پنجاب حکومت کی کاوشوں سے بہاولپور اور ملتان میں صوبائی سیکرٹریٹ نے کام شروع کر دیا ہے اب وہاں کے لوگوں کو اپنے کسی بھی کام کے لیے لاہور نہیں آنا پڑے گا بلکہ ایڈیشنل چیف سیکریٹری کی موجودگی میں بہاولپور میں خود مختار سیکریٹریٹ مقامی سطح پر ہی شہریوں کو ریلیف فراہم کریگا اس موقعہ پر نواب سر محمد صادق کی خدمات کااور تاریخ بہاولپور کا ذکر بھی ضروری ہے بہاولپور برصغیر کی دوسری بڑی اسلامی ریاست جسکی بنیاد 1727 میں نواب صادق محمد خان عباسی اول نے رکھی تھی اور تحصیل لیاقت پور کا قصبہ اللہ آباد اسکا پہلا دارخلافہ تھا 1258 میں ہلاکوں خان کے ہاتھوں بغداد کی تباہی کے بعد عباسی شہزادوں نے سندھ کا رخ کیا امیر چنی خان عباسی کو اکبراعظم کے بیٹے سے پنج ہزاری کا منصب عطا ہوا اور اوباڑو سے لاہور بندر تک کا علاقہ اجارہ پر دیدیا گیا۔
امیر چنی خان کی اولاد میں مہدی خان اور داؤد خان کے خاندانوں میں جھگڑا اٹھ کھڑا ہوا مہدی خان کی اولاد کلوڑے کہلائے جنہوں نے صدیوں تک سندھ پر حکومت کی اور مقامی قبائل نے ان کا ساتھ دیا جبکہ عرب قبائل نے داؤد خان کی اولاد کا ساتھ دیا جو داؤد پوتا عبادسی کہلائے ریاست بہاولپور کے بانی نواب صادق محمد خان عباسی اول میر داؤد خان کی تیرویں پشت سے تھے عباسی داؤد پوتوں نے صادق آباد،خان پور،منچن آباد،شہر فرید اور اچ وغیرہ کے علاقے اور ریاست بیکانیر کلہڑوں سے فتح کرکے ریاست بہاولپور کی بیناد رکھی نواب صادق محمد خان اول عباسی نے نادر خان شاہ درانی سے نواب کا خطاب حاصل کیا اس طرح انکی کی حکمرانی موجودہ ریاست بہاولپور کے علاوہ شکار پور، لاڑکانہ، سہونستان اور چھتار وغیرہ کے علاقوں میں بھی تسلیم کرلی گئی جسکی یاد میں بہاولپور میں شکار پوری گیٹ بنا کر امر کر دی گئی۔
نواب صادق محمد خان عباسی کے بیٹے نواب بہاول خان عباسی اول نے 1774میں دریائے ستلج کے جنوب میں تین میل کے فاصلے پرایک نئے شہر بہاولپور کی بنیاد رکھی جو ریاست کے وسط میں ہونے کی وجہ سے ریاست کا دارالخلافہ کہلائی نواب بہاول خان ثانی کے عہد میں اس ریاست کودارالسرور بہاولپور کا نام بھی دیا گیا پھر اسی نام کی مہریں اور سکہ بھی جاری ہوا ریاست بہاولپور کے 12نوابوں میں سے نواب بہاول خان ثالث باالخیر،نواب فتح خان،نواب صادق محمد خان چہارم، صبح صادق اور آخری نواب سر صادق محمد خان خامس عباسی کا دور حکوت ترقی،خوشحالی اور بہترین نظام حکومت کے حوالہ سے خاص اہمیت حاصل ہے نواب سر صادق محمد خان خامس عباسی 30ستمبر 1904کوبروز جمعہ دولت خانہ عالیہ بہاولپور کی عمارت میں پیدا ہوائے وہ اپنے والد نواب حاجی محمد بہاول خان خامس کے اکلوتے فرزند تھے 2سال کی عمر میں والد کے ساتھ سفر حج کیا واپسی پر انکے والد نواب بہاول خان عباسی کا انتقال ہو گیا 11 مئی 1907کوسر صادق محمد خان کو ریاست کا حکمران بنانے کا اعلان کیا گیا مگر ریاست کا انتظام اور نواب صاحب کی تعلیم و تربیت کے لیے حکومت برطانیہ نے آئی سی ایس آفیسر سر رحیم بخش کی سربراہی میں کونسل آج ریجنسی قائم کی نواب صاحب نے عربی،فارسی اور مذہبی تعلیم اپنے اتالیق اور اس وقت کے نامور عالم دین علامہ مولوی غلام حسین قریشی سے حاصل کی 3سال کی عمر میں تخت نشین ہونے والے شہزادے کی شخصیت کو نکھارنے کے لیے انکی مذہبی، فوجی اور انتظامی لحاظ سے اعلی تعلیم و تربیت کی گئی۔
یہی وجہ ہے کہ 1911میں ہونے دہلی دربار میں صرف 7 سال کی عمر میں اپنی فوج کی کمان کرتے ہوئے شہنشاہ برطانیہ جارج پنجم کے سامنے پیش ہوئے 1913میں امور ریاست کی تربیت کے لیے انہیں لندن بھیجا گیا 1915 سے 1921 تک ایچی سن کالج لاہور میں زیر تعلیم رہے 1921میں پرنس آف ویلز کے اے ڈی مقرر ہوئے مارچ 1924کو لارڈ ریڈنگ وائسرائے ہند نے نور مھل بہاولپور میں آکر نواب سر صادق کی رسم تاجپوشی ادا کی اور انہیں مکمل اختیارات تقویض کیے اور اسی موقعہ پر صادق ریڈنگ لائبریری کا سنگ بنیاد رکھا گیاجو اب سنٹرل لائبریری کے نام سے موصوم ہے یہ پنجاب کی دوسری بڑی لائبریری ہے جس میں نادر کتب کے ساتھ ساتھ نادر خطوط،اخبارات و رسائل بھی موجود ہیں اس لائبریری میں ایک بس کا بھی انتظام کیاگیا تھا ان خواتین کے لیے جو پردے کی وجہ سے گھروں سے نکل نہیں سکتی تھیں خاتون لائبریری کلر اس بس کے زریعے ان خواتین کو گھروں میں جاکر کتب مہیا کرتی اور واپس لاتی تھیں اسکے علاوہ صادق گڑھ پیلس اور صادق ایجرٹن کالج کی لائبریریاں بھی نادر کتب کے حوالہ سے مشہور تھیں نواب سر صادق دنیا بھرسے جو بھی کتب منگواتے اسکے تین نسخے منگواتے ایک صادق ریڈنگ لائبریری یعنی سنٹرل لائبریری دوسرا صادق گڑھ پیلس لائبریری اور تیسرا نسخہ ایس ای کالج کی لائبریری کے لیے منگواتے تھے ریاست بہاولپور میں ہمیشہ علم و ادب کی سرپرستی کی گئی۔
نواب صاحب اور انکے آباء اجداد نے ہمیشہ تعلیم تربیت کے فروغ اور اسکی ترویج کے لیے بڑھ چڑھ کر کام کیا ابھی سر سید کی علمی تحریک اپنے آغازمیں ہی تھی کہ نواب سر صادق کے دا دا نواب صادق محمد چہارم المعروف صبح صادق 1886میں ایس ای کالج کا افتتاح کیا جہاں 1892میں ڈگری کلاسسز کا اجرا کیاگیا برصغیر کے ممتاز ماہر تعلیم کا تقرر کیا گیاجن میں پروفیس لالہ رام رتن،پروفیسر مرزا اشرف گورگانی،مولوی محمد دین اور پروفیسر وحیدالدین پانی پتی نمایا ں تھے جبکہ بابو پرسنا کمار کوایس ای کالج کا پہلا پرنسپل تعینات کیا گیا نواب سر محمد صادق نے اقتدار سنبھالتے ہوئے 1925میں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ دینی تعلیم کے لیے مدرسہ صدر دینیات کو ترقی دیکر جامعتہ الازہر کی طرز پر جامعہ عثمانیہ قائم کیا پورے برصغیر میں اپنی نوعیت کا یہ واحد ادارہ تھا جہاں تمام مکاتب فکر کے علماء کرام اور اساتذہ تعلیم دیتے تھے اور اسی طرح تمام مکاتب فکر کے طلبہ اپنی علمی پیاس بھجاتے تھے۔
علامہ غلام محمد گھوٹوی کو پہلا شیخ الجامع بھی بنایا گیااور پھر یہ دارہ ترقی کرتے کرتے سب سے بڑی یونیورسٹی اسلامیہ یونیورسٹی بن گیا 1926میں طبی کالج بنایا گیا1954 میں ایچی سن کالج کی طرز پر بہاولپور میں 450ایکڑ پر صادق پبلک سکول قائم کیا اور ایچی سن کالج کے معروف اور ماہر تعلیم خان انور سکندر خان کو پہلا پرنسپل مقرر کیاپنجاب یونیورسٹی لاہور،انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور ا ور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہورمیں آج بھی انکی یادگاریں ہیں 1928میں ستلج ویلی کا قیام عمل میں لاکر تین ہیڈ ورکس سلیمانی،ہیڈ اسلام اور ہیڈ پنجند تعمیر کرکے پوری ریاست میں نہروں کا جال بچھا دیا گیا جس سے زمینیں آباد ہونا شروع ہوگئی نئی منڈیا اور شہر ہارون آباد، فورٹ عباس،حاصل پور،چشتیاں،یزمان لیاقت پور اور صادق آباد بسائے گئے یہی سے نواب سر محمد صادق اور قائد اعظم کے درمیان دوستی کا لازوال رشتہ قائم ہوا1935میں فریضہ حج کے لیے تقریبا100افراد کو اپنے ہمراہ لیکر گئے اور واپسی پر ساتھ لائی ہوئی فوجی گاڑیا ں اور قیمتی سامان سعودی حکومت کو دیدیا مسجد نبوی میں قیمتی فانوس لگوائے۔ قیام پاکستان سے پہلے اورقیام پاکستان کے بعد نواب صاحب کی پاکستان کے لیے خدمات ناقابل فراموش ہیں جو قیامت تک یاد رکھی جائیں گی۔