بھارت میں انتہا ہندو پسند تنظیم آر ایس ایس کے تربیت یافتہ نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد جنوبی ایشیاء کے خطے میں منظرنامہ تبدیل ہو رہا ہے۔ جن تجزیہ نگاروں کا یہ خیال تھا کہ مودی سرکار بننے کے بعد نریندر مودی اپنے اوپر لگے دہشت گردی اورانتہا پسندی کے داغ دھونے کے لیے بھرپور کوششیں کریں گے وہ غلط ثابت ہو رہا ہے اور آہستہ آہستہ مودی سرکار اپنے ایجنڈے کی تکمیل کی جانب بڑھ رہی ہے جس سے خطے میں طاقت کا توازن تبدیل ہو رہا ہے۔
ایک طرف دنیا کو خطرناک اسلحہ سے پاک کرنے کی عالمی مہم جاری ہے تو دوسری طرف بھارت کا جنگی جنون بھی انتہا پر ہے۔ ابھی گزشتہ دنوں بھارت کی مودی سرکار نے جدید اسلحہ بنانے کے لیے غیر ملکی کمپنیوں کو مالکانہ حقوق پر سرمایہ کاری کی پیشکش کر دی ہے جس کے بعد امریکہ برطانیہ اور فرانس ایسے اسلحہ کے بیوپاریوں نے اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کے لیے اپنی دلچسپی بھی ظاہر کر دی ہے۔ بھارت کے سابق وزیر دفاع اے کے انتھونی نے مودی سرکار کے اس فیصلہ کو خود کش اقدام قرار دیا ہے ۔چند ماہ پہلے آنے والی عالمی ادارے سٹاک ہوم پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بھارت دنیا میں اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار بن چکا ہے۔بھارت نے اپنے ہمسایہ ممالک چین اور پاکستان کے مقابلہ میں تین گناہ اسلحہ ذیادہ خریدا ۔دوسری جانب دنیا میں اسلحہ کی فروخت کرنے والوں میں امریکہ سر فہرست ہے جس سے بھارت نے گزشتہ پانچ سالوں کے دوران1.9ارب ڈالر کا اسلحہ خریدا۔ یہ بات بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے کہ دنیا میں امن کا ترانہ گانے اور اسلحہ کی خرید و فروخت پر واویلا کرنے والے ادارے اور این جی اوز حسب معمول اپنے دہرے معیار کے سبب بھارت اور امریکہ کے اس اقدام پر خاموش ہیں۔
بھارت جنوبی ایشیا میں اپنی بالا دستی کے خواب برسوں سے سجائے بیٹھا ہے جبکہ موجودہ حکومت تو اکھنڈ بھارت ( جس میں پاکستان ، نیپال بھوٹان اور دیگر ریاستیںشامل ہیں) پر یقین رکھتی ہے۔ مہا بھارت کا خواب دیکھنے والی اور ہندو توا کا راگ الاپنے والی مودی سرکار اپنے ایجنڈے کو پایہ تکمیل پہنچانے کے لیے عمل پیرا ہو چکی ہے۔ بھارت کے ہمسایہ ممالک بالخصوص پاکستان اور چین بھارت کی اس پالیسی کی وجہ سے مجبور ہیں کہ وہ بھی اپنے دفاعی اخراجات میں اضافہ کریں۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان واحد وہ ریاست ہے جسے بھارت اپنی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہے اگرچہ اس رکاوٹ کو طاقت سے ہٹانا بھارت کے لیے ممکن نہیں تاہم وہ سازشوں کے ذریعے پاکستان کو مجبور کرنا چاہتا ہے کہ وہ اس کی پالیسیوں کے آگے سر جھکا دے۔
یہ بات کوئی خفیہ راز نہیں ہے کہ قیام پاکستان کے وقت کانگریس نے پاکستان کی عمر بیس سال مقرر کی تھی ان کا خیال تھا کہ پاکستان ذیادہ سے ذیادہ بیس سال تک ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے طور پر اپنا وجود برقرار رکھ سکے گا اور اس کے بعد اس کے حالات پھر سے اسے بھارت کے قدموں میں گرا دیں گے ۔مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کی مداخلت کے ذریعے پاکستان کو دو لخت کرنے کا سبب بھی یہی تھا ۔ لیکن اس عظیم سانحہ کے باوجود پاکستان نہ صرف قائم ہے بلکہ اس کے ختم ہونے کے امکانات بھی معدوم ہوتے چلے گئے ۔امریکہ کے افغانستان میں قیام نے بھارت کی خواہش کو بھڑکا دیااور اس نے پاک افغان سرحدی علاقوں میں قونصلیٹ تعمیر کر کے مشرقی پاکستان کی طرز پر بلوچستا ن کی علیحدگی کے منصوبہ پر کام کا آغاز کر دیا ۔اس دوران بھارت نے کوٹیلیہ چانکیہ کے ایک اہم اصول جس میں کہا گیا تھا کہ دشمن کو مات دینی ہو تو اس کے ہمسایہ کے ساتھ تعلقات استوار کر لو کے تحت افغانستان میں تعمیر نو کے نام پر وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی جبکہ ایران میںبندرگاہ بھی تعمیر کر لی تاکہ اسے افغانستان میں جانے کے لیے پاکستان کے راستوں کو استعمال نہ کرنا پڑے۔
تاہم امریکی انخلاء نے بھارت کے تما م ارادوں پر پانی پھیر دیا اور بھارت کی تما م تر توجہ افغان انتخابات کی جانب مبذول ہو گئی جس میں بھارت کی جانب جھکائو رکھنے والے امیدوار عبدا للہ عبداللہ کی کامیابی کے روشن امکانات موجود ہیں ۔طالبان کی جانب سے اس اعلان کے بعد کہ جب تک افغانستان میں امریکہ سمیت ایک بھی غیر ملک فوجی موجود ہ ہے ہمارا جہاد جاری رہے گابھارت کی خواب پھر سے دھندلا گئے ہیں اور جنوبی ایشیا میں قائدانہ کردار ادا کرنے کے لیے پاکستان ایسی رکاوٹ کو عبور کرنے کی سازش دم توڑتی جا رہی ہے۔ لہٰذا بھارت اپنی مکاریوں کے ساتھ ساتھ اب اسلحہ کی مدد کے ذریعے جنوبی ایشیامیں طاقت کا تواز اپنے حق میں کرنے کے لیے کوششیں کر رہا ہے۔
Weapons
دوسری طرف یہ بات بھی قابل غور ہے کہ امریکہ کو بھی ایشیا پیسیفک میں بھارت ایسے ساتھی کی ضرورت ہے جو چین کے مد مقابل کھڑے ہو کر خطے میں امریکی مفادات کا تحفظ کر سکے۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ اپنے مفادات کی غرض سے جنوبی ایشیا کو اسلحہ کی دوڑ میں دھکیل رہا ہے۔ ایک جانب تو اسلحے کی دوڑ ختم ہونے پر زور دیا جاتا ہے اور عالمی سطح پر بڑی بڑی کانفرنسوں میں دنیا کے رہنما اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ دنیا کو اسلحہ سے پاک کرنے اور امن قائم کرنے کو خواہشات کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں تو دوسری جانب اسرائیل اور بھارت کی جانب سے اسلحہ کے ڈھیر لگانے کے اقدامات سے آنکھیں بند کیے بیٹھے ہوئے ہیں ۔ گزشتہ سال امریکہ کے ایٹمی پھیلائو کے مخالف تھینک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار سائنس اینڈ سیکورٹی نے انکشاف کیا کہ بھارت نے میسوری میں قائم اپنے خفیہ ایٹمی پلانٹ میں توسیع کر دی ہے یورینیم کی زائد افزودگی کے لیے لگائے گئے اس پلانٹ میں ذیادہ تباہ کن ہتھیار بنائے جا سکیں گے۔ ایٹمی قوت بننے کے بعد پاکستان پر معاشی پابندیاں لگانے والے ممالک ایک طرف تو بھارت میں اسلحہ فیکٹریاں لگانے کے لیے بے چین ہیں تو دوسری جانب پاکستان پر یہ دبائو بڑھایا جا رہا ہے کہ وہ اسلحہ کی دوڑ میں شامل نہ ہو اور پاک چین تعاون پر مغربی میڈیا میں کڑی تنقید کی جاتی ہے۔
کہتے ہیں کہ دشمن کتنا بھی طاقتور کیوں نہ ہوں لیکن آپ بہترین حکمت عملی سے اس کو شکست دے سکتے ہیں لیکن اگر دشمن مکار اور عیار ہو اور وہ دوستی کے روپ میں وار کرے تو بچنا نا ممکن ہو جا تا ہے ۔پاکستان کوبھی بد قسمتی سے ایسے ہی دشمن کا سامنا ہے بھارت جہاں اسلحہ کی دوڑ میں سرفہرست ہے اور جنوبی ایشیا میں بالادستی کے لیے ہر حد تک جانے کے لیے تیار ہے وہاں پاکستان کی جانب دوستی کا ہاتھ بھی بڑھایا جا رہا ہے تاکہ دوستی کا روپ دھار کر پاکستان کو نقصان پہنچایا جا سکا ۔ابھی چند دنوں پہلے ہی ایک بین الاقوامی فور م پر بھارتی سرمایہ کاروں نے اس بات پر زور دیا کہ بھارت کو پسندیدہ ملک کا درجہ جلد از جلد دیا جائے۔ اگرچہ پاکستان کی حکومت بھی اس سلسلہ میں جلد بازی کا مظاہرہ کر رہی ہے اہم پے درپے ہونے والے واقعات جن میں کنٹرول لائن پر فائرنگ اور بھارتی میڈیا کی جانب سے پاکستان کے خلاف جنگی مہم اور عوامی ردعمل نے سیاسی قیادت کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔بھارت کی اسلحہ دوڑ کی مہم کا واحد مقصد جنوبی ایشیا میں بالا دست ہونا ہے جس کے لیے وہ پاکستان کو سب سے بڑی رکاوٹ تصور کرتا ہے ۔ اگر دنیا کی بڑی قوتیں بھارت کو اسلحہ کی دوڑ میں مدد فراہم کر رہی ہیں تو پاکستا ن کو بھی اس سلسلہ میں واضح لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے ۔ بھارت کی ایک ارب سے زائد کی آبادی بنیادی سہولتوں سے محروم جبکہ غربت بھی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔
جرائم کی سرح میں مسلسل اضافہ کے ساتھ ساتھ اقلیتوں پر مظالم کا سلسلہ بھی تیز ہوتا جا رہا ہے ان حالات میں بھی بھارت اپنے دفاعی اخراجات پر کوئی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔جبکہ پاکستان اس وقت حالت جنگ میں ہے اور بھارت کی ریشہ دوانیوں کا سب سے بڑا شکار بھی ہے۔ ان حالات میں پاکستان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے دفاع کے لیے چین کے ساتھ دفاعی معمالات کو آگے بڑھائے اور دیگر ممالک کے ساتھ بھی دفاعی تعلقات کو اہمیت دے کیونکہ چانکیہ کا اصول ہے کہ اگر دشمن کمزور ہے تو اس کو نگلنے میں دیر نہ لگائو اور اگر طاقتور ہے تو دوستی کا راگ الاپتے رہو۔