سوڈان (جیوڈیسک) صدر سلوا کیر نے پیر کو جنگ بندی کا اعلامیہ جاری کیا تھا جس کمانڈروں کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اپنی فورسز کو قابو کریں، شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کریں۔
جنوبی سوڈان کے متحارب رہنماؤں نے اپنی اپنی فورسز سے لڑائی روکنے کا کہا ہے۔
پیر کو ایک مقامی ریڈیو چینل پر بات کرتے ہوئے سابق نائب صدر ریک ماچار نے اپنی فورسز پر زور دیا کہ وہ جنگ بندی کا احترام کریں جس کا اعلان صدر سلوا کیر نے چند گھنٹے قبل کیا تھا۔
ایک نجی ریڈیو چینل ’آئی ریڈیو‘ سے گفتگو میں ریک ماچار نے کہا کہ ’’میں ان تمام جوانوں کو بتا رہا ہوں جو لڑتے رہے ہیں، اپنا دفاع کرتے رہے ہیں کہ وہ جنگ بندی کا احترام کریں اور اس وقت جہاں ہیں وہیں رہیں۔‘‘
صدرسلوا کیر نے پیر کو جنگ بندی کا اعلامیہ جاری کرتے ہوئے دونوں فریقین کو جُبا کے مقامی وقت کے مطابق شام چھ بجے جنگ روکنے کا حکم دیا تھا۔
اعلامیے میں کمانڈروں کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اپنی فورسز کو قابو کریں، شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کریں۔
بعد ازاں سرکاری عہدیداروں نے فوج کو بیرکوں میں فوری واپس جانے کا حکم جاری کیا۔
جنوبی سوڈان میں اس وقت لڑائی شروع ہوئی تھی جب دسمبر 2013 میں صدر سلوا نے ریک ماچار کو نائب صدر کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔
گزشتہ سال اگست میں ہونے والے ایک امن معاہدے کے تحت ماچار کو دوبارہ اس عہدے پر بحال کر دیا گیا اور اتحادی عبوری حکومت قائم کی گئی۔
تاہم دونوں میں سے کسی رہنما نے اپنی فورسز کو ایک دوسرے میں ضم کرنے کا قابل عمل منصوبہ اب تک پیش نہیں کیا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جنوبی سوڈان کے متحارب رہنماؤں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنی فورسز کو قابو میں رکھیں اور خبردار کیا تھا کہ شہریوں اور اقوام متحدہ کی تنصیبات پر حملے جنگی جرائم میں شمار ہو سکتے ہیں۔ تاہم اس کے چند گھنٹے بعد پیر کو پانچویں دن بھی جُبا میں لڑائی جاری رہی۔
ہزاروں خوفزدہ شہری سلوا کیر اور ریک ماچار کی فورسز کے درمیان جاری لڑائی سے بچنے کے لیے اقوام متحدہ کے کیمپوں میں جمع ہیں۔ یہ لڑائی جمعرات کو شروع ہوئی تھی اور عینی شاہدین نے وائس آف امریکہ کو پیر کو بتایا کہ صدر سلوا کیر کی فورسز نے شہریوں کی حفاظت کے لیے بنائے گئے اقوام متحدہ کے ایک کیمپ پر گولہ باری کی ہے۔
دارالحکومت جُبا میں مقامی ریڈیو نے اس سے قبل خبر دی تھی کہ کئی دن سے جاری تشدد میں 276 افراد ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ ریک ماچار کے ترجمان نے کہا کہ کم از کم 150 افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوئے۔
ادھر امریکہ کے محکمہ خارجہ نے جنگ بندی کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس پر عملدرآمد کی ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیئے۔
عالمی ادارہ خوراک کا کہنا ہے کہ جنوبی سوڈان کے 48 لاکھ شہریوں کو اس سال خوراک کی سخت قلت کا سامنا ہے اور یہ پسماندہ ملک قحط کے دہانے پر ہے۔
ادارے نے یہ بھی کہا کہ جنگ سے 24 لاکھ افراد اپنے گھروں سے بھاگنے پر مجبور ہوئے ہیں جبکہ دیگر لاکھوں افراد ملک سے فرار ہو گئے ہیں۔