تحریر: سیدآکاش حسین شاہ قلم چلانے کا شعور انسان کے ان سوئے ہوئے خیالات کو بھی اجاگر کردیتا ہے جو کبھی خود کو اٹھانے کے قابل نہیں سمجھتے اور اٹھنے کی طاقت سے قاصر ہوتے ہیں وہ اپنے آپ کو مردہ قرار دیتے ہیں. ان کوجگانے کے لئے ان میں روح شعور پیدا کرنا بہت ضروری ہوتا ہے تا کہ زندگی کے کامیاب رستوں سے ان سوئے ہوئے خیالات کو ہٹایا جاسکے اور زندگی کو کامیاب رستوں پرآستوار کیا جا سکے. میں اپنی بات کروں تو کچھ ایسے خیالات جن کو میں اپنی زندگی میں بہت ناگوار سمجھتا ہوں وہ میری زندگی میں ایسے حائل ہوئے جنھوں نے میرے چلتے ہوئے قلم کو ہمیشہ کے لئے روکنے کی کوشش کی اور میری کامیاب زندگی کو ناکام بنانے میں رکاوٹ بنے
جن کی بناء پر میرا قلم مجھ سے کچھ عرصہ کے لئے ناطہ توڑ گیا اور میں ذہن و زبان رکھتے ہوئے بھی بے زبانی کی زندگی کی طرف چل پڑا.ذہن میں سوچ و فکر’آنکھوں میں دیکھنے کی صلاحیت’دل میں برداشت کی ہمت اور ہاتھوں میں لکھنے کی طاقت رکھتے ہوئے بھی کچھ کر نہ پایا اورچپ سادھ لی.دنیاوی حالات کے منڈلاتے کالے سیاہ بادلوں کو دیکھا’کڑکتی ہوئی بجلی کی آہٹ کو سنا اور ٹھنڈی تیز ہوائوں کی سرسراہٹ دلوں کو چیرتی ہوئی گزری لیکن یہ سب برداشت کیا .کچھ ایسے حالات ‘خیالات اور واقعات تھے جنھوں نے میرے قلم کو مجھ سے جدا کیا تا کہ میں زبان کی طاقت رکھتے ہوئے بھی بے زبانی کی زندگی گزاروں.
لیکن وقت کی روانی نے حالات کے کروہٹ کو ایسے بدلا کہ جن خیالات نے میرے ذہن و دماغ میں مایوسی کا ڈیرہ ڈال رکھا تھا میں ان پر حاوی ہوگیا اور ان خیالات سے لڑتے لڑتے ناگوار بھنور سے خود کو نکالنے کی تہہ تک پہنچ گیا اور یہ نتیجہ آخذ کر بیٹھا کہ میرا قلم میری زندگی کا قیمتی سرمایہ ہے اسے روکے رہنا مناسب نہیں .بہت سوچ و بچار کے بعد مجھے یہ یقین حاصل ہوا کہ خد ا رب العزت نے سوچنے کے لئے ذہن،بولنے کے لئے زبان،محسوس کرنے کے لئے دل اور لکھنے کے لئے ہاتھوں کی انمول نعمت سے نوازا ہے تو ایسی تمام نعمتوں کے ہوتے ہوئے بھی اپنی صلاحیتوں کو ٹھکرانا ان کو ختم کرنا اپنی زندگی کے ساتھ ناانصافی اور زیادتی ہے.
Abilities
انسان کے لئے اپنی زندگی کو کامیاب بنانے میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کا استعمال بہت ضروری ہوتا ہے ایک انسان کی کی کامیابی میں رکاوٹیں تب تک اسکے راستے میں حائل ہوتی رہتی ہیں جب تک اسکے اندر ناگوار خیالات اسکی صلاحیتوں کو دبائے رکھتے ہیں اندر موجود ہونے والی صلاحیتیں جب تک سامنے نہیں آتی تب تک انسان خود سے ڈرتاہے گبھراتا ہے اپنی زندگی میں خاموشی اختیار کرتا ہے لیکن جب اسکے اندر والاضمیر اسے ملامت کرتا ہے کہ خدا کی دی ہوئی انمول نعمتیں رکھنے کے باوجود خاموشی کا عالم اور بے ذبانی کا سماں کیوں ؟؟ اور کس لئے!!!
پھر یہ جواب سامنے آتا ہے کہ ہاں یہ ایسا کیونکرہے جبکہ میرے پاس آسمان کی بلندیوں کو چھونے کا عزم اور پہاڑوں کی چٹا نوں سے ٹکڑانے کا جذبہ موجود تھا تو یہ خاموشی کا عالم میری زندگی میں کالے بادلوں کی طرح کیوں منڈلا رہا ہے؟اسی سوچ و فکر میں یہ بات توازن برقرار کرتی ہے کہ مجھے اسے بدلانا ہوگا. نئے سرے سے لکھنے کا جذبہ پیدا ہونا زبان میں حروف سے بنے لفظوں کا امنڈ آنا سوئے ہوئے خیالات کو جگانے اور دبی ہوئی صلاحیتوں کو سامنے لانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیںاور وہی دور جانے والا آپکا قیمتی قلم آپکو مجبور کرتا ہے کہ اسے دوبارہ پاس لانے کی کوشش کی جائے اور اسکا استعمال کیا جائے.یہ باتیں انسانی ذہن میں شعوروفکر لاتی ہے اور ایک سفید کاغذ کا ٹکڑا اور بچھڑا ہوا آپکا قلم آپکو اپنی طرف راغب کرتاہے آپ ہاتھ میں قلم کو پکڑ کر سفید کاغذ کو نیلے رنگ کی روشنائی سے خوبصورت الفاظ آشناء کرتے ہوتو آپکے دل و دماغ کا بوجھ ہلکا ہونے لگتا ہے اورسکون قلب حاصل ہوتا ہے.سکون کی یہ کیفیت آپکو اس وقت بھی نصیب نہیں ہوتی جب آپکے سامنے کڑوڑوں کی نقدی یا لذیذہ مصالحے دار کھانے کیوں نہ رکھ دیئے جائے.
سفید کاغذ پیچلتے ہوئے قلم سے جو جو باتیں تحریر ہوتی ہے تو ان میں شفافیت کی لہر ،درد کی فضا،سکونیت کا مادہ اور نئی امید سحر کا جذبہ آیاں ہوتا ہے.آپ وہ سب درد بیاں کرتے ہے جو آپکی آنکھوں میں دوسروں کے لئے دیکھائی دیتا ہے پرانے خیالات کا نئے خیالات سے تبادلہ اور سوئی ہوئی دماغی کیفیت کو جگانے کا درس دیا جاتا ہے یہی سب آپکو ترقی کی راہوں پے گامزن کرتا ہے اور تاریخی اوراق میں آپکا نام اچھے لفظوں سے تحریر کیا جاتا ہے اور دنیا تاقیامت یاد رکھتی ہے یہ باتیں تحریر خدمت کرنے کا مقصد یہی تھا کہ جن صلاحیتوں کی وجہ سے آپکو طبقے میں ایک اعلی مقام مل سکتا ہے اسکی شروعات کرنے کے بعد اسے بیچ رستے میں نہ چھوڑا جائے بلکہ اختتام تک اسے پہنچایا جائے تاکہ معاشرے میں آپکا اعلی مقام ہوسکے.اللہ رب العزت میرے ہاتھوں اور قلم کو ہمیشہ سلامت رکھیں تا کہ میں زندہ قوم کی حشیت سے اپنی آواز کو بلند کرتا رہوں