تحریر: لقمان اسد خوشاب خوبصورت پہاڑوں اور حسیں آبشاروں کی سر زمین ہے گنجیال کے سید پیر اصغر علی شاہ کی محبت خوشاب لے گئی۔ سید اصغر علی شاہ گیلانی سے موجودہ ملکی صورت حال پر سیر حاصل بحث ہوئی مگر میں رات کے ایک افسوس ناک واقعہ پر اُس دن اس قدر افسردہ تھا کہ دن کو باتوں کا مزہ تو کیا گفتگو کا مطلب تک سماعت میں اُتارنے اور ذہن پر بٹھانے سے قاصر رہا واقعہ کچھ یوں ہے کہ ”چوآ ” جو خوبصورت ،اونچے مینار والی مسجدوں ،حد درجہ حسیں مزاروں سے مزین ایک گائوں ہے
بڑی بڑی محل نما کوٹھیاں اس گائوں کی خوبصورتی اور رونق کو دوبالا کرتی ہیں اس دلکش گائوں میں جاکر کسی صورت بھی یہ گماں نہیں گزرتا کہ یہاں کوئی غریب اور مفلس بھی بستا ہوگا مگر میں اُس وقت دنگ رہ گیا جب میں ایک دوست کے ہمراہ ایک ایسے گھر میں پہنچا جو اُن لوگوں کا اپنا گھر نہیں تھا جس میں وہ مکیں تھے میرے دوست نے ”فتح خاتوں”نامی عورت سے میرا تعارف کرایا جسے سب گائوں والے ”پَھتی ”کے نام سے بلاتے ہیں جب ہم ”پَھتی ”کے گھر پہنچے تو وہ بہت خوش ہوئی ہمارے لئے سبز چائے بنا لائی پھر وہ زمیں کے کچے فرش پر سوئی ہوئی بچی کو نیند سے بیدار کرنے میں مصروف ہو گئی
Innocent
جب کچے فرش پر سوئی اُس کی بچی آنکھوں کو اپنے معصوم ہاتھوں سے ملتی ہوئی نیند سے بیدار ہوئی اُس نے اپنی ماں فتح خاتوں سے روٹی مانگی ”پَھتی ”رونے لگی اور میرے دوست سے گویا ہوئی کل کا آٹا ختم ہے مکان والے گھر چھوڑنے کا کہہ رہے ہیں آج ایک زمیندار نے ہمیں لینے آنا تھا وہ ابھی تک نہیں آیا اُس کی آنکھو ں سے آنسوئوں کا سیلاب جاری تھا جسے روکنا ہمارے بس سے باہر تھا ہم گویا بے بسی سے اُس کی درد بھری داستان الم سن رہے تھے وہ بار بار اپنی نم پلکوں کو اپنے پرانے دوپٹے سے صاف کرتی اور پھر سسکیاں لے لے کر بات کرتی یہ معصوم بچے بھوک سے بلکتے رہتے ہیں نہ میرا کوئی وارث تھا اور نہ ہی ان کا کوئی ولی وارث ہے
اس دھرتی پر کوئی اپنا نہیں جسے میں اپنا دکھ بتاسکوں عمر گزر گئی مگر در بدر کی ٹھوکروں کا سلسلہ ابھی مکمل نہیں ہوگزرا ۔ابھی اُس کی گفتگو جاری تھی ایک ٹرک اُس کے دروازے پر آکر رکا ہم سمجھ گئے یہ ٹرک اُسی زمیندار نے بھیجا ہوگا جس کا پھتی ذکر کر رہی تھی لاوارث پھتی اپنے تین بچوں اور دو بکریوں کے ساتھ اس ٹرک پر سوار ہو گئی وہ اب زمیندار کے گھر کا کام کرے گی اُس کے مال مویشی سنبھالے گی
اُس کی گندم کی کٹائی بھی کرے گی ”پَھتی ”جس گھر کو چھوڑ کر جارہی تھی وہ اُس کے سگے بھائیوں کا تھا مگر اُس کے بھائی اُس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے تھے اپنے گھر سے نکل جانے کا کہتے تھے ”پَھتی ”چلی گئی ہم واپس اپنے دوست کے گھر کی طرف لوٹے تو اُس گائوں میں موجود مسجدوں اونچے میناروں اور مزاروں کے بلند گنبدوں سے ”خدا ” کہیں زیادہ اونچا محسوس ہوا اور صحرا کا وہ مرحوم شاعر عدیم صراطی یاد آیا کیا بتائوں ساقی تیرے میخانے میں کیا دیکھا ہے خون ِ جمہور صراحی میں بھرا دیکھا ہے یہاں ایک فرعون کا رونا تو نہیں میرے لئے میں نے ہر شخص کے تیور میں خدا دیکھا ہے