ہو گا معاشرے میں جتنی برائیاں ہیں ان میںسے اکثر میں ہمارا ہاتھ ہے ۔اگر یہ عوام بائیکاٹ کر دے آٹا،،چینی ،گھی،دالیں۔سبزیات،وغیرہ مہنگی ہو ں تو بائیکاٹ کر دیا جائے تو ان اشیاء کے خود ہی ریٹ کم ہو جائیں گے ہمارے ہاں اس کے الٹ ہوتا ہے کسی چیز کے ریٹ میں اضافہ ہو تو لائن لگ جاتی ہے جیسے اسی دن کا انتظار ہو کہ کب قیمت میں اضافہ ہو اور کب خریدنے جائیں۔

اس لیے یہ کہنا کہ مہنگائی کے ہونے میں عوام کا بھی ہاتھ ہے کوئی حرج نہیں ہے اگر آپ کا کوئی قریبی رشتہ دار یا محلے دار بھوکا سویا ہے تو کیا اس کا ذمہ دار ملک کا وزیر اعظم ہے ہاں اس بارے میں حکمرانوں سے پوچھا جائے گا تو کیا آپ سے باز پرس نہیں ہوگی ۔کیا ہم عوام اس کے ذمہ دار نہیں ہیں ۔تو ان جیسے بے شمار معاشرتی مسائل کے ذمہ دار کون ہیں ۔

Akhtar Sardar Choudary

Akhtar Sardar Choudary

تحریر : اختر سردار چودھری