تحریر: جاوید اختر جاوید گلزار۔ ۔ ۔ ۔ آواز میں لپٹی خاموشی۔ ۔ ۔ نامی کتاب گل شیر کی تخلیقی شخصیت کی منفرد تخلیق ہے۔ انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ایل۔ایل۔بی کرنے کے دوران یہ تخلیقی سفر مکمل کیا، جسے بے پناہ پذیرائی ملی۔ عثمان علی نے Gulzar- The Speaking Silence کے نام سے اس کتاب کا انگریزی ترجمہ کیا۔ گل شیر کا شمار گلزارپر لکھنے والے اولین قلمکاروں میں ہوتا ہے۔ یہ ان کا منفرد اندازِ تحریر ہے۔ دینہ سمپورن سنگھ گلزار کی جنم بھومی ہے۔ وہ شاعر ، کہانی کار، مکالمہ نگار، ہدایت کار، اسکریپ رائٹر اور بچوں کے ادب کے تخلیق کار ہیں۔ ہندوستان میںتخلیق ہونے والی کئی دیگر زبانوں کی شاعری کے وہ اردو تراجم کر چکے ہیں۔ ہندوستانی سب سے بڑا ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔ علاوہ ازیں کئی ایوارڈ ان کو مل چکے ہیں۔ لیکن ایوارڈ ان کیلئے اعزاز نہیں ، بلکہ وہ ہر ایوارڈجو ان کا ملتا ہے ، اس کیلئے اعزاز ہو تے ہیں۔ کرئہ ارض کا سب سے بڑافلمی ایوارڈ آسکر ایوارڈکو لینے کیلئے صرف اس لیے نہیں گئے کہ وہاں تقریب میں سیاہ کوٹ پہننے کی شرط تھی اور آج تک لوگوں نے گلزار صاحب کو سفید کرتہ اور پاجامہ کے علاوہ کسی دوسرے لباس میں نہیں دیکھا۔
گلزار ۔ ۔ ۔ ۔ آواز میں لپٹی خاموشی، ان کی سوانح حیات بھی اور ان کے فکرو فن کو خراج ِ تحسین بھی ہے۔اس مو قع پر منظوم اظہاریہ گلزار کے فکرو فن کی نذر کرتا ہوں۔ جب آواز میں گلزار کی لپٹتی خاموشی ٹوٹتی ہے اور اسے اذنِ کلام ملتاہے تَو پیدا دل میں ایک روشنی سی ہوتی ہے پھر یہ روشنی خوشبو بن کر گل و گلزار کی صورت میں ذہنوں ذہنوں سفر کرتی ہے۔
اور پھر ڈاکٹر انیس ناگی کی ایک نظم کا کچھ حصہ گلزار کی نذر کرتا ہوں۔ ۔ میں لفظ کی سب حدوں سے، سرحدوں سے بہت دور ایسی لغت کی تلاش ِ مسلسل میں ہوں جو کبھی اَن کہی داستاں کو کہے گی جو لفظی سفارت کے امکان پیدا کرے گی نیا اک جہاں اس زمین پر نمودار ہو گا نئے لفظ سے شاعری میں لکھوں گا تیرے واسطے۔
Remembering Past
دینہ گلزار کی جنم بھومی ہے، دینہ ان کی سوچ اور فکر میں گردش کرتا ہے وہ دینہ کو یاد کرکے اپنے ماضی سے جڑ جاتے ہیں یاد ماضی سے مکالمے کشید کرتے ہیں گیت بنتے ہیں، کہانیاں بناتے ہیں دینہ انھیں میتھڈالوجی دیتا ہے انرجی دیتا ہے۔ گلزار صاحب کہتے ہیںاب بھی دینہ میں بستا ہوںکالا سے کالووال تک سب قصے پرانے یاد ہیں۔ ماضی کو چھونے کی خواہش ہمیشہ اُن کے دل میں رہتی ہے اور اور فلم پنجر میں کہتے ہیں “وطناوے او میرے یار وطنوے بجھ گئے چولہے سانجھے وطناوے” اور پھر میر وطن جو اُدھر رہ گیا اور میرا ملک جو ادھرہے دونوں میں مَیں بٹ گیا۔
گلزار صاحب دینہ چھوڑ کر دہلی جا چکے ہیں۔ مگر زندگی سے دینہ نہ نکل سکا۔ اور اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں تمہیں میں لے گیا تھا، سرحدوں کے پار دینہ میں تمہیںوہ گھر دیکھایاتھا۔ ۔ ۔ جہاں پیدا ہوا تھا میں حلقہ میں بند رہتا تھا جو دن بھر، رات کو گائوں میں آ جاتا تھا کہتے ہیں۔ ۔ ۔ تمھیں کالا سے کالووال تک لے کر اُڑا میں پھر جکر سے کالا دیو تک لیکر تمہیں پھرا ہوں تمہیں دریائے جہلم پر عجب منظر دکھائے تھے جہاں تربوز پر بیٹھے ہو ئے تیراک لڑکے بہتے رہتے تھے وہاں جانے میں اب دشواریاں ہیں کچھ سیاست کی وطن اب بھی وہی ہے، پر نہیں ہے ملک اب میرا
گلزار اور راکھی کی18 اپریل 1973 کو شادی ہو ئی ۔13 دسمبر کو اُن کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام بوسکی رکھا گیا اور بوسکی بطور فلمی ڈائریکٹر “فی الحال” کے علاوہ کئی دیگر پراجیکٹس مکمل کر چکی ہیں۔ اور گلزار صاحب “فی الحال” میں کہتے ہیں ۔ ۔ ۔ اے زندگی ۔ ۔ ۔ یہ لمحہ جی لینے دے آخر کار راکھی اور گلزار میں علیحدگی ہو گئی اور دونوں اس بات پر متفق ہو گئے۔ آئیے راستے الگ کر لیں یہ ضرورت بھی باہمی سی ہے
Eid Milan
گلزار ایک جمالیاتی شاعر ہے۔ اُن کی نظمیں ، غزلیں، گیت خوب معانی کی بدولت جوہر ِ آبدار ہیں۔ اور اُن کا ساز طرب دل ودماغ کو نورو سرور سے سرشار کرتا ہے اور کیفِ تازہ سے معمور کرتا ہے۔ اُس کی شاعری بولتی ہے اور فکری پیکر تراشی کرتی ہے۔ وہ دل سے نکل کر دلوں کو آباد کرتی ہے۔ ان کے کلام سے انتخاب پیش خدمت ہے۔ میں نے رکھی ہو ئی ہیں آنکھوں پر تیری غمگین سی اداس آنکھیں جیسے گرجے میںرکھی خاموشی جیسے رہلوں پہ رکھی انجیلیں ایک آنسو گرا دو آنکھوں سے کو ئی آیت ملے نمازی کو کوئی حرفِ کلام پاک ملے
مشکل ہے آکاش پہ چلنا تارے پیروں میں چبھتے ہیں
ترے غم کا نمک چکھ کر بڑا میٹھا لگا ہے زندگی کا ذائقہ مجھ کو
وقت کے تیر تو سینے پہ سنبھالے ہم نے اور جو نیل پڑے ہیں، تیری گفتار سے ہیں
تمہاری نگائیں بہت بولتی ہیں ذرا اپنی آنکھوں پہ پلکیں گرا دو پلک سے پانی گرا ہے تو اس کو گرنے دو کوئی پرانی تمنا پگھل رہی ہو گی
اور پھر عشق میںاور کچھ نہیں ہوتا آدمی باوراسا رہتا ہے