تحریر : اختر سردار چودھری، کسووال 2 جولائی 1947 کی ایک طوفانی کو امریکی قصبے روزویل میں کئی لوگوں نے کسی چیز کو آسمان میں اڑتے دیکھا۔ اگلی صبح ایک چرواہا قریبی پہاڑی سے گزر رہا تھا تو اسکی نظر ایک چمک دار ملبے کے ڈھیر پر پڑی۔بات اوپر تک پہنچی تو حکومت نے اس سارے ملبے کو اپنے قبضے میں لے لیا اور لوگوں کو بتا یا گیا کہ یہ عجیب وغریب دھات کے ٹکڑے دراصل موسمیاتی مصنوعی (غبارے) کے ہیں اس کے 30 سال بعداس کی تحقیق میں شامل ریٹائرڈ میجر جیسی مارسل نے ایک تفتیش کار کو بتایا کہ روزویل کے حادثے میں ملنے والے دھات کے ٹکڑے کسی اور دنیا کے تھے ۔” فریڈ مین “بے چین ہو گیا اس نے نے یہ کیس پھر سے کھولا تحقیقات میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ موسمیاتی غبارے کی کہانی امریکی حکومت کی ایما پر لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے بنائی گئی تھی ۔اصل میں وہ ٹکڑے کسی خلائی مخلوق کی سواری کے تھے ۔ ان ٹکڑوں میں لمبی لمبی انگلیاں، بڑی بڑی آنکھیں اور نازک ہڈیاں شامل تھیں۔ جنہیں امریکی حکومت نے اپنے قبضے میں لیا تھا ۔ ہمیشہ معمہ بنے رہنے والے اس واقعے کی یاد میں ہر سال 2 جولائی کو ورلڈ یو۔ ایف۔ او ۔ڈے یعنی خلائی مخلوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔
حتمی طو ر پر نہیں کہا جا سکتا کہ خلائی مخلوق کا وجود نہیں ہے ۔بہت سی شہادتیں اس پر ہیں کہ خلائی مخلوق (زمین کے علاوہ کائنات میں کسی اور سیارے پر زندگی کا وجود )ہے۔خلائی مخلوق یا ایلینز یعنی کائنات کے دیگر سیاروں میں آباد مخلوق کیسی ہو سکتی ہے اس بارے میں کئی ایک نظریات مقبول ہیں ،ہالی و وڈاور بالی و وڈ میں اس موضوع پر کئی ایک فلمیں بنائی جا چکی ہیں جن میں بھی انہیں مختلف جسامت ،شکل و صورت اور خدوخال میں پیش کیا گیا ہے ۔حال ہی میں انڈیا کی فلم پی ۔کے نے کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کیے ۔جس میں ایلینز کو انسانی شکل و صورت میں دیکھایا گیا اس کے صرف کان بڑے دکھائے گئے ۔لیکن خلائی مخلوق اگر ہے تو وہ کس شکل و صور ت کی ہے اس بارے میں کوئی حتمی نظریہ موجود نہیں ہے۔
فلموں کے علاوہ اب تک اس موضوع پر ہزاروں کہانیاں لکھی گئی ہیں جن میں اس کو مختلف شکل و صورت میں پیش کیا گیا ہے اس پر اردو زبان میں محی الدین نواب کی” دیوتا” نامی کہانی کافی دلچسپ ہے جو دنیا کی سب سے طویل کہانی بھی ہے ۔سائنس دونوں کے بھی اس بابت مختلف قیاس ہیں حال ہی میں ایک سائنسدان (یونیورسٹی آف بارسلونا کے فرگس سمپسن )نے یہ انکشاف کیا ہے کہ ایلین یا دیگر سیاروں کی مخلوقات کا اگر وجود ہوا تو وہ تقریباً ریچھ کی جسامت کے برابر ہوں گے اور ان کا وزن لگ بھگ 300 کلو گرام ہو گا۔ انہوں نے اپنی تحقیق میں نادیدہ سیاروں میں مخلوقات کی موجودگی کا اشارہ دیا ہے۔
Astronomers
ماہرین فلکیات نے دعویٰ کیا ہے کہ ہماری کہکشاں میں زمین جیسے کئی سو کھرب سیارے موجود ہیں اور ان پر زندگی بھی موجود ہو سکتی ہے ۔آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کے ماہرین کی تحقیق کے مطابق ہماری کہکشاں ملکی وے میں اربوں ستارے کا ہم جیسا نظام شمسی ہے جہاں سیارے بھی موجود ہیں۔ بعض سیاروں پر مائع پانی بھی موجود ہے ۔جہاں پانی ہوگا وہاں زندگی بھی لازمی ہو گی ۔ماہرین فلکیات کی اس بات پر ہم کو اتفاق ہے ۔ کہ ضروری نہیں زندگی اسی شکل میں پائی جاتی ہو جس سے ہم واقف ہیں۔ دوسرے سیاروں پر ہماری زمین سے بالکل مختلف حالات میں ،شکل و صورت میں بھی زندگی موجود ہو سکتی ہے ۔کسی حدتک اس بات کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ ہماری زمین پر جنات کا وجود ہے ۔سائنس بھی غیر مری وجود،ہمزاد وغیرہ کی قائل ہو چکی ہے لیکن جنات ہم کو نظر نہیں آتے۔
نظر نہیں آتے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کا وجود نہیں ہے ۔اسی یقین کے ساتھ سائنسدان و ماہرین گزشتہ کئی دہائیوں سے خلاء میں جان بوجھ کر یا حادثاتی طور پر سگنل بھیج رہے ہیں اور خلائی مخلوق کی جانب سے دیئے گئے کسی ممکنہ سگنل کو سننے کی کوشش کر رہے ہیں،کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر خلائی مخلوق کی جانب سے بھیجے گئے سگنل موصول ہوگئے تو دنیا میں ایک کہرام برپا ہو جائے گا۔اور جو سوال سب سے زیادہ اہمیت اختیار کر جائے گا وہ یہ ہوگا کہ ہماری زمین کا مستقبل کیا ہو گا؟ کیا واقعی ایک دن ایسا آئے گا کہ جب کائنات کے کسی اور سیارہ کی مخلوق ِسے رابطے میں ہونگے ؟ لیکن فعل حال تو یہ سوال سب سے اہم ہیں کہ کہ خلائی مخلوق کیسی ہوگی اور اس کے ساتھ ہمارے تعلقات دوستانہ ہونگے یا دشمنی پر مبنی ہونگے ؟ اس پرمزید بات کرنے سے پہلے ذرا اس خبر کو پڑھیں۔
امریکہ 24 جون 1947ء کو نوجوان تاجر ”کینتھ آرنلڈ” پہاڑ ”مائٹی” کے گرد اپنے جہاز سے چکر لگا رہا تھا، کہ اس نے تیز روشنی دیکھی جو پلیٹیں سی تھیں جو تقریباً اسی کی سمت اڑان بھر رہی تھیں۔اس نے ان کو بہت قریب سے دیکھااور بعد میں بتایا کہ ان کے کوئی واضح ابھار نہیں تھے ،نہ منہ ،نہ دم اور نہ ہی پر، صرف پوری طرح سے گول پلیٹیں، حیران کن حد تک چمکتی ہوئیں، وہ تعداد میں نو تھیں ان کا اڑنے کا انداز بہت عجیب تھا، وہ ایسی اڑتی ہوئی طشتریاں لگ رہے تھے جیسے انہیں پانی کی سطح پر ڈال دیا گیا ہو،اس کے ان آخری الفاظ ہی سے ایک مقامی صحافی نے ”اڑن طشتری” (UFO ) کی اصطلاح اچک لی جس سے آج تک ان کو یہ ہی نام دے دیا گیا ۔اس کے بعد ہوا یہ کہ امریکہ کے طول وعرض میں اڑن طشتریوں کے دیکھے جانے کی ساڑھے آٹھ سو سے زیادہ رپورٹیں موصول ہوئیںہر کسی نے انہیں دیکھنے کا دعوی کیا، بلکہ بعض نے تو تصویریں بھی اتاریں.لیکن اس بات کی بڑی حیرت ہے کہ یہ اڑن طشتریاں صرف امریکہ میں ہی کیوں نظر آتی ہیں۔
Space Ship
اس کے علاوہ دیگر ممالک میں بہت کم ان کو دیکھا گیا ہے ۔اس لیے ہو سکتا ہے یہ امریکہ کا ہی کوئی خفیہ منصوبہ ہو ۔امریکہ جھوٹ بولنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا ۔ 1993 میں امریکہ سائنسدانوں کو ہی کسی نامعلوم سیارے سے ایسا ریڈیو سگنل موصول ہوا جسے “ڈی کوڈ” کرنے پر معلوم ہوا ہے کہ اس سیارے کی مخلوق چودہ مئی 1993ء کو سہ پہر تین بجے زمین پر حملہ آور ہوگی ۔ مارٹن سٹاک نے ان دنوں اعلیٰ سفارتی ذرائع کے حوالے سے کہا تھاکہ امریکہ کی ملٹری ٹاسک فورسز اس حملہ کو ناکام بنانے کے لئے شب و روز مصروف ہیں اس ماہر فلکیات نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ حملہ آور مخلوق زمین کے قدرتی وسائل پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔( لیکن اب 2015 ہے ابھی تک خلائی مخلوق نے زمین پر کوئی حملہ نہیں کیا ۔اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے امریکہ دنیا کو خوف میں مبتلا رکھ کر اپنی طاقت کا سکہ جمائے رکھنا چاہتا ہے ۔میں نے ایک مضمون پڑھا جس میں امریکہ کے چاند پر قدم رکھنے کو جھوٹ کہا گیا ہے ۔کیونکہ تب سے اب تک سائنس نے اتنی ترقی کرنے کے باوجود دوبارہ چاند پر کوئی کیوں نا جا سکا۔
اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ خلائی مخلوق کے حملے کی ہوائی بھی امریکہ نے ہیرو بننے کے لیے اڑائی ہوگی) لیکن ان باتوں کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اڑن طشتریوں کا وجود نہیں ہے یا خلائی مخلوق نہیں ہے ۔ خلائی مخلوق کے وجود بارے ان بیانات کو پڑھیں سابق امریکی صد رجمی کارٹر نے اپنی ایک انتخابی مہم میں کہا تھا کہ اگر وہ صدر منتخب ہوگئے تو خلائی اڑن طشتریوں کے بارے میں تمام خفیہ معلومات کو منظر عام پر لائیں گے ۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے خود بھی ایک بار اڑن طشتری دیکھی تھی۔ایک ایسا ہی دعویٰ امریکہ کے صدر رونلڈ ریگن نے کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک بار طیارے میں سفر کے دوران انہوں نے کھڑکی سے باہرایک اڑن طشتری دیکھی جس سے سفید روشنی نکل رہی تھی۔سودیت یونین کے صدر میخائل گورباچوف نے ایک بار اپنی تقریر میں کہا تھا کہ اڑن طشریاں کوئی خیالی چیز نہیں ہیں بلکہ درحقیقت اپنا وجود رکھتی ہیں اور ہمیں ان کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے ۔ بلغاریہ کے خلائی تحقیق کے قومی ادارے کے ایک سائنس دان ” لشزار فلیپوف ” کا کہناہے وہ گذشتہ دوسال سے (یہ بات انہوں نے گزشتہ سال کہی) وہ ایک خلائی مخلوق سے رابطے میں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کچھ عرصے پہلے خلائی مخلوق نے ان کی لیبارٹری کو 30 سوالات پر مشتمل ایک پیغام بھیجا تھا اور ہمارے ماہرین اس اجنبی زبان اور علامتوں کو سمجھنے اور پڑھنے کی کوشش کررہے ہیں۔(کیا علم کہ یہ بات سستی شہرت کے لیے کی ہو سائنس دان نے)۔
اصل میں سائندان اپنے جیسی مخلوق ڈھونڈ رہے ہیں اس بات سے یہ ثابت ہوتا ہے۔پچھلے سے پچھلے سال فلکیات کے ماہرین نے ایک کانفرنس میں یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ کائنات کی کہکشاؤں میں موجود شمسی نظاموں میں کم ازکم نصف نظام ایسے ہیں جن میں زمین جیسا موسم اور حالات رکھنے والے سیارے موجود ہیں۔دوسری طرف برطانیہ کے معروف ماہر فلکیات ” لارڈ ریس” کی بات کی بات دل کو لگتی ہے کہ میرے خیال میں ہم فی الحال یہ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ ہماری زمین سے باہر مخلوق کی شکل و ہیت کیا ہے اور ان کا علم کتنا وسیع ہے ۔ ان کے بارے میں سوچنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے بندر آئن سٹائن کے نظریہ اضافت پرسوچنا شروع کردیں۔ایک سائنس دان کا کہناہے کہ خلائی مخلوق کے حوالے سے ہم عموماً اسے اپنے پیمانے میں جانچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ وہ کسی اور شکل کی ہو اور اس کا جسمانی نظام کسی اور طرح کام کرتا ہو۔مجھے قرآن پاک کی آیت کا مفہوم یاد آ رہا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ” پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کئے خواہ وہ زمین کی نباتات میںسے ہوں یا خودان کی اپنی جنس (یعنی نوع انسانی) میں سے یا ان اشیاء میں سے جن کو یہ جانتے تک نہیں”
Satellite
اگر زمین کی مٹی سے زمین پر مخلوق کا وجود ممکن ہے تو کسی اور سیارہ پر اس سیارہ کی مٹی (فرض کرو وہ صرف روشنی ہو)اور کسی روشنی کی بنی مخلوق کا وجود کیوں ممکن نہیں ہے مثلا آتشیں مخلوق کا وجود پلازمے کے ماحول مٹی سیارہ پر ہو ۔خاص کر ان سیارہ پر جو سورج کے نزدیک ہیں ہو۔ ہماری کہکشاں کم و بیش ڈیڑھ کھرب سورج (جن کی اپنی روشنی ہے )یعنی ستاروں پر مشتمل ہے ۔ جن میں ہمارا سورج ایک ننھے منے چراغ کی طرح کہکشاں کنارے پر واقع ہے ہمارے پڑوس میں دوسری بڑی کہکشاں ”اینڈرومیڈا” ہم سے پچیس لاکھ نوری سالوں کے فاصلے پر واقع ہے ۔ جس میں دو کھرب سورج (ستاروں) کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ہماری کہکشاں کے اردگرد تقریباً پچاس دیگر ایسی کہکشائیں پائی جاتی ہیں۔ انہیں ”لوکل گروپ” کا نام دیا گیا ہے ۔اِس لوکل گروپ کے پڑوس میں تقریباً تین ہزار ایسی کہکشاں کا ایک اور گروپ موجود ہے ۔ پڑوس درپڑوس میں کہکشاں کے یہ گروہ یا جھرمٹ پھیلتے پھیلتے چودہ ارب نوری سالوں کی بے پناہ وسعتوں تک چلے جاتے ہیں۔ ایک تجزیے کے مطابق دوکھرب کہکشاں کا وجود ثابت ہوتا ہے ۔ ان سب میں کتنے سورج (ستارے )۔
ان کی ذیلی زمینیں، پھر ان پر کتنی انواع اقسام کی مخلوقات اور ذہین مخلوقات پائی جاتی ہیں؟انسان پکار اٹھتا ہے بے شک اللہ رب العالمین ہے۔ علامہ ابن کثیر نے سورہ فاتحہ کی پہلی آیت کی تفسیر میں جہانوں کے متعلق کئی اقوال کا حوالہ دیا ہے ۔ ان میں سے ایک قول حضرت ابو سعید خدری کا ہے کہ چالیس ہزار عالم ہیں۔ساری دنیا ان میں سے ایک عالم ہے ۔ اسی طرح حضرت علیسے منقول ہے کہ یہ ستارے جو آسمان میں ہیں ان میں بھی زمین کے شہروں کی طرح شہر ہیں ۔ ہر شہر دوسرے سے نور کے ستون کے ذریعہ ملا ہوا ہے ۔سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر 44 میں کہا گیا ہے ”ساتوں آسمان اور زمین اور جوان میں ہیں،سب اس کی تسبیح کرتے ہیں”اس آیت کریمہ میں لفظ ”من” ہے جوعقل و شعور کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔حضرت ابن کثیر نے سورہ طلاق کی آخری آیت میں ایک حدیث کا ذکر کیا ۔ ” حضو ر ۖ ایک مرتبہ صحابہ کرام کے مجمع میں تشریف لائے ۔ دیکھا کہ سب کسی غورو فکر میں چپ چاپ ہیں ۔ پوچھا کیا بات ہے؟
جواب ملا کہ اللہ کی مخلوق کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ فرمایا ٹھیک ہے مخلوقات پر نظر دوڑائو۔ لیکن کہیں اللہ کی بابت غورو خوض میں نہ پڑ جانا ۔ سنو! اس مغرب کی طرف ایک سفید زمین ہے اس کی سفیدی اس کا نور ہے ۔ فرمایا اس کا نور اس کی سفیدی ہے ۔ سورج کا راستہ چالیس دن کا ہے ۔ وہاں اللہ کی مخلوق ہے جس نے ایک آنکھ جھپکنے کے برابر بھی کبھی نا فرمانی نہیں کی۔صحابہ نے کہا پھر شیطان کہاں ہے ؟فرمایا انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ شیطان پیدا کیا گیاہے یا نہیں ؟پوچھا کیا وہ بھی انسان ہیں؟فرمایا ا نہیں آدم کی پیدائش کا بھی علم نہیں (حوالہ تفسیر ابن کثیر سورہ طلاق)۔قدیم مفسرین میں سے تو صرف ابن عباس ایک ایسے مفسر ہیں جنہوں نے اس دور میں اس حقیقت کو بیان کردیا تھا کہ اس زمین کے علاوہ بھی کہیں اور بھی ذی شعور اور ذی عقل کی بستی ہوسکتی ہے۔