فیری (جیوڈیسک) گزشتہ ہفتے جنوبی کوریا میں ڈوب جانے والی فیری سے اب تک 108 لاشیں برآمد کی جا چکی ہیں۔ منگل کو موسم بہتر ہوتے ہی امدادی کارکنان نے اس کا فائدہ اٹھایا جبکہ اطلاعات کے مطابق اس بحری جہاز میں سوار سینکڑوں افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔ یہ فیری سمندری پانی میں الٹ گئی تھی اور اب تک اس واقعے کی ذمے داری اس کے عملے پر عائد کی جارہی ہے۔ آفیشلز نے جنوبی کوریا کی یونہپ نیوز ایجنسی کو بتایا کہ اب تک پانچ افراد پر اپنی ڈیوٹی انجام نہ دینے کا الزام عائد کیا گیا ہے جبکہ عملے کے چھ اراکین اب حراست میں ہیں۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق ڈوبتے ہوئے جہاز سے مدد کی پہلی کال ایک لڑکے نے کی تھی جس نے کپکپاتی آواز میں مدد کیلئے پکارا تھا۔ یہ بھی رپورٹ ہے کہ جہاز پر موجود دیگر 20 بچوں کی طرف سے بھی مدد کی کالز موصول ہوئی تھیں۔ واضح رہے کہ اس فیری میں ہائی اسکول طالبعلموں کی بڑی تعداد موجود تھی اور ان کے والدین شدید صدمے اور غم کا شکار ہیں۔ دوسری جانب سینکڑوں غوطہ خور اور امدادی کارکن دن رات بچ جانے والوں کی تلاش کی کوشش کر رہے ہیں یا پھر مرجانے والوں کی لاشوں کو ڈھونڈ رہے ہیں۔
اقدامِ قتل جنوبی کوریا کے صدر پارک گوئین ہائی نے پیر کو جہاز کے عملے کے رویے کی مذمت کرتے ہوئے اس غفلت کو ‘ قتل کے برابر’ قرار دیا ہے۔ سیوول نامی اس جہاز سے اب تک 174 افراد کو بچالیا گیا ہے جبکہ مزید افراد کی تلاش جاری ہے۔ اس جہاز میں مجموعی طور پر 476 افراد سوار تھے جن میں 339 بچے اور ان کے ٹیچر سوار تھے جو تفریح کیلئے قریبی جزیرے تک جارہے تھے۔ دوسری جانب امدادی کارکنوں نے زیرِ آب روبوٹ کا استعمال بھی شروع کر دیا ہے۔ ریسکیو آفیشلز کا کہنا ہے کہ وہ اگلے دو روز تک جہاز میں موجود افراد کی تلاش جاری رکھیں گے۔