تحریر : ممتاز ملک کچھ باتیں کچھ کام اگر مناسب وقت پر ہی منہ سے نکالے جائیں تو ہی بہتر ہوتے ہیں . لیکن ہمارا عمومی رویہ یہ ہی ہے کہ کام کرنے یا ہونے سے پہلے ہی اس کا اتنا ڈھنڈھورا پیٹ لیا جاتا ہے کہ وہ ہونے والا کام بھی اکثر نہیں ہو پاتا . اور ہمیں نا حق شرمندہ ہونا پڑتا ہے . حالانکہ ہم جھوٹ نہیں بول رہے تھے. لیکن جھوٹے کہلائے جاتے ہیں . اس لیئے تھوڑی سی احتیاط اور اپنے دانتوں کے نیچے تھوڑی دیر کے لیئے اپنی زبان دبا لی جائے تو سوچیں ہم کتنی مشکلوں سے بچ سکتے ہیں. زبان کا سوچ سمجھ کر استعمال ویسے بھی سمجھداری اور بردباری کی نشانی ہے . خوشی ہو یا پریشانی جو لوگ اپنی زبان ہی نہیں سنبھال سکتے وہ کسی کے ساتھ اپنے معاملات کو کیسے سنبھال سکتے ہیں۔
انسان کی حکمت اس کی زبان میں پوشیدہ ہوتی ہے . انسان کا جیسے ہی منہ کھلتا ہے اس کا خاندان بھی سب کے سامنے کھل جاتا ہے اور جیسے ہی اس کی زبان کھلتی ہے اس شخص کی قابلیت، علم،اوقات،کردار سب کچھ کھل کر سامنے آ جاتا ہے جیسے ایک انجن پر گاڑی کی حالت کا انحصار ہوتا ہے. اسی طرح گویا انسان کے پورے احوال ظاہری اور پوشیدہ کا بھید اور کنٹرول اس کی زبان میں ہے۔
ایک بار ایک شخص بہت قیمتی لباس اور تیاری کے ساتھ کر وفر سے سقراط کے سامنے آ بیٹھا اور کچھ دیر اسے اپنے رعب میں لانے کے لیئے ادائیں دکھاتا رہا تو سقراط نے اسے دیکھ کر تاریخی جملہ کہا کہ” جناب اب کچھ بولیئے تاکہ میں آپ کی قابلیت کا اندازہ لگا سکوں.”یہ بات اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ لباس اور طمطراق انسان کی اصلیت کے آئینہ دار کبھی نہیں ہو سکتے. بلکہ اس کی شناخت اس کی زبان اور اس کی گفتگو سے ہی ہوتی ہے . اور یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان جیسے ماحول میں اٹھتا بیٹھتا ہے وہ بھی اس کے آداب گفتگو پر اثراندازہوتے ہیں۔
Talk
اس لیئے جب گھر میں کسی کی گفتگو کا انداز بدلنے لگے تو اس کی صحبت پر ضرور نظر ڈالیں کہ وہ شخص کن لوگوں میں بیٹھنے لگا ہے، کیسے پروگرامز دیکھ رہا ہے ، کن مصروفیات میں وقت گزار رہا ہے اور کیسا مواد پڑھ رہا ہے کیونکہ یہ سب چیزیں مل کر ہی ایک انسان کی گفتگو اور کردار کی تعمیر کرتی ہیں . کاموں کے مکمل ہونے کا انتظار کیجیئے ۔ ویسے بھی پنجابی میں کہتے ہیں کہ” چن چڑھے کُل عالم ویکھے ” یعنی جب چاند نکلتا ہے تو ساری دنیا دیکھتی ہے ۔جو عزت اور اعتماد آپ کو کام کو مکمل کسی کے سامنے پیش کرنے میں محسوس ہو گا وہ ادھورے کام یا ہونے والے کام کے بارے میں بات کر کے کبھی محسوس نہیں ہوگا۔
لیکن اس کے برعکس کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم اپنی رائے یا رد عمل ظاہر کرنے میں اتنی دیر کر دیتے ہیں کہ تب تک اس بات اور عمل کی افادیت ہی ختم ہو چکی ہوتی ہے اور منیر نیازی جیسا صوفی بھی یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں ضروری بات کرنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو اسے آواز دینی ہو اسے واپس بلانا ہو ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
لہذا بات ضرور کیجیئے اور موقع پر کیجیئے – بے موقع بات کہنا بھی بے وقت کی نمازوں جیسا ہی ہے ۔ کہ وہ ادا تو ہو جاتی ہیں لیکن وقت پر پڑھی ہوئی نماز جیسا مقام کبھی حاصل نہیں کر پاتیں ۔ یا پھر بقول شیخ سعدی کے” انسان کو بولنا سیکھنے میں تو ایک سال لگتا ہے لیکن کون سا لفظ کہاں بولنا ہے یہ سیکھنے میں ساری عمر گزر جاتی ہے “. اور انسان کو یہ سیکھنے میں بھی زمانہ لگ جاتا کہ کہ کہاں کہاں خاموش رہنا ہے . کیونکہ خاموشی بھی کئی بھید کھل کر حالات کو آپ کے سامنے لانے کا موقع فراہم کرتی ہے.کئی جھگڑوں سے بچاتی ہے . خاص طور پر نئی جگہ پر،نئے لوگوں میں، نئے حالات میں سب سے بہتر مشورہ کسی کے لیئے بھی یہ ہی ہو سکتا ہے کہ بولیں کم اور سنیں زیادہ . کہ چند روز کی یہ خاموشی یا کم گوئی آپ کو آنے والے حالات کو سمجھنے کے بہترین ہنر عطا کریگی. آزمائش شرط ہے۔