تحریر : پروفیسر رشید احمد انگوی فرمایا سابق وزیراعظم نے کہ ووٹ کی اہمیت کو کب مانا جائے گا۔ مینڈیٹ کی عزت کب کی جائے گی۔عرض ہے کہ مینڈیٹ کی اہمیت اُن لوگوں نے خراب کی ہے جو ووٹ لیے بغیر وزارتوں پر آبیٹھے ۔ آپ کو یاد ہوگاایک گورنر ہوا کرتا تھا جس کا نام جیلانی تھا وہ پنجاب کے سیاہ وسفید کا بغیر ووٹ لیے مالک تھا اورپھر ایسا ہوا کہ لوہے ایک تاجر سے اُس کا یارانہ ہوگیا۔
نئے دوست نے اسے بہت نوازا۔ قیمتی بنگلہ اپنی نگرانی میں بنا کردیا۔ زیرومیٹر مرسیڈیز خدمت میںپیش کی اورکہتے ہیں ایسی ہی بہت کچھ خدمات سرانجام دیں اورجواب میں گورنر نے اس کے بیٹے کو نوازا اتنا نوازا کہ وہ اوراس کا بھائی ووٹوں کے ملک میں حکمران بن گئے۔ ان کے پلڑے میں ووٹوں کی بجائے نوٹوں سے گورنر جیلانی کا مینڈیٹ تھا اوربس۔جی جناب وہاں سے وطن پاک کی تاریخ میں ایک نیا دور شروع ہوا جس نے چھانگامانگااوربھوربن جیسے نظاروں کا درشن کیااورپھر انتخابی عمل کے جھرلو پر جھرلُو کا چکر چلتا رہا اوریہ جملہ زبان زد عام ہوگیا کہ جیلانی گیٹ سے سیاست خریدنے والے حکمران توانتخابی سائنس کے ڈارون وآئن سٹائن ثابت ہوئے تاوقتیکہ کرکٹ کا ہیرو اس انتخابی نظام سے ایسا ٹکرایا کہ دھرنا تاریخ کو جنم دے دیا۔
حکمران کہتے ہیں کہ ترقی دھرنے سے نہیںکچھ کرنے سے آتی ہے ۔ اب تو ان کو جان لینا چاہئے کہ دھرنا تو اتنا بڑا کام ہوتا ہے کہ اس کے مقابلے میں کچھ کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ خیر تقدیر کا لکھا تھا کہ پنامہ خزانوں کی طلسماتی کہانی سامنے آگئی اورپارلیمنٹ وکلاء ججوں وغیرہ کی مشترکہ طویل جدوجہد کے بعد عدلیہ کا تاریخ ساز فیصلہ سامنے آیا اورقوم نے جان لیا کہ تبدیلی آنہیں رہی بلکہ آچکی ہے ۔جب عدالت سے انصاف کی کرنیں پھوٹتی ہیں تو دل باغ باغ ہوجاتے ہیں ۔ قوم عظیم ججوں کی عظمتوں کو سلام کررہی ہے مگر جیلانی کی انگلی پکڑ کر خوددروازے سے سیاست میں گھسنے والے آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہیں ۔ غضب ہے کہ لاہور وپنڈی کے درمیان سڑک عملاًبند کردی گئی ہے ۔ یوں کہئے کہ جنرل جیلانی سے منسوب اہل سیاست کے لیے جی ٹی روڈ کو عملاً ایک صحن بنا دیا گیا ہے۔
کیا عوام نے ووٹ کا مینڈیٹ اس کام کے لیے دیا تھا۔ویسے ہم نے تو جمہوریت کو اکثریت کی حکمرانی سنا ہے مگر یہ کیسا سیاسی نظام ہے کہ ڈیڑھ کروڑ ووٹ لینے والا بیس کروڑ انسانوں وزیر اعظم بن جاتا ہے ۔ دیکھئے اگر بیس کروڑ میں دس کروڑ لوگ ووٹر ہیں توپھر اکثریت کا مطلب یہ ہے کہ پانچ کروڑ سے زیادہ ووٹ لینے والا اکثریت کا مینڈیٹ حاصل کرسکے۔ ہماری پارلیمنٹ ‘سٹیٹس کو’کے جس طبقے سے بھری پڑی ہے وہ کبھی بھی حقیقی اکثریت کا قانون نہیں بنائیں گے کہ رجسٹرڈووٹوں کا پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ لینے والا قانون ہرسطح پر لاگو ہو۔کوئی ایم این اے ایم پی اے کونسلر رجسٹرڈ ووٹوں کے پچاس فی صد سے کم ووٹ پر منتخب نہ ہو۔ سب پانچ کروڑ سے زائد ووٹ لینے والا مینڈیٹ کا حامل ہوگا۔ اسی طرح پانچ سال کے لیے منتخب ہونا بذاتِ خود قوم پرظلمِ عظیم ہے۔ منتخب لوگ کام کے لیے آخری سال رکھ لیتے ہیں اورباقی وقت بیرون ملک اپنی اولادوں و جائدادوں کی خدمت نگرانی اوربڑھوتری میں مگن رہتے ہیں۔ تین یا چار سال کے لیے انتخاب بہت کافی ہے ۔ چوہدری سرور برطانیہ میں رہ کر آئے ہیں ۔ ان کا بجا طور پر مشورہ ہے کہ فی خاندان صرف ایک سیٹ کی زیادہ سے زیادہ گنجائش ہونی چاہئے نہ کہ جاگیر دارااورسیاسی وڈیر ے اپنے پورے خاندان اسمبلیوں میں بھرتی کرڈالیں۔زرداروں شریفوں فضل الرحمانوں وغیرہ کے گھرانوں کے ممبران پارلیمنٹ گن لیجئے بات سمجھ آجائے گی۔آج جب نواز شریف پر ممبری کا دروازہ بند ہوا ہے تو لازمی بات ہے کہ تاریخ کا وہ دور ضرور سامنے لایا جائے جب موصوف کو فونڈری سرگرمی سے اٹھا کر پنجاب اسمبلی کی وزارت پر متمکن کردیا گیا اورآج تک اسی کا تسلسل ہم دیکھ رہے ہیں۔
پنجاب کی اندھا دھند اکثریت پورے ملک کے سیاسی نظام کو تباہ وبرباد کئے ہوئے ہیں۔عدالتِ عظمیٰ اورالیکشن کمیشن انتخابی انصاف اعتدال اورتوازن کو مدنظر رکھتے ہوئے یا تو پورے ملک کے ہر ڈویژن کو انتظامی بنیادوں پر صوبہ بنانے کی کارروائی کرے اوراولیں طور پر پنجاب کی عظیم الشان آبادی کے پیش نظر تین تا پانچ نئے صوبوں میں تقسیم کردیا جائے۔ ورنہ یہی کچھ ہوتا رہے گا کہ جنرل جیلانی کی خدمات کے بدلے میں ہمیشہ کے لیے ”جیلانی مینڈیٹ ”اپنے تاریک سائے پھیلائے رکھے گا۔
لوگ ضیا ء الھق کا نام استعمال کرتے ہیں حالانکہ فونڈری سے اٹھایا مال صوبائی کیبنٹ میں فٹ کرنے کا کارنامہ گورنر جیلانی کا تھا جس نے اپنے پاس ضیاء کو اپنی سفارش سنادی اوربس۔ ہم حیران ہیں کہ چار عشروں پر مبنی شریف خاندان کی سیاست کے آرکیٹیکٹ یا ”بابائے سیاستِ شریفاں”جنرل جیلانی کا کوئی ذکر ہی نہیں ہوتا۔یہ بہت ناشکری کی بات ہے۔ آج تبصرہ ان لفظوں میں ہونا چاہئے۔جنرل جیلانی کے مینڈیٹ یافتہ کو عدلیہ نے رخصت کردیا۔پاکستان اسلامیہ جمہوریہ ہے۔ اس میں ایک یا دوٹرم کے بعد افراد رخصت ہوتے جائیں نہ کہ چالیس سال بعد بھی جان چھوڑنے کو تیار نہ ہوں۔انصاف کا تقاضا ہے کہ زرداری اورشریف خاندان بہت کچھ کرچکے اب ملک کو معاف کریں۔ہم پوری قوم کی جانب سے ان کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہیں۔ نااہل قراردیئے گئے وزیر اعظم کو چاہئے کہ اب گھر جاکر رہیں اوربچوں کے مقدمات لڑیں اورعدالتِ عظمیٰ کو آنکھیں نہ دکھائیںورنہ ریاست کسی حادثے کا شکار ہوسکتی ہے۔