تحریر : سلطان حسین ایک محترمہ کو ٹیلی فون پر دیر تک باتیں کرنے کی عادت تھی ایک مرتبہ فون آیا تو محترمہ نے صرف پندرہ منٹ گفتگو کی شوہر کو بڑا تعجب ہوا اور اس نے پوچھا ”یہ کس کا فون تھا جو اتنا جلدی ختم گیا” محترمہ نے بے زاری سے کہا رانگ نمبر تھا ایسے ہی رانگ نمبر پاکستان اور بھارت میں بھی اکثر ملتے ہیں یہ رانگ نمبر کچھ دنوں تک بڑے جوش و خروش سے چلتے ہیں اور پھر رانگ نمبر کی طرح اچانک بند ہوتے جاتے ہیں اور پھر رانگ نمبر ہی کی طرح برسوں نہیں ملتے اکثر جب نمبر ملتا ہے تو ماہرین ‘مبصرین اور تجزیہ نگار بہت جلدی امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں اپنی ماہرانہ رائے سے پوری قوم کو نوازتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ وہ جو دل خوش کن نقشہ کھنچ رہے ہیں وہ اب پورا ہوا کہ تب پورا ہوا بعض ماہرین تو سردی ہو یا گرمی فوراََ برف کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں اور اسے پگھلانے کا عمل شروع کر دیتے ہیں لیکن یہ سٹیل کی بنی ہوئی ایسی برف ہے کہ یہ پگھلنے کا نام ہی نہیں لیتی بلکہ پگھلنے کی بجائے مزید جم جاتی ہے اور دہلی میں تو یہ سال کے بارہ مہینے جمی رہتی ہے گذشتہ 68 برس سے یہ برف سٹیل کی طرح جم گئی ہے اور ہمار ے ”بڑے ” اسے پگھلانے کے لیے منتیں ترلے کرتے رہتے ہیںان منتوں اور ترلوں میں وہ اتنے مگن ہوتے ہیں کہ بعض اوقات تو اپنے ذاتی مفادات کے لیے قومی مفادات تک کو نظرانداز کردیتے ہیں پچھلے سال دسمبر کے آخر میں جب بھارتی وزیراعظم نے افغانستان سے واپسی پر پاکستان میں قدم رنجا ”فرمایا” تو انہی ماہرین نے برف پگھلانے کا عمل دوبارہ شروع کر دیا۔
انہوں نے مودی کی پاکستان آمد سے حسب معمول پھر بڑی امیدیں وابستہ کر لی تھیں مجھے ان امیدوں پر ہنسی آئی تو میرے ایک ساتھی نے مجھ سے پوچھا تمہارا کیا خیال ہے میں نے اسے ایک لطیفہ سنایا آپ بھی سن لیں میں نے اسے کہا سکول میں پی ٹی کے ماسٹر لڑکوں کو سمجھا رہے تھے بچوں جب میں ”ڈس مس” کہوںتو آپ سب دوڑ کر کلاسوں میں چلے جائیں”ماسٹر صاحب نے اس کے بعد ابھی صرف ”ڈس” ہی کہا تھا کہ سب لڑکے کلاسوں کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے لیکن ایک لڑکا کھڑا رہا ماسٹر صاحب نے اس سے پوچھا ”سب لڑکے چلے گئے ہیں لیکن تم ابھی تک کھڑے ہوکیوں” لڑکے نے جواب دیا سر میں آپ کے ”مس ”کا انتظار کر رہا ہوںمیرے دوست نے کہا میں سمجھا نہیں میں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا کہ مودی آتو گئے لیکن ہمیں اس کے ”مس” کا انتظار ہے (اور یہ ”مس” پٹھان کوٹ حملے کی صورت میں اب واضح نظر آرہا ہے پٹھان کوٹ حملہ کے بارے میں عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ حملے سے ایک روز پہلے سیکورٹی حکام نے ائیربیس کے باہر لگے بیرئیر ہٹا دیئے تھے(آخر کیوں؟) جبکہ قریبی علاقے میں دکانیں بھی جلد بند کروا دی گئیں)میں نے اسے جواب دیا یہ بیل زیادہ دن منڈھے نہیں چڑھے گی پوری دنیا برف پگھلاتی رہے۔
لیکن یہ برف پگھلے گی نہیں مزید جم جائے گی صرف چند دن انتظار کے بعد دیکھ لینا میرے ساتھی نے مجھ سے زیادہ اتفاق تو نہیں کیا لیکن میں اس وقت بھی اپنے موقف قائم رہا اب بھی ہوں اور آئندہ بھی رہوں گا بھارتی انتہا پسند وزیراعظم سے زیادہ امیدیں وابستہ کرنا ایسا ہی ہے جیسا کسی غریب کا محل بنانے کے لیے بڑھکیں مارنامودی کی اچانک (حالانکہ میں اسے اچانک نہیں بلکہ پہلے سے طے شدہ سمجھتا ہوں جو چند حقائق سے بھی ثابت ہے اگر ضرورت پڑی تو اس پر پھر کسی وقت بات بھی ہوسکتی ہے )پاکستان آمد پر بھی ہمارے اور بھارتی اور پاکستانی نگاروں نے بڑے سہانے سپنے دیکھے اور لو گوں کو دکھائے لیکن جو زمینی حالات اور حقائق کا اداراک رکھتے تھے اور ہیں اور مخصوص لوگوں میں شامل نہیں تھے اور ہیں انہوں نے حقیقت کھل کر بیان کی اور اس ابتدائی ”شروعات” سے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کیں۔
Narendra Modi
ہمارے حکمران بھی بڑے خوش اور شاداں نظر آرہے تھے جیسے انہوں نے کوئی بڑا معرکہ مارا ہو مودی کی آمد کو وہ اپنی کامیابی سمجھتے تھے اور اس کا دعوی بھی کرتے تھے لیکن لگتا ہے کہ ان کی ساری خوش فہمیاں جلد دور ہونے والی ہیں (اللہ کرئے ایسا نہ )مودی کی پاکستان آمد رانگ نمبر تھا جسے ہم رائٹ نمبر سمجھ بیٹھے تھے لیکن نمبر ملانے والا اب خود ہی اسے رانگ نمبر کے طور پر اب سمجھانے والا ہے پٹھان کوٹ جو بھارت کے زیر قبصہ مقبوصہ کشمیر کے راستے میں آتا ہے اور دہلی سے تقریباَ430 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے پر حملہ ہوتے ہی اس کا الزام پاکستان پر لگا دیا گیا جیسا کہ حملہ آوروں نے حملہ کرتے ہی اعلان کر دیا ہو کہ وہ پاکستان سے آئے ہیںیا انہوں نے حملہ کرتے ہی کہہ دیا کہ انہیں پاکستان نے بھیجا ہے حملہ ہوتے ہی بھارتی وزراء نے اپنی روایتی دشمنی کے باعث الزام پاکستان پر لگانا شروع کر دیا لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ بھارتی میڈیا بھی کسی سے پیچھے نہیں رہی اور اس نے بھی حملہ ہوتے ہی سارا نزلہ پاکستان پر گرا دیا اور زہر اگلنا شروع کر دیا نہ شواہد نہ ثبوت بھارتی فورسز ابھی حملے سے نمٹے بھی نہیں سکے تھے لیکن اس کے باوجود پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی گئی۔
صرف ایک چینل نے الزامات کے ساتھ ساتھ تھوڑی سی اعتدال پسندی سے کام لیا ورنہ تو باقی سب نے اپنی اپنی نسبت سے حملے کا تعلق پاکستان سے جوڑنے کی اپنی سعی پوری کوششیں کیں کسی نے آئی ایس آئی کا نام لیا اور کوئی اسے پاک فوج کے خلاف ستعمال کرنے لگا لیکن بھارتی میڈیا الزامات کی اس بوچھاڑ میں اپنے ہی الزامات کی نفی کرتا رہا اگر پاک بھارت مذاکرات کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو پٹھان کوٹ ائربیس پر حملے کا سارا ڈرامہ خود بخود سمجھ میں آنے لگتا ہے پاکستان اور بھارت میں اس وقت کشمیر سمیت کئی معاملات متنازعہ ہیں اور انہی معاملات پر علاقے کا چوہدری بنے کے خواہش مند بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کشیدگی چلی آرہی ہے ان معاملات کو حل کرنے کے لیے مذکرات شروع کرنے کے لیے جب بھی عالمی دباوبڑھتا ہے۔
بھارت مذاکرات کی ابتداء تو عالمی دباؤ کی وجہ سے کرلیتاہے جس پر پاکستانی حکمران پھولے نہیں سماتے اور اسے اپنی کامیابی قرار دیتے ہیں لیکن بھارت جلد ہی پٹھان کوٹ جیسے ڈرامے رچاکر ان کی خوش فہمیاں دور کر دیتا ہے اس سے قبل بھی پہلے مذکرات ختم کرنے کے لیے بھی بھارت نے ممبئی حملوں کا ڈرامہ رچایا جس کا بھانڈہ خود ان کے اپنے ہی حکام نے پھوڑ دیا لیکن پاکستانی حکمرانوں اور نہ ہی متعلقہ حکام نے اس سے فائدہ اٹھایا الٹا بھارت کے دباؤ ہی میں رہے اور اسے ممبئی حملوں کے ملزموں کے بارے میں ایسی یقین دہانیاں کراتے رہے جس کی ضرورت ہی نہیں تھی اگر بھارتی حکام کے انکشافات سے فائدہ اٹھایا جاتا اور عالمی سطح پر بھارتی سازش کو بے نقاب کیا جاتا تو اس کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے آتا پاکستانی حکمران معلوم نہیں کیوں دبتے ہیں حالانکہ بھارت اپنے کئے ہوئے وعدوں سے پھرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتااور پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔
India
بھارت نہ پہلے متنازعہ معاملات پر بات چیت کرنا چاہتا تھا نہ اب وہ یہ چاہتا ہے اور نہ آئندہ اس کا ایسا کوئی ارادہ رکھتا ہے بھارت صرف وقت گزاری کر رہا ہے وہ ان معاملات کو پس پشت ڈال کر صرف تجارت میں دلچسپی رکھتا ہے اسے نہ صرف پاکستان کی منڈی چاہیے بلکہ وہ پاکستان سے راہداری کی سہولت چاہتا ہے تاکہ اسے وسطحی ایشیاء تک رسائی حاصل ہو اور ان کو نئی منڈیاں مل سکیںاس کے سوا اسے کسی معاملے کو حل کرنے میں دلچسپی ہے نہ رہے گی وہ پاکستان سے ”کھیل” کر خود کو علاقے کا سپر مین اور پاکستان کو اپنا زیرسایہ رکھنا چاہتا ہے جس کے لیے قوم تو تیار نہیں تاہم ان کے بعض حکمران ضرور تیار ہیں اور وہ ذہنی طور پر قوم کو بھی تیار کررہے ہیں کیونکہ ان کے بھارت سے اپنے مفادات وابستہ ہیں اسی لیے کئی معاملات میں وہ بھارت کے خلاف بات کرنے سے بھی کتراتے ہیں جب تک عالمی قوتیں نہ چاہیں پاکستان اور بھارت میں متنازعہ معاملات نہ حل ہوں گے اور نہ ہی اس میں کوئی پیش رفت ہوگی جو بھی پیش رفت ہوگی وہ صرف نمائشی ہی ہوگی جبکہ عالمی قوتوں کے اپنے مفادات ہیں اور بھارت کے حوالے سے وہ اپنے مفادات آگے بڑھا رہے ہیں سوال یہ ہے کہ ان دونوں ایٹمی پڑوسی ممالک میں کب معاملات درست ہوں گے۔
یہ ایسا سوال ہے جس کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے ان متنازعہ معاملات کے حل کی صرف تین ہی صورتیں ہیں پہلی صورت معاملات کو حل کرنے کے لیے عالمی قوتوں کی طرف سے مخلصانہ اور مکمل دباؤ جس کا مستقبل قریب یا بعید میں کوئی امکان نظر نہیں آ رہا ہے کیونکہ ان ملکوں نے اپنے ہتھیار بھی آزمانے ہیں اور انہیں اپنے ان ہتھیاروں کی کھپت کے لیے منڈی بھی چاہیے دوسری صورت یہ ہے کہ دونوں ملکوں میں ایسی مخلص قیادت جو اپنی آئندہ نسلوں کو ایک محفوظ مستقبل دینے کے متمنی ہوں وہ برسراقتدار آئیںاور ان متنازعہ معاملات کو حل کریں اور اللہ کرئے کہ ایسا ہی ہو اور ایسا جلد ہوجائے لیکن فی الحال ایسے بھی کوئی اثار نہیں ہیں۔
تیسری صورت صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے صرف جنگ اور یہ تیسری صورت دونوں ملکوں کی تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں اس سے یہ خطہ برسوں پیچھے چلا جائے گا جو بعض قوتیں چاہتی ہی ہیںیہ دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ اللہ دونوں ملکوں کو ایسی مخلص قیادت دے جو اپنی قوموں کو محفوظ مستقبل دے سکے اور اس خطے کو امن وسلامتی کے ساتھ اس معراج تاک پہنچاسکے جہاں آج مغرب کھڑا ہے اس خطے میں غربت وافلاس ختم اور ترقی کا دور دورہ ہو۔