تحریر : قاری محمد عبداللہ جنوبی پنجاب کی سرزمین سے جہاں نامی گرامی تحریکوں، معتبر اکابرین، معروف سیاستدانوں،مقبول سوغات نے دنیا بھر میں اپنی شہرت کا سکہ جمایا وہیں کئی ایک قادرالکلام ادیب، شعرا ، مقررین خطبا بھی سامنے آئے۔ مگر یہاں چونکہ محض خطبا اور مقررین کی بات ہو رہی ہے تو جب مختلف نامی گرامی تحریکوں میں دیگر مقامات اور شہروں سے سید داود غزنوی ،مولانا ظفر علی خان، انکے بعد علامہ احسان الہی ظہیر ،آغا شورش کاشمیری ودیگر کی خطابت کا ڈنکا بجتا تھا تو اس وقت جنوبی پنجاب کے دل ملتان سے سید عطااللہ شاہ بخاری کا نام بھی اسی صف میں شامل تھا۔سیاسی تحریکوں میں اگر کئی رہنما سندھ سے تعلق رکھتے تھے اور جوش خطابت کا ملکہ رکھتے تھے تو وہیں آج باغی کے لقب سے معروف مخدوم جاوید ہاشمی بھی ایک تنظیم کے پلیٹ فارم سے فن خطابت کے وجہ سے معروف ہوئے اسی طرح نوابزادہ نصراللہ خان ، حسین مدنی ، منظور ٹوانہ،عامر فہیم بھی اپنے دور کے شہسوار میدان خطابت تھے۔
جاوید ہاشمی اس وقت بھی اور آج بھی تاریخی حوالوں کے اعتبار سے بلا کے مقرر ہیں یہ تو اب علالت کے باعث اب وہ انداز نہیں رہا مگر مجھے یاد ہے کہ گذشتہ برس بوسن ہال میں آرمی پبلک سکول کے شہدا کوخراج تحسین پیش کرنے کے لیئے ایک تقریب جسمیں راقم سٹیج سیکرٹری تھا مجھے بلا کر کہا کہ بس میرا نام پکارنے کی آج ضرورت نہیں مجھے ایسے ہی بتا دینا میں ڈائس پر آکر گفتگو کردوں گا الغرض یہ ہاشمی صاحب کی تقریر جذبات سے لبریز تقریر تھی ہاشمی صاحب کی علالت، لکنت کچھ بھی گفتگو میں آڑے نہیں آرہی تھی سقوط ڈھاکہ، کراچی کے حالات ، اور سانحہ اے پی ایس پر جذبات سے معمور اس تقریر میں معصوم بچوں کی شہادت کا تذکرہ کرتے ہوئے نہ صرف جاوید ہاشمی کی آنکھوں سے آنسوجاری تھے بلکہ ہال میں موجود تمام شرکا کی آنکھیں اشکبار تھیں۔
یقینا انداز گفتگو سامعین پر ضرور اثر انداز ہوتا ہے۔کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ بات جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے علامہ اقبال کی شاعری نے تحریک پاکستان اور امت مسلمہ کی بیداری کو جلا بخشی وہیں علامہ اقبال کے خطبا ت ، بالخصوص خطبہ آلہ باد نے اس تحریک کو بام عروج بخشا بعینہ بانی پاکستان کی ہر تقریر نے اس تحریک میں نئی روح پھونکی۔ اور بانی پاکستان کے بعد ازاں کے خطابات فرمودات پاکستانی حکمرانوں کے لیئے مشعل راہ ہیں مگر افسوس کہ یہاں کوئی اس سمت گامزن ہونے کے لیئے آمادہ ہی نہیں۔ حالیہ طور پر ملکی سیاست اور تقریر وگفتگو میں بہت تبدیلی آئی ہے سیاسی جلسوں کی تقاریر میں تبدیل ہونے والا انداز کچھ بھی حوصلہ افزا یا خوش آئند نہیں ہے۔ جبکہ علمی ، ادبی، ثقافتی ، تہذیبی اعتبار سے وقت کے لحاظ سے بہت جدت آئی ہے۔اس جدت میں نہ صر ف تقریر کا انداز بدل گیا ہے بلکہ فن تقریر، خطابت ، گفتگو کی کئی ایک نئی جہتیں اور اصناف متعارف ہوچکی ہیں۔جن پر بڑے شہر کے نوجوانوں ، طلبا وطالبات کو مکمل عبو ر حاصل ہے۔ مگر جنوبی پنجاب کے طلبا وطالبات اس چیز سے کلی طور پر نا آشنا ہیں۔جبکہ جنوبی پنجاب کے تعلیمی اداروں میں جدت کیا آنی تھی فن تقریر اور تقریر کا رجحان ہی ختم ہوتا جا رہا ہے۔
اب محض حکومت پنجاب کے حکم پر وقتی طور پر اور زبر دستی سے چند طلبا وطالبات کو رٹی رٹائی چیزیں ذہن نشین کر اکر حکومتی حکم کی تعمیل کی جارہی ہے جنوبی پنجاب کے تما م تعلیمی اداروں سکولز، کالجز، یونیورسٹیز کا یہی حال ہے۔ اس ضمن میں ان تمام حالات کے تناظر میںجنوبی پنجاب کے نوجوان طلبا وطالبات کو گفتگو ، تقریر ، خطابت کی جدت سے مکمل طور پر روشناس کرانے کا بیڑا اس وقت وقاص مغیرہ اقبال، محمد جنید اکرم،عمر شاہ نے اٹھالیا ہے اور وہ جنوبی پنجاب کے طلبا وطالبات کو کراچی، لاہور، پشاور، اسلام آباد، کوئٹہ کے طلبا کے برابر کا مقرر اور جدت کا مقابلہ کرنے کے عزم کا علم اٹھا کر میدان عمل میں ہیں جنہوں نے اس عظیم کا رخیر کے لیئے ملتان مجلس مباحثہ کے نام سے موثر عملی ،متحرک تنظیم کو قائم کر دیا ہے یہ جنوبی پنجاب کے طلبا وطالبات کے لیئے کسی نعمت سے کم نہیں اور ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا ہے۔ جس کے زیر اہتمام تربیتی مجالس، ٹریننگ، ورکشاپ، سیمینارز کا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے اور ملتان و لاہور کے معرو ف ٹرینر ز سیدہ میڈم تمت زہرا، سید زیشان علی شاہ، مخدوم احسن ہاشمی، طیب حسین کی خدمات سے استفادہ حاصل کیا جا چکا ہے ۔ اور اس تربیت کے بعد پہلی کڑی کا انعقاد گونج کے نام سے آل ملتان تقریری مقابلہ کا نعقاد سٹی کالج میں کیا جا چکا ہے اگلاپڑاوآل پاکستان مقابلہ مقدمہ کے عنوان سے موسوم ہے جس کی تیاریوں میں وقاص مغیرہ اقبال ، محمد جنید اکرم، عمر شاہ اپنی مخلص ٹیم کے ساتھ سر گرم عمل ہیں انتظامی امور کے لیئے وقاص مغیرہ کی صدارت میں اجلاس بھی ہو چکا ہے جسمیں پروگرام کو اعلی سطح پر ، بہترین انتظامات کے ساتھ شایان شان شاندار طریقے سے منعقد کرنے کے لیئے لائحہ عمل طے کیا گیا۔ کئی ایک کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔ راقم کو بھی نشرواشاعت کے حوالے سے بھاری بھرکم ذمہ داری عائد کر دی گئی ہے۔ان بھا ئیوں کا عزم مصمم اور جذبہ اس بات کی نوید ہے کہ جنوبی پنجاب میں فن تقریر کا مستقبل روشن اور تابناک ہے۔
ملتان ڈیبیٹنگ سوسائٹی یعنی ملتان مجلس مباحثہ کے پلیٹ فارم سے طلبا وطلبات کو اپنی صلاحیتوں کے نکھار کا موقع ملے گا اور طلبا وطالبات کو اس سے ضرور با لضرور استفادہ حاصل کرنا چاہیئے کیونکہ اس تنظیم کا سلوگن ہے بول تیرا لہجہ بھی اثر رکھتا ہے۔یہ پلیٹ فارم ہر نوجوان طالب علم کے لہجے کو پر تاثیر بنا نے کے لیئے کوشاں ہے۔یہاں یہ اہم بات انتہائی قابل ذکر اور اہمیت کی حامل ہے کہ وقاص مغیرہ، جنید اکرم ، عمر شاہ برادران کا موقف ٹھوس اور مبنی بر حقیقت ہے کہ جنوبی پنجاب کے نوجوان طلبا و طالبات اپنے سکول، کالج ، یونیورسٹی ، اپنے شہر ، ضلع، ڈویژن سے تو کوالیفائی کر جاتے ہیں مگر صوبائی ، قومی سطح پر پہنچ کر پیچھے رہ جاتے ہیں اسکی بنیادی وجہ معیار، طرز، صنف ، طریقہ کار کا فرق جدت سے نا آشنائی ہے۔ جنوبی پنجاب کے طلبا وطالبات سیدھی سادھی تقریر رٹ کر چلے جاتے ہیں مگر وہاں اس وقت رائج تقریر کی جدید اصناف ڈیکلمیشن ، پارلیمنٹیرین سطح کی طرز سے نا واقف ہوتے ہیں اور ناکامی سے دو چار ہو کر دلبرداشتہ بھی ہو جاتے ہیں ہم نے اس مقصد کو مدنظر رکھ کر ملتان مجلس مباحثہ کو قائم کیا ہے کہ ان اصناف ورموز سے نہ صرف شناسا کرائیں گے بلکہ اس جدید مہارت ، جدید طرز پر بھی تربیت کے بعد جنوبی پنجاب کے طلبا وطالبات کو مکمل عبور حاصل ہو گا اور کوئی احساس کمتری کا شکار نہ ہو گا نہ ہی کوئی افسردگی یا مایوسی ہوگی۔ پہلے آل ملتان مقابلہ میں زونیش زبید، ماہ نور طارق، وائزہ عمران، علی نقوی، ناصر عباس نمایاں پوزیشنز حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اگلا مقابلہ بہت جلد منعقد ہو رہا ہے جسمیں ملک بھر سے مقرین اپنی خطابت کے جوہر دکھائیں گے۔جنوبی پنجاب کے نوجوانوں کے لیئے اپنی نوعیت کے اس منفرد مگر اہم کام کا بیڑا اٹھانے پر وقاص مغیرہ، جنید اکرم ، عمر شاہ اور انکی ٹیم کی کاوشیں قابل ستائش ہیں۔