تحریر : پروفیسر رفعت مظہر کپتان صاحب کے دھرنے کو یومِ تشکر میں بدلنے پر سب سے زیادہ دُکھ ہمارے محترم شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کو ہوا ہو گا کیونکہ اُن کے تو سارے منصوبے ہی خاک میں مِل گئے۔ علّامہ صاحب تو ایک بار پھر حکومت سے اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے پَر تول رہے تھے لیکن۔۔
قسمت کی خوبی دیکھیے ٹوٹی کہاں کمند دو چار ہاتھ جب کہ لبِ بام رہ گیا
عمران خاں نے اپنا دھرنا سمیٹ لیا اور ”سیاسی کزن” مُنہ دیکھتے رہ گئے۔ علّامہ صاحب نے انتہائی مایوسی کے عالم میں عمران خاں کے2 نومبر کے یومِ تشکر میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ”میں حیرت میں ہوں ، سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیا کہوں اِنّا للہ و اِنّا الیہ راجعون۔ ہمیں اعتماد میں نہیں لیا۔ سارے فیصلے خود ہی کر لیے”۔۔۔۔ ہمیں سمجھ میں نہیں آتا کہ کِس کا ساتھ دیں۔ کپتان صاحب ہمارے لیڈر ہیں اور علامہ صاحب ہمارے مُرشد ،اِس لیے ”ایک چُپ ، سَو سُکھ”۔ دھرنے کی کال واپس لینے پر یقیناََ دوسرے دُکھی انسان ہمارے مولانا فضل الرحمٰن ہوں گے کیونکہ اب اُن کے خیبر پختونخوا پر حکمرانی کے سارے خواب چکناچور ہو گئے۔ اب اُنہیں اپنا یہ خواب پورا کرنے کے لیے 2018ء کے انتخابات کا انتظار کرنا ہو گا۔ وہ تو کئی دنوں سے ”ڈَنڈ بیٹھکیں” لگا رہے تھے اور دروغ بَر گردنِ راوی اُنہوں نے تو اپنی کابینہ کا انتخاب بھی کر لیا تھا۔ یقیناََ اُنہیں سپریم کورٹ پر غصّہ تو بہت آ رہا ہو گا ،جس کی آڑ میں کپتان صاحب نے دھرنے کی کال واپس لے لی۔ شنید ہے کہ مولانا صاحب کے حواری اور درباری اب یہ افواہیں پھیلا رہے ہیں کہ کپتان صاحب کا ”یومِ تشکر” دراصل سپریم کورٹ کا شکریہ ادا کرنے کے لیے ہے جس نے اُنہیں بُری ہزیمت سے بال بال بچا لیا۔ بہرحال جو کچھ بھی ہے ، ہمیں مولانا صاحب سے دِلی ہمدردی ہے۔
تیسرا دُکھ اور مایوسی پیپلز پارٹی کو ہوئی جو کپتان صاحب کے ایک نہیں بلکہ دونوں کندھوں پر” کلاشنکوفیں” رکھ کر چلا رہے تھے جن کا رُخ سیدھا میاں نواز شریف کی طرف تھا۔ مقصد اُن کا ”سانپ بھی مَر جائے اور لاٹھی بھی بچ جائے” کے مصداق یہ تھا کہ کپتان صاحب کے دھرنے سے نوازلیگ کمزور ہو جائے اور کپتان صاحب اِس دَور کے اصغر خاں بن جائیں۔ پھر میدان اُن کے لیے خالی اور ”مَوجاں ای مَوجاں”۔ ہمارے مرنجاں مرنج قائدِ حزبِ اختلاف سیّد خورشید شاہ کو اب بھی یقین نہیں آرہا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ اعلان دَراصل کپتان صاحب نے زیادہ سے زیادہ لوگ اکٹھے کرنے کے لیے کیا ہے لیکن ہم کہتے ہیں ”دِل کے خوش رکھنے کو شاہ جی ! یہ خیال اچھّا ہے”۔ پیپلز پارٹی نے اپنا غصّہ یوں نکالا کہ کپتان صاحب کا نام ہی ”یو ٹَرن خاں” رکھ دیا۔
غصّہ تو خیر شیخ رشید اور چودھری پرویز الٰہی کو بھی بہت آیا لیکن اُن کی جماعتیں تو ”تین میں نہ تیرہ میں”۔ شیخ صاحب کے بارے میں تو ہم متعدد بار لکھ چکے کہ اُن کی جماعت میں تو رکشے کی سواریاں بھی نہیں ۔ وہ تو کپتان کی آڑ میں شکار کے لیے نکلے تھے اور اب حسبِ سابق اُن کی اکتوبر میں حکومت جانے کی پیشین گوئی بھی غلط ثابت ہو گئی۔ اُنہوں نے کپتان صاحب پر اپنا غصہ نکالتے ہوئے کہا کہ عمران خاں کو 28 اکتوبر کے جلسے میں کمیٹی چوک راولپنڈی آنا چاہیے تھا۔ جواباََ کپتان صاحب نے اُنہیں کھری کھری سناتے ہوئے کہا ”کپتان اپنے فیصلے خود کرتا ہے ،پبلک کے کہنے پر اِدھر اُدھر بھاگتا نہیں پھرتا”۔ اب شیخ صاحب کے حواری جو تعداد میں تین ، چار تو ضرور ہوں گے ، کہتے پھرتے ہیں کہ 28 اکتوبر کو شیخ صاحب کے جلسے میں آنے کا وعدہ تو کپتان صاحب نے خود کیا تھا اور سارے الیکٹرانک میڈیا نے اُن کا یہ اعلان بار بار سنایا بھی تھا اِس لیے پہلے تو ہم یقین نہیں کرتے تھے لیکن اب کہتے ہیں کہ کپتان واقعی یو ٹَرن کا بادشاہ ہے۔شیخ صاحب کے حواریوں کو اتنا تو علم ہونا چاہیے تھا کہ بقول نواز لیگ ،خاں صاحب کی کسی بات پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔
وہ تو یہ کہتے ہیں تیرے وعدے پہ جیئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا کہ خوشی سے مَر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
شیخ صاحب تو 27 اکتوبر سے ہی منصۂ شہود سے یوں غائب ہوئے جیسے گدھے کے سَر سے سینگ ۔ بس 28 اکتوبر کو سڑک پر دوڑتے نظرآئے یا پھر جیو کی ڈی ایس این جی وین کی چھت پر سگار سلگاتے۔ سپریم کورٹ کی کارروائی کے بعد وہ اپنے ”بِل” سے نکلے اور پولیس والوں کے ساتھ سیلفیاں بناتے نظر آئے۔ ہم تو اُنہیں یہی کہہ سکتے ہیں کہ ”شیخ جی ! غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تَگ و دَو میں”۔ آپ کب تک ”جماں جنج نال” بنے رہیں گے ،کچھ شرم ہوتی ہے ،کچھ حیا ہوتی ہے۔ ۔۔۔پرویز الٰہی صاحب کے اندر سے ابھی تک پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ اور ڈپٹی پرائم منسٹری کی بُو نہیں گئی ۔ اُن کا حال بھی شیخ رشید جیسا ہی ہے اور وہ بھی شیخ صاحب ہی کی طرح ہر اُس پھڈے میں ٹانگ اڑاتے ہیں جہاں میاں برادران کو نقصان پہنچنے کی اُمید ہو۔ وہ کپتان صاحب کے جلسے میں شریک ہونے کے لیے پَر تول رہے تھے اور پولیس نے تو ڈنڈوں سے بھرا وہ ٹرک بھی قبضے میں لے لیا جو مونس الٰہی نے چودھری شجاعت حسین کی طرف بھیجا تھا۔ کپتان کے اِس اعلان سے چودھری برادران کو بھی سخت مایوسی ہوئی۔ چودھری شجاعت نے تو کہہ دیا ہو گا ”مٹی پاؤ”لیکن چودھری پرویز الٰہی نے ”پیوستہ رہ شجر سے ، اُمیدِ بہار رکھ” کے مصداق کہہ دیا کہ اگر عمران خاں نے دھرنا دیا تو ہم ضرور شامل ہوں گے۔
Imran Khan
ہم کپتان صاحب سے سوال کرتے ہیں کہ آپ نے دھرنے کی کال واپس لے کر اتنے لوگوں کو دُکھی کیوں کیا؟۔ آپ کا کیا بگڑ جاتا اگر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سمیت لوگ کچھ عرصے کے لیے خوش ہو لیتے۔ انصار عباسی تو کہتے ہیں ”چند چینلز میں سوگ کی کیفیت طاری ہو گئی ، کچھ میڈیا پرسنز حواس کھو بیٹھے ”۔ خیر باقی لوگوں کو تو چھوڑیں ، آپ کے تو اپنے ”سونامیے” بھی ناراض ہیں جس کا آپ نے خود اقرار کرتے ہوئے کہا ” کل میں اُن کو بتاؤں گا کہ ہم نے کیا حاصل کیا”۔ لیکن خواجہ سعد رفیق تو کہتے ہیں کہ یہ سب ”کھسیانی بِلّی کھمبا نوچے” والا معاملہ اور ہارے ہوئے کھلاڑی کی گفتگو ہے ، جب وقت آتا ہے کچھ نہیں کرتا۔ پچھلے دھرنے پر استعفےٰ لینے آئے اور خود استعفے دے کر چلے گئے۔ جس بات پر وہ بغلیں بجا رہے ہیں ،وہ تو میاں نواز شریف کا چھ ماہ پہلے کا مؤقف تھا۔ویسے ہمارے کپتان صاحب اگر تھوڑا حوصلہ کرتے تو 2 نومبر کو دَس ، بیس ہزار سونامیے تو اکٹھے ہو ہی جاتے اور لوگوں کے یہ طعنے نہ سننے پڑتے کہ دھرنا منسوخی کی سب سے بڑی وجہ مطلوبہ تعداد میں مظاہرین کا جمع نہ ہونا ہے۔نہ ہی خواجہ آصف سیالکوٹی یہ طنزیہ ٹویٹ کرتے کیا اتنے ہی جرّی تھے حریفانِ آفتاب چمکی ذرا سی دھوپ تو کمروں میں آ گئے
اور نہ ہی خاں صاحب کے پرانے ”بیلی” چڑیا والے صاحب یہ طنز کرتے کہ عمران خاں کے پاس اگر 50 ہزار لوگ ہوتے تو وہ سپریم کورٹ کی بات نہ مانتے۔ ہمیں ذاتی طور پر سب سے زیادہ ہمدردی ”تیلی پہلوان” سے ہے ،جنہوں نے اپنے ننھے مُنّے وجود کے ساتھ ”بڑھکیں شڑکیں” تو بہت ماریں ،معاملے کوپنجابی پختون جھگڑے کا رنگ دینے کی بھی کوشش کی ،یہ بھی کہا کہ کپتان صاحب کو بنی گالہ سے نکالنے کے لیے آ رہے ہیں لیکن پھر ہوا یہ کہ آنسو گیس سونگھتے ہوئے خیبرپختونخوا فرار ہو گئے۔
اب ذرا آئیے اُن لوگوں کی طرف جنہیں سپریم کورٹ کے اِس فیصلے اور کپتان صاحب کے اعلان پر خوشی ہوئی۔روحانی خوشی تو عظیم محبّ ِ وطن مخدوم جاوید ہاشمی کو ہوئی جنہوں نے کہا کہ عمران خاں نے پورے نظام کو سٹیک پر لگا دیا تھا۔ عوام کو یومِ تشکر منانا چاہیے کہ ادارے ایک دفعہ پھر بچ گئے۔ خیر کم خوشی تو نواز لیگ کو بھی نہیں ہوئی ہو گی جن کے گلے کی بلا ٹلی ۔ وزیرِ اعظم صاحب نے تو چھ ماہ پہلے ہی 22 اپریل اور 16 مئی 2016ء کوقوم سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے تحقیقاتی کمیشن بنانے کی استدعا کی تھی ۔اُنہوں نے تَب بھی کہا تھا اور یکم نومبر کو سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد تحریری طور پر لکھ کر دیا ہے ”انکوائری کمیشن کو قبول کرتا ہوں ،جو فیصلہ ہو گا ، قبول کروں گا۔ الزامات درست ہوئے تو سزا بھگتوں گا”۔اُنہوں نے سپریم کورٹ سے یہ استدعا بھی کی کہ انکوائری میں جہانگیر ترین ،عمران خاں اور اُن کی بہن علیمہ خاں کو بھی شامل کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے وزیرِاعظم صاحب سے کہا کہ وہ درخواست داخل کریں ،عدالت اِسے بھی سنے گی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونے کو ہے۔