جنوبی کوریا (اصل میڈیا ڈیسک) جنوبی کوریا کے صدر مون جائے ان کی حکمراں جماعت نے واضح اکثریت کے ساتھ پارلیمانی انتخابات جیت لی ہے۔
کورونا وائرس کی عالمگیر وبا کے مدنظر خصوصی طبی انتظامات کے درمیان بدھ کے روز ہونے والے عام انتخابات میں بھاری تعداد میں لوگوں نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔
جنوبی کوریا کے قومی الیکشن کمیشن نے آج جمعرات کو عبوری نتائج جاری کردیے جس کے مطابق صدر مون جائے ان کی ڈیموکریٹک پارٹی اور اس کی حلیف جماعت نے 300 پارلیمانی نشستوں میں سے180 پر کامیابی حاصل کرلی ہے۔ قدامت پسند اپوزیشن اتحاد کو 103 سیٹیں ملی ہیں۔
گزشتہ بارہ برسوں کے دوران ڈیموکریٹک پارٹی کو پہلی مرتبہ اتنی زبردست اکثریت کے ساتھ کامیابی ملی ہے۔ اس کے ساتھ ہی کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے لیے کیے گئے اقدامات کی وجہ سے صدر مون جائے ان کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
بدھ کے روز ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں 66.2 فیصد رائے دہندگان نے حصہ لیا، جو 1992 کے بعد سے اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ کورونا وبا پھیلنے سے قبل انتخابات میں مون کی پارٹی کی کامیابی کے حوالے سے خدشات ظاہر کیے جارہے تھے، کیوں کہ ان کی جماعت کے خلاف بد عنوانی کے متعدد الزامات عائد کیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ سست رفتار اقتصادی ترقی اور شمالی کوریا کے ساتھ ملک کے تعلقات کے سلسلے میں صدر مون کے اقدامات پر بھی عدم اعتماد کا اظہار کیا جارہا تھا۔ لیکن کورونا وائرس کے خلاف جنوبی کوریا کے اقدامات کی وجہ سے صدر مون جوئے ان اور ان کی ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت میں اچانک زبردست اضافہ ہوا۔
کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد ابتدائی مرحلے میں چین کے بعد جنوبی کوریا میں ہی سب سے زیادہ معاملات پائے گئے تھے۔ تاہم صدر مون نے اس پر قابو پانے کے لیے جو بروقت اورموثر اقدامات کیے اس کی نہ صرف ملک میں بلکہ پوری دنیا میں تعریف کی گئی۔ جنوبی کوریا نے کووڈ۔انیس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے بڑے پیمانے پر ملک گیر ٹسیٹنگ اور متاثرین کا پتہ لگانے کا وسیع پروگرام چلایا۔
کورونا کی عالمگیر وبا پھوٹ پڑنے کے بعد جنوبی کوریا کے پارلیمانی انتخابات کسی بھی ملک کا پہلا عام انتخاب ہے
حکمراں جماعت کے لیے انتخابی مہم چلانے والے سابق وزیر اعظم لی ناک یون نے انتخابات کے نتائج آنے کے بعد ٹیلی ویزن پر اپنے خطاب میں کہا”عوام نے ہم پر جس طرح اعتماد کیا ہے اور ہمیں اختیارات دیے ہیں اس کے بعد اب ہم کورونا وائرس اور اقتصادی سست رفتاری جیسے قومی بحران پر قابو پانے کو اولین ترجیح دیں گے۔“
حکمراں جماعت کی زبردست اکثریت سے کامیابی کی وجہ سے صدر مون کومزدوروں کے لیے کم ا ز کم اجرت کی اسکیم اور شمالی کوریا کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے جیسے اپنے اقدامات کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔
کورونا کی عالمگیر وبا پھوٹ پڑنے کے بعد جنوبی کوریا کے پارلیمانی انتخابات کسی بھی ملک کا پہلا عام انتخاب ہے۔ چودہ ہزار سے زیادہ پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹ ڈالنے کے لیے آنے والوں کو خصوصی احتیاط برتنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ ووٹرز ماسک اور دستانے پہن رکھے تھے جبکہ پولنگ بوتھ میں داخل ہونے سے قبل ہر شخص کے لیے لازم تھا کہ وہ سینیٹائزر سے اپنے ہاتھوں کو صاف کرے۔ اس کے بعد اس کا درجہ حرارت چیک کیا جارہا تھا۔ کورونا وائرس کے تقریباً 2800 مریضوں کے لیے الگ پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے تھے یا انہیں ڈاک کے ذریعہ ووٹ دینے کا متبادل بھی فراہم کیا گیا تھا۔
جنوبی کوریا میں جمعرات کو کورونا کے 22 نئے کیسیز کے ساتھ مصدقہ مریضوں کی تعداد 10613 ہوگئی ہے جبکہ 229 افراد اب تک ہلاک ہوچکے ہیں۔