قوم سے بھِیڑ سے تماشائی

Qom Say Bhair Say Tamashai

Qom Say Bhair Say Tamashai

تحریر : شاہ بانو میر

سیاسی بساط کی بازی کبھی جیت ہے تو کبھی شہہ اور مات ہے
سابقہ کا لفظ لگتے ہی
کل کا طاقتور انسان احتساب کے نام پر اپنے رب کی نہیں بلکہ
سیاسی انتقام کی صورت نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے
اسی ملک کیلئے خدمات سب صفر
برائیاں ایسی دکھائی جائیں گی کہ وہ
انسان نہیں کچھ اور لگنے لگے گا
اس بار بھی یہی ہوا
پرانی حکومت زیر عتاب آ گئی
نئی حکومت کو لاتے ہی
دھیمے مدہم لہجے میں با زور لوگ میٹھی میٹھی دھمکیاں دے کر
عوام کو خاموش رہنے میں عافیت کا عندیہ دینے لگے
کسی دور میں بھی خاموش نہ ہونے والی یہ با شعور عوام کو جیسے
سانپ سونگھ گیا ہو
یہ قوم 71 سال پہلے ہندو بنیے کے سامنے یونہی گونگی اور بے زبان بنی
مظالم کے خلاف کمزور ہونے کی وجہ سے احتجاج کا ہُنر نہیں جانتی تھی
پھر
مسیحا آیا
اس بکھرے ہوئے ہجوم کو اس نے اسلام کی وساطت سے شناخت دی
اس بھِیڑ نے اس مسیحا کو قائد اعظم کا نام دیا
بھیِڑ منظم ہوئی ظلم کا احساس جاگا
تو زباں کھلی
یوں با شعور قوم کا پاکستان بنا
اس بے ہنگم ہجوم نے منظم ہو کر قوم بن کر اپنے دین ہر چلنے کیلئے
اپنی اسلامی روایات رسومات کو پورا کرنے کیلئے الگ ملک حاصل کیا
سیاسی قیادت ہمیشہ سے اسلامی طاقتور نظام کے حصول میں کمزور رہی
بین القوامی سامراجی طاقتیں اپنے کھیل کھیلتی رہیں
حکمران فائدے حاصل کرتے رہے
ملک کمزور ہوتا رہا
بد عنوانی کینسر کے مرض کی طرح ملک کو کھا رہی تھی
ایسے میں فلاحی کاموں میں کامیاب نام سیاسی افق پر نمودار ہوا
اندرون ملک بیرون ملک تبدیلی کے دعویدار جان گئے
کہ
یہ شخص سچا ہے صاف گو ہے
مگر
سیاسی اناڑی ہے
اقتدار دے دیا جائے اور ملک کو مستحکم کرنے کیلئے نظام اپنا لاگو کیا جائے
سب نے مل کر لائحہ عمل طے کیا
یوں نیا سیاسی کھیل شروع ہوا
اس دوران اس رہنما نے بین القوامی ادارے تک رسائی حاصل کی
ان کو ساتھ ملا کر پاکستان کو ترقی یافتہ بنانا مقصود تھا
مگر
اندھا دھند مغرب کی تقلید میں یہ بات بھول گئے کہ ان مغربی اداروں کے ساتھ
ان کی سخت شرائط کو بھی ماننا ہوگا
آج ہم دیکھتے ہیں
ملک میں کئی منصوبے خاموش شرائط کے ساتھ شروع کر دیے گئے ہیں
ان میں پس پردہ مغربی اعلیٰ تعلیم کے حامل ان کے ساتھی ہیں
جو اسلام کی الف ب نہیں جانتے
ایسے میں یہ کیا اسلامی نظام لاگو کریں گے
صرف
عوام کو بہلانے کیلئے ریاست مدینہ کا لالی پاپ دیا جا رہا ہے
گرتی ہوئی ساکھ نے کہیں چیف جسٹس صاحب کا سھارا لیا تو کہیں
ترجمان پاک فوج کو پردہ سکرین پر آکر ان کا ساتھ دینے کی تلقین کرنی پڑی
یہ سب کیا ہو رہا ہے؟
وہ اڑن کھٹولہ کہاں ہے جس نے دوسرے روز ہر پاکستانی کو نیا نظام دینا تھا؟
سب کو یقین دلایا گیا تھا کہ
صبح اٹھتے ہی کوئی کرشمہ ہوگا
اور
ان کا ملک ان کی بد حال زندگی نئی کروٹ لے کر خوشحال ہو چکی ہو گی
مگر
یہ کیا ؟
سب ویسے کا ویسا ہی ہے ابھی تک
جیسے پچھلے حکمران چھوڑ کر گئے تھے ؟
پھر
فضا میں گونج سنائی دی “”100 “”دن ہم وطنو
صبر کرو
جادوئی نظام رائج ہو جائے گا
100 دن تک ہم سمیت اہل فکر خاموش منتظر تھے
100 کے بعد خیالی پلاؤ اور خیالی بریانی کے ساتھ جلوہ افروز ہوئے
اور
مِڈ ٹرم الیکشن کا عندیہ سنا گئے
ساتھ ہی ساتھ حساس اداروں کو ملکی جماعتوں کے ساتھ نہیں
صرف اپنی جماعت کے ساتھ منسوب کر کے حضرت رخصت ہوئے
نیا پنڈورا باکس یہ اور ان کے منسٹر انفارمیشن ہر وقت کھولنے کیلئے مستعد رہتے ہیں
کل ملک کے دفاعی ادارے کی جانب سے ان کے محترم ترجمان میڈیا پر تشریف لائے
اور
ملائمت سے فرمانے لگے
کہ
میڈیا چوتھا ستون ہے اس ملک کا
اور
ہر ادارے سے زیادہ طاقتور اور با کمال ہے
صرف 6 ماہ میڈیا
اگر
پاکستان میں سب اچھا ہے دکھائے تو انشاءاللہ
اس ملک کی ترقی کہاں سے کہاں جا پہنچتی ہے
سبحان اللہ
پہلے عوام کی زبان کو 100 دن کیلئے یکسر خاموش کروایا گیا
اب مزید بندش طویل کر دی گئی
6 ماہ تک خاموش تماشائی بنے صرف سر دھنتے رہیں؟

اب جب سب کچھ سج کر پلیٹ میں پیش کیا گیا ہے
تب بھی کارکردگی صفر ؟؟؟
وہ معیشتدان جو ارسطو کہلاتا تھا
کہاں ہیں اس کی انقلابی معاشی اصلاحات
اب انہیں بھی مزید 6 ماہ چاہیے
صم بکم عم
ہم سب خاموش تماشائی
کہاں ہے اسلام؟
فلاحی ریاست مدینہ
ظلم کو تلوار سے روکو طاقت نہ ہو تو زبان سے روکو طاقت نہ ہو تو دل میں برا کہو
آج سے ہم صرف دل میں برا کہنے کا حق رکھتے ہیں

آپ کرسی وزارت پر تشریف فرما کیا کر رہے ہیں؟
کیا صرف تختیاں ہی مقصد تھا
اتنے بڑے”” سیاسی قتال”” کا جو آپ نے کئی سال سے جاری رکھا
میدان میں اترے تو ہر وزیر بغیر کسی حکمت عملی کے؟
بین القوامی اداروں کے اہداف پورے کر کے اس ملک کو کونسی بے دین ریاست بنانے جا رہے ہیں؟
سب کی شرائط مانتے جائیں
پیسے اکٹھے کرتے جائیں
اسلام کو دور بہت دور کرتے جائیں
جب بندش ٹوٹے گی تو
یہ قوم جو آپ نے”” بھیِڑ “” دی اور اب “” تماشائی “”
ایک غیر اسلامی ریاست میں غیر اسلامی نظام کی رونقیں
اور
کامیابیاں ترقی کی صورت دیکھے گی
ہم قوم سے بھِیڑ بنے اب خاموش تماشائی بنے
خواب ہوئے خیال ہوئے
بحث و مباحثے جو کسی قوم کی زندگی کا ثبوت ہوتے ہیں
مُبارک ہو اہل وطن یہ ترقی
قوم سے بھِیڑ اور پھر بھیڑ سے تماشائی

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر