تحریر: شاہد جنجوعہ، ہیلی فیکس قارئین! بول اور ایگزیکٹ کی کہانی سرے محل جیسی ہے۔ اگر تحقیقات کا نتیجہ 90 کی دہائی میں سیف الرحمن کے بلند و بانگ دعووں کی طرح سرے محل کی تحقیقات جیسا نکلا تو تارکین وطن مطالبہ کرتے ہیں کہ میاں صاحبان اور چودھری نثار کے ذاتی اثاثے بیچ کر اخراجات پورے کئے جائیں۔
یہ بات سچ ہے کہ وطن عزیز میں “ان” کیلئے اتنے محاذ کھلے ہوئے ہیں کہ عملََاہرطرف دھیان دینا کسی ایک ادارے کیلئے بہت مشکل ہے مگر اس سب کچھ کے باوجود جس طرح وہ چیلنجز سے نبٹ رہے ہیں اس پر وہ یقیناََ داد کے مستحق ہیں۔ مگر یہ بات ماننی ہوگی کہ بول کے معاملے میں ان سے غلطی ہوئی، انہوں نے چھپے دشمن کو آسان سمجھا اور دشمن نے ایک پلاننگ اور ایجنڈے کے تحت چند ایسے لوگ اس میں شامل کئے اور وہ آستین کے سانپ بن کر اپنا کام دکھا گئے۔ اور یہ غلط فہمی بھی جلد ہی دور ہوجائے گی کہ بول ختم ہوگیا، بول بولے گا اور اگر اس سارے کھیل تماشے کا انجام سرے محل جیسی تحقیقات جیسا ہوا تو میاں صاحبان یا چکری والی سرکار کو بھی بھگتنا پڑے گا۔ عوام میں یہ مطالبہ زور پکڑے گا کہ ریاستی اداروں کے اس کھیل تماشے پر اٹھنے والے اخراجات ان کے ذاتی اثاثے بیچ کر پورے کئے جائیں تاکہ احتساب کے نام پرآئندہ کوئی حکومت عوام کو الو نہ بنا سکے۔
ہمارے وزیرِداخلہ کا ایگزیکٹ کیخلاف تحقیات کیلئے دوسرے ممالک کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کی دعوت دینا یا انکی پیشکش قبول کرنے کو راقم الحروف ملک دشمنی کے مترادف سمجھتا ہے اور یہ بالکل ویسی ہی ایک غلطی ہوگی جیسے سابق صدر زرداری نے بینظیر قتل سازش میں کی، اپنے منہ پر لگے خون کے چھینٹے صاف کرنے کیلئے اقوام متحدہ کی ٹیم بلا کر اربوں روپے ضائع کئے اور الٹا پاکستان بدنام ہوا ، اب نواز حکومت برطانیہ سے لیکر امریکہ اور متحدہ عرب امارات تک جعلی ڈگریز کے نام پر اپنے ہی ملک کیخلاف بڑھا چڑھا کر پراپیگنڈا کر رہی ہے۔
Fake Degree
اس بیوقوفانہ پراپیگنڈے کاخمیازہ آئندہ ہماری کئی نسلیں بھگتیں گی ۔ بیرونی ممالک کے لوگ پاکستانی تعلیمی اداروں کی اصل اسناد پر بھی اعتبار نہیں کرینگے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس طریقے سے حکومت نے جعلی ڈگریوں کے نام پرایگزیکٹ کے معاملے میں اوور ری ایکٹ کیا اور پھرتی دکھائی ہے، ایسا اسمبلی میں بیٹھنے والے 20 کروڑ عوام کے وہ نمائندے جو جعلی ڈگری ہولڈر نکلے، انکے معاملے میں کیوں نہ ہوا۔ اسوقت حکومت نے کیوںآنکھیں بند کرلیں اور جعلی ڈگریاں دینے والے کسی ادارے کیخلاف کوئی ایکشن کیوں نہ لیا گیا؟
الٹا ملک لوٹ کرسرے محل بنانے والوں کے سروں پر تاج رکھ کر ملک کا حاکم بنا دیا گیا اور حسین حقانی جیسے غدار کو صدرہائوس میں پناہ دیکر اچانک امریکہ روانہ کردیا گیا ۔ اسپیشل ٹریبیونل کے سامنے حلف نامہ موجود تھا اس کے باوجود غدارِ وطن حسین حقانی ملک سے فرار ہوا اور حکومت نے اسکے بلیک وارنٹ کیوں جاری نہ کروائے؟ افسوسناک امر تو یہ ہے کہ پانی سر سے گزرچکا مگر ہمارے سیاستدان اب بھی ملکی اور ریاستی وقار کو جز وقتی پارٹی مفادات پر ترجیح دینے کو تیار نہیں۔
سوال یہ ہے کہ جعلی ڈگری ایشو ء کرنے کے الزام پر ہتھکڑی لگ جائے اور جعلی ڈگری ہولڈر اسمبلی میں ٹھاٹ سے بیٹھا ہو اور اس سے کوئی سوال تک نہ کرے ، یہ بات عوام کیسے ہضم کریں؟ جس امریکی اخبار کا حوالہ دیا گیا اس میں امریکہ کی بیسیوں آن لائن یونیورسٹیز کی مشکوک ڈگریوں کی خبریں شائع ہوئیں۔ اسی طرح جعلی ڈگری کی فروخت میں انڈیا دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ لندن سے لیکر دبئی تک بڑے بڑے اعلیٰ کلیدی عہدوں پر براجمان بھارتی شہریوں کی ڈگریاں جعلی نکلیں اور بیس بیس سال کی سروس کے بعد وہ پکڑے گئے۔
جن کا راقم الحروف اور دیگرمیڈیا ریکارڈ گواہ ہے مگر بھارتی حکومت نے انتہائی بیلنس ردعمل اور مناسب طریقے سے سب کچھ ہینڈل کرکے اپنے ملک کو بدنام ہونے سے بچا لیا ور ادھر ہماری حکومت کی پھرتیاں اور کاروائیاں دیکھیں، پوری دنیا میں اپنے ہی ملک کیخلاف مسلسل ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے اور اس کیس کو ایسے پیش کیا جارہا ہے جیسے پاکستان میں تمام مسائل کی جڑ اور تمام ایشوز کے حل کا ایک نسخہ کیمیاء ہاتھ لگ گیا ہو۔ تین چار ہفتوںمیں یہ سارا جوش جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گا اور عوام پر سب کچھ واضح ہوجائے گا مگر بظاہر یہ سب ایک ڈرامہ اور اصل ایشوز سے توجہ ہٹانے کا ایک بہانہ لگتا ہے۔۔!!