تحریر : شاہد شکیل حالیہ یورپی اکانومی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جرمن قوم فضول خرچی سے پرہیز کرتی ہے اور روز مرہ اشیاء کے علاوہ جب تک اشد ضرورت پیش نہ آئے خریداری کرنے سے اجتناب کیا جاتا ہے مثلاً کمپلیٹ کچن، کراکری، سائیکل، کار، گھریلو ساز وسامان حتیٰ کہ ملبوسات پر بھی پیسے کا ضیاع نہیں کیا جاتا، فضول خرچی میں کون سے یورپی ممالک اپنی ماہانہ آمدنی میں کتنا فیصد حصہ کہاں اور کیوں خرچ کرتے ہیں یورپی ممالک کے باشندوں کی عادات اور دقیانوسی تصورات پر ایک نظر۔ ماہانہ اخراجات کی ایک حد مقرر ہے نہیں تو جیب اتنی جلدی خالی ہو جاتی ہے کہ انسان تصور بھی نہیں کر سکتا اس تجزئیے سے لزبن سے ہیلسنکی تک اور ڈبلن سے ایتھنز تک کے یورپی باشندے متفق ہیں، مختلف ممالک کے افراد اس تجزیئے سے اختلاف بھی رکھتے ہیں، کئی لوگ ماہانہ آمدنی کو معقول طریقے سے استعمال نہیں کرتے کیونکہ وہ جانتے ہی نہیں کہ کب، کہاں اور کیوں خرچ کرنا ہے اور کہاں رقم بچانی ہے۔
ماہانہ آمدنی اور اخراجات پر یورپی یونین کے اعداد وشمار کرنے والے ادارے سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہیں کہ کن ممالک کے افراد کس کونزیوم کے عادی ہیں اور کن اشیاء پر رقوم خرچ کی جاتی ہیں،مثال کے طور پر جرمنی میں سال میں ایک بار ساٹھ ہزار افراد اپنے اخراجات کا اعداد وشمار کرتے ہیں کہ ایک سال میں انہوں نے کہاں اور کیوں بڑی رقوم کا استعمال کیا ،بینک سے کتنا قرض لیااور ماہانہ آمدنی کا کتنے فیصد ضیاع ہوا، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ہر فرد کی ماہانہ آمدنی میں نمایاں فرق ہے ،ملک سے ملک، ملکی معیشت، بیروزگاری اور دیگر معاملات کو سامنے رکھ کر سو فیصد اندازہ لگانا مشکل ہے، مثلاً رومانیہ کے باشندے اپنی ماہانہ آمدنی کا سینتیس فیصد کھانوں پراستعمال کرتے ہیں جبکہ جرمن پیکیج ٹورز یا انشورنس کے اخراجات میں نمبر ون ہیں ٹیکسی یا ریستوراں جانے سے گریز کرتے ہیں۔
جنوبی یورپ چونکہ مالی بحران کا شکار ہے لیکن پھر بھی وہاں کے باشندوں کا ریستوراں یا کافی ہاؤس جانا مشغلہ ہے، آئرش باشندوں کو پب سے محبت ہے اور روزانہ وہاں جانا روٹین میں شمار ہوتا ہے، آئر لینڈ، قبرص، سپین اور یونان کے باشندے اپنی ماہانہ آمدنی کا دس فیصد حصہ ریستوراں، کافی ہاؤس اور بسٹرو وغیرہ پر ضائع کرتے ہیں، اعداد وشمار کرنے والے اداروں کا کہنا ہے ماہانہ آمدنی کا حصہ ریستوراں یا کافی ہاؤس میں استعمال کرنے میں آئر لینڈ نمبر ون ہے وہ تیرہ فیصد ،سپین نمبر دو، بارہ فیصد ،قبرص نمبر تین چھ فیصد اور جرمن تین فیصد باہر کھانے پینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ فیشن کرنے میں اطالوی نمبر ون ہیں،اپنی ماہانہ آمدنی کا نو فیصد ملبوسات اور جوتوں کی خریداری پرخرچ کرتے ہیں،فیشن پر سب سے زیادہ رقوم خرچ کرنے والے ممالک میں سپینش، برطانوی، آسٹرین اورپرتگیزی ہیں، جبکہ جرمن اکثر ڈسکاؤنٹ سٹورز سے سستے ملبوسات کی خریداری کرتے ہیں، فرانس دنیا کا ماڈرن اور فیشن ایبل ملک مانا جاتا ہے وہ بھی ملبوسات کے معاملے میں جرمن قوم سے کم نہیں، فیشن پر ماہانہ آمدنی کا سب سے زیادہ حصہ استعمال کرنے میں نمبر ون اطالوی جو نو فیصد ،نمبر دو ،سپین سات فیصد، برطانوی چھ فیصد اور جرمن پانچ فیصد فیشن پر پیسوں کا ضیاع کرتے ہیں۔
Fashion
جرمن کاروں کے جنونی ہونے کے باوجود ان کی خریداری پر یورپی ممالک کے باشندوں میں سب سے پیچھے ہیں، کاروں کی خرید و فروخت میں لکسمبرگ کے باشندے نمبر ون ہیں جو آمدنی کا چھ فیصد حصہ کاروں پر استعمال کرتے ہیں، نمبر دو ڈینش پانچ فیصد، نمبر تین برطانوی چار فیصد اور جرمن تین فیصد کاروں کی خرید وفروخت میں دلچسپی لیتے ہیں، کاروں کی کم خرید و فروخت میں پولینڈ اور کروشیا کے باشندے ہیں،جبکہ فرانسیسی اور اطالوی بھی کاروں میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، جرمن کاروں کی نسبت موٹر سائیکلز اور سائیکلوں پر اپنی آمدنی کا کافی حصہ خرچ کرتے ہیں سائیکل کے استعمال میں نیدر لینڈ دنیا میں نمبر ون ہے، قبرص اور مالٹا میں سائیکل نہ ہونے کے برابر ہے۔
مشروبات۔موسم سرما میں شمالی یورپ کے باشندے بکثرت الکوحل استعمال کرتے ہیں شراب نوشی میں بالٹک ممالک نمبر ون ہیں، ماہانہ آمدنی کے اعتبار سے وہ یورپی ممالک میں سب سے کم شمار کئے جاتے ہیں لیکن موسم سرما میں شراب نوشی پر آمدنی کا زیادہ حصہ خرچ کیا جاتا ہے،بالٹک ممالک میں نمبر ون ایستونیا کے باشندے ہیں جو آمدنی کا چھ فیصد حصہ الکوحل پینے پر استعمال کرتے ہیں، نمبر دو لیتھوانیا،پانچ فیصد، نمبر تین پر لیٹ لینڈ چار فیصد اور دیگر ممالک کے بعد جرمن جو دو فیصد سے کم الکوحل پر استعمال کرتے ہیں، سب سے کم الکوحل پر آمدنی کا حصہ استعمال کرنے والے اطالوی، سپینش اور یونانی ہیں۔ مطالعہ ایک ایسا مشغلہ ہے جو انسانی ذہن کی تعمیر کرتا ہے آمدنی کم ہونے کے باوجود دنیا بھر میں مطالعہ کرنے والوں کی کمی نہیں اس بات کا اندازہ کتب و رسائل کی خرید وفروخت سے لگایا جا سکتا ہے، مطالعہ کرنے میں یورپی ممالک میں سلوواکیہ نمبر ون ہے اس ملک کے باشندے اپنی ماہانہ آمدنی کا تین فی صد مطالعہ پر خرچ کرتے ہیں، نمبر دو کروشیا، نمبر تین فن لینڈ اور دیگر ممالک کے بعد جرمنوں کا نمبر ہے۔
جرمنی کے شہر نیورن برگ میں واقع انٹر نیشنل و یورپی مارکیٹ کے محقیقین نے تجزیہ کرنے کے بعد گزشتہ تین برسوں کا انڈیکس تیا ر کیا ہے جس میں بتایا گیا کہ جرمن صارفین کو اب خریداری میں کو ئی دلچسپی نہیں رہی اور خرید و فروخت میں واضح طور پر کمی واقع ہوئی ہے انہوں نے وضاحت سے بتایا کہ شہریوں کا کہنا ہے بین الاقوامی معیشت بحرانوں کا شکار ہے ،جاپان میں جوہری پلانٹ کے پھٹنے اور دوسری وجہ یوکرائن اور روس کی جنگ کے علاوہ حالیہ مغربی افریقہ میں وائرس کے پھیلاؤ نے ایک خوف میں مبتلا کر دیا ہے اور جب تک بین الاقوامی سطح پر واضح تبدیلی کے امکانات روشن نہیں ہو جاتے ہم سوچے سمجھے بغیر کسی بے مقصد چیز کو خریدنا پسند نہیں کریں گے مثلاً نئی کار یا فرنیچر وغیرہ، غیر یقینی صورت حال میں بے وجہ پیسے کا ضیاع نہیں کرنا چاہتے۔ جرمنی کی اقتصادی اور معاشی حالت اگرچہ دیگر یورپی ممالک سے بہت بہتر اور مضبوط ہے لیکن پیسے کا ضیاع عقلمندی نہیں۔وقت اور پیسہ دو ایسی چیزیں ہیں جو ہاتھ سے نکل گئیں تو پچھتاوہ رہ جاتا ہے اس لئے دونوں کی قدر کرنا لازمی ہے،اسی کو کفایت شعاری کہتے ہیں۔