کرونا کی تباہ کاری تو شاید ختم ہو جائے مگر جنوبی ایشیا میں بھارت کی جنگی جنونیت اور کم عقلی سے ہمارا یہ خطہ اس وقت جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ بھارت کے اس جنگی جنون کی پیاس لاکھوں انسانوں کے خون سے بجھے گی۔ ایک طرف کشمیر کے قبضے کے بعد اقوام متحدہ کی تمام قراردادوں کو کچرے کے ڈبے میں پھینک دیا، دوسری طرف ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ کبھی پاکستان کو دھمکاتا ہے تو کبھی کنٹرول لائن پر بلااشتعال فائرنگ کر کے نہتے لوگوں کو نشانہ بناتا ہے۔ بھارت کی حکومت جو کہ اس وقت تاریخ کی سب سے انتہا پسند مگر طاقتور حکومت ہے اندھی ہوچکی ہے۔
آر ایس ایس کے انتہا پسندانہ فلسفے کا ڈھول پیٹتا سیاسی نظام اس کے بعد رہی سہی کسر بھارتی میڈیا نے پوری کر دی ہے جو کہ ان کے دماغ یہ کہہ کر خراب کر رہا ہے کہ بھارت کو پورے جنوبی ایشیا میں حکومت کرنی چاہئے۔ اور اکھنڈ بھارت کی استاپنہ کرنی چاہئے۔ میرا زاتی طور پرخیال یہ ہے کہ اگر کوئ اس طرح کی جنگ ہوئ تو روایتی جنگ کے ساتھ ساتھ یہ خانہ جنگی کی طرف بھی جائے گی اور میدان جنگ خود بھارت ہوگا۔ ہاں افسوس کی بات یہ ہے کہ اس میں انسانی جانوں کا نقصان اتنا ہوگا کہ سوچ کر روح کانپ جاتی ہے۔ بھارت کی جنگی جنونیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں مسلمان جو کہ سب سے بڑی اقلیت ہیں خوش نہی ہیں۔
سکھ بیزار ہیں۔ ماؤ تحریک بھی چل رہی ہے۔ پاکستان جیسا امن پسند پڑوسی بھی اب نکو نک ہوچکا ہے۔ کیونکہ انڈیا نے ایک طرف جموو کشمیر پرقبضہ کیا ہوا ہے تو دوسری طرف وہ اب آزاد کشمیر کے حوالے سے بھی غیرزمہدارانہ بیانات دے رہاہے۔ پاکستان کے پانی پر بھی قبضے کی بات آگے بڑھ چکی ہے۔ دوسری طرف بھارت کے نیپال کے ساتھ بہت اچھے اور مضبوط روابط تھے۔ بھارتی اور نیپالی ایک دوسرے کے ممالک میں بغیر پاسپورٹ اور ویزے کے ایک دوسرے کے ممالک میں سفر کرتے تھے اور کام کاج بھی کرتے تھے۔ مگر بھارت کی انتہا پسند حکومت نے اس امن و امان کی صورتحال کو اچانک خراب کر دیا جب اس نے 2019 کو اپنا ایک نیا نقشہ جاری کیا جس میں مہا کالی ندی کو انڈیا کا حصہ دکھایا گیا یہ علاقہ شمال مغرب میں واقع ہے اور اصل میں نیپال کا حصہ ہے۔ 1827 میں انگریزوں کی حکومت نے گورکھا شہنشاہت کے ساتھ ایک قرارداد پر دستخط کئے جسے سیگولی ٹریٹی کا نام دیا۔ اس ٹریٹی کے مطابق یہ تکونی علاقہ نیپال کے حصے میں آیا اب اس کے علاقے لیپولیکھا اور کالاپانی پر قبضے نے ان دونوں ممالک کے درمیان دوستی کی فضا کا خاتمہ کردیا اور اب نیپالی عوام اور حکومت اپنے سے کئ گناہ طاقتور ملک کے خلاف کھڑے ہوچکے ہیں۔
بات یہاں ختم نہی ہوئ بلکہ انڈیا نے ایک 80 کلومیٹر طویل سڑک کی تعمیر شروع کر دی جو کہ دونوں ممالک کی سرحدوں سے چلتی ہوئ لیپو جھیل تک پہنچتی ہے۔ انڈیا نے یہ جواز پیش کیا کہ یہ روڈ کیلاش مان سرور یاترہ پر جانے والوں کے لئے سفر کو کم اور آسان کر دے گی۔ یاد رکھیں کہ یہ یاترہ ہندو مت کے عقیدے کے مطابق شیو شنکر اور پاروتی کے پہاڑ کو کہتے ہیں جو کہ ہندو مت کا سب سے مقدس مقام مانا جاتا ہے۔ یہ کیلاش پربت تبت میں واقع ہے جو کہ چین کا حصہ ہے۔ نیپالی حکومت کا کہنا ہے کہ اگر انڈیا کو یہ سڑک بنانی ہی تھی تو وہ ہم سے بات کرتا شاید ہم اسے سڑک بنانے کی اجازت دے دیتے مگر انڈیا کا گھمنڈ یہ ہے کہ وہ کیوں ایک چھوٹے سے ملک سے اس سڑک کے لئے اجازت لیتا۔ اس علاقے پر کنٹرول حاصل کرنے کی وجہ دراصل چین پر نظر رکھنا ہے جو کہ انڈیا کی ایک شرارت ہے۔ آج کل ایک اور تناضہ زور پکڑ رہا ہے بھارت نے چین کی سرحد پر لداغ میں متناضہ علاقے میں روڈ کی تعمیر شروع کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انڈیا نے جب کشمیر کا اسٹیٹس تبدیل کیا تھا تو لداغ کا اسٹیٹس بھی تبدیل کر کے چین کو چیلنج کیا تھا۔ مگر انڈیا بھول گیا کہ چین نیپال یا بھوٹان نہی ہے۔ لداغ ایک پہاڑی چوٹیوں ، وادیوں اور سرد ترین ریگیستانی علاقوں پر مشتمل ہے۔
یہاں چین نے انڈیا کو تین مختلف محازوں پر مشکل میں ڈال دیا ہے۔ ایک طرف پیانگ گونگ جھیل پر چین نے ایل اے سی (لائن آف ایکچئیل کنٹرول) کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا ہے۔ یہ جھیل جو کہ ایک سو تیس کلومیٹر طویل ہے اور تقریبا پانچ کلامیٹر چوڑی ہے۔ ایل اے سی دراصل چین اور بھارت کے درمیان وہ سرحد ہے جسے آٹھ فنگرز کا نام دیا گیا ہے۔ فنگر ایک بھارت کی طرف اور فنگر آٹھ چین کی جانب کا علاقہ ہے بیچ کا علاقہ گرے زون کہلاتا ہے۔ چین نے فنگر پانچ تک کا علاقہ اپنے کنٹرول میں کر لیا ہے۔ جو کہ 35 سے 40 اسکوائیر کلومیٹر کا علاقہ ہے۔ دوسرا محاز گلوان ریور ویلی ہے جہاں بھارت نے 255 کلومیٹر طویل سڑک بنائ ہے۔
چین کو اس سڑک پر اعتراض تھا۔ اور چین کی فوجوں نے اس علاقے کے اونچے پہاڑوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ یہ بلکہ وہی صورتحال ہے جو کارگل پر تھی جہاں پاکستانی افواج انچائ پر تھی جس کا نقصان انڈیا کو اٹھانا پڑا تھا۔ اب انڈیا کے لئے پریشانی بن چکی ہے کہ وہ کیا کرے کیونکہ اس علاقے میں سڑک کی تعمیر بھی انڈیا نے خود شروع کی تھی۔ اور چین اس سڑک پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ وہ جب چاہئے انڈیا کو اس سڑک کے استمال سے روک سکتا ہے۔ پیانگ گونگ جھیل اور گلوان ریور ویلی میں فرق یہ ہے کہ پینگ گونگ جھیل پر چین نے گرے زون پر قبضہ کیا ہے مگر گلوان ریور ویلی پر چین انڈیا کے تقریبا تین کلومیٹر کے علاقے پر قابض ہے جو کہ انڈیا کے لئے شرمندگی اور ندامت کی بات ہے۔
تیسرا محاز ہاٹ اسپرینگ کونگاپاس ہے جہاں چین نے بھارتی فوج کو پریشان کر رکھا ہے چینی فوجی اندر آتے ہیں اور جاتے ہیں۔ بھارتی تجزیہ کار اس محاز کے حوالے سے کہتے ہیں کہ چین اس محاز پر بھاری فوج کو مصروف کر کے طاقت کو تقسیم کر رہا ہے جو کہ اگر جنگ ہوئ تو اس کا نقصان بھی بھارت کو ہوگا۔ ان تمام حالات کا زمہ دار بھارت خود ہے کیونکہ وہ اپنے کسی بھی پڑوسی کے ساتھ امن اور سکون سے رہنے کے بجائے علاقے کا چوہدری بننے کا خواہش مند ہے۔ اور اس کی یہ خواہش پورے خطے کو ایک ایسی جنگ میں دھکیل سکتی ہے جو لاکھوں بے گناہ انسانوں کے خون سے بجھے گی۔