گزشتہ روز سینٹ کے چئیرمین کے لئے انتخاب کا عمل رچایا گیا جو دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا حکومتی امیدوار صادق سنجرانی کے سر پر کامیابی کا ہما بیٹھا اور وہ اقلیتی ووٹ رکھتے ہوئے اکثریتی حیثیت سے کامیاب ٹھہرے اس انتخابی عمل سے حکومتی پارٹی بھنگڑے ڈالے ،مٹھائیاں بانٹے یا کچھ کرے مجھے اس سے قطعی غرض نہیں یا اپوزیشن شور مچائے واویلا کرے مجھے اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا البتہ ایک انجانی سے خوشی اور قلبی سکون مجھے لازمی حاصل ہوا ہے وہ اس طرح کہ ایک بات کھل کر میرے سامنے آگئی کہ ہماری اسمبلیوں اور سینٹ میں کوئی بھی صادق اور امین سرے سے ہے ہی نہیں سارے کے سارے ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں جو کچھ سینٹ کے الیکشن کے موقع پر اسلام آباد سیٹ پر پی ڈی ایم نے کیا بالکل اسی طرح چئیرمین کے انتخاب پر اقتداری پارٹی نے کر دیکھایا تین مارچ والی منڈی لگی تو گھوڑے پی ڈی ایم نے خرید لئے اور 12 مارچ کو لگنے والی منڈی میں حکومتی پارٹی گھوڑے گدھے خریدنے میں کامیاب ٹھہری اس سے ثابت یہ ہوا کہ عوامی نمائندے اقتداری ایوانوں میں سرے سے ہیں ہی نہیں مفاد پرست اور برائے فروخت ان ایوانوں میں کثرت سے موجود ہیں ہر دوسرا بندہ یہاں بکنے کو تیار ملتا ہے بس دام ٹھیک لگنے چاہیئں اور ایسا ہی اس ملک کی تقدیر کے ساتھ یہ سیاسی گھوڑے گدھے کرتے چلے آئے ہیں ملک و قوم کی خدمت سے انہیں کوئی سروکار نہیں عوامی فلاح بھی ان کامشن نہیں بس پیسے تگڑے مل جائیں تو بکنے میں عار محسوس نہیں کرتے نہ کوئی ان لوگوں کا نظریہ ہے اور نہ ہی عوام اور ملک و ملت کی بقاء ان کے پیش نظر ہے۔
جب پی ڈی ایم جیتی تو انہوں نے یہ فرمان جاری کیا کہ ممبران کا ضمیر جاگ گیا تبھی انہوں نے ہمیں کامیاب کروایا بعینہ اس طرح اب حکومتی پارٹی فاتح ہوئی تو پھر ضمیر صاحب کو اقتداری پارٹی نے جگا دیا حالانکہ ان ضمیر فروشوں کی ضمیر کے ساتھ شناسائی تک نہیں ان کو تو صرف اور صرف ذاتی مفادات عزیز ہیں انہی مفادات کے پیش نظر یہ بکائو ایوانی گھوڑے حضرت ضمیر کو جاگنے ہی نہیں دیتے بلکہ اسے کہتے ہیں کہ آپ ہمارے ساتھ ضرور ہیں مگر کبھی بیدار ہونے کی کوشش نہیں کرنا بلکہ مزے سے استراحت فرماتے رہیں ہم آپ کو نہیں چھیڑتے اور آپ ہمیں نہ چھیڑیئے گا بس ۔ یہ جو ہمارے ہاں ہورہا ہے یہ کسی بھی صورت ریاست مدینہ کو زیب نہیں دیتا کیونکہ ریاست مدینہ کے بانی آقائے نامدار خاتم المرسلین ۖنے عددی تعداد بڑھا کر اقتدار کو طول نہیں دیا یہاں تک کہ تعداد میں کم ہوکر بھی کفار و مشرکین پر غلبہ پایا بلکہ ہمیشہ حق کو حق ثابت کیا اور منوایا نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام بھی مراعات لے کر اقدار میں شراکت حاصل کر سکتے تھے اور چین سے مدینہ ہی میں رہ سکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
حق کی راہ کو نہیں چھوڑا مدینہ چھوڑ دیا کربلا کو عازم سفر ہوگئے اور اپنا کنبہ راہ حق میں قربان کر دیا خرید و فروخت کی راہ نہیں اپنائی یہی وجہ ہے کہ تا قیامت تابندگی اور پائندگی پائی یہ تھے ریاست مدینہ کے بانیان کے اسلوب خرید وفروخت کر کے یزید ملعون نے اقتدار کو طوالت تو دے لی مگر ابدی زندگی کھو دی جتنے لوگ یزید کے ہاتھوں بکے ان کا آج نام و نشان ملتا میرا خیال ہے کہ اس بڑی تعداد میں خرید وفروخت کے بعد اب محترم خان اعظم ریاست مدینہ کا نعرہ لگانے کے مجاز نہیں رہے اسی طرح جمہوریت کی ڈگڈی بجانے والی پی ڈی ایم کو بھی قطعی حق نہیں پہنچتا کہ وہ کہیں کہ ہم عوام کی امنگوں کے ترجمان ہیں سب کے سب ہوس اقتدار سے لبریز ہیں کوئی بھی نہ صادق ہے اور نہ امین ۔چاہئے تو یہ تھا کہ جو ضمیر فروش بکے تھے وزیر اعظم انہیں نکال باہر کرتے کہ میرا ایک ہی نعرہ ہے کہ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ کر دم لوں گا مگر ایسا نہ کر سکے کیونکہ اقتدار ہے ہی ایسی بری بلا کہ جس کے ہاتھ میں اقتداری باگ ڈور ہووہ اسے ہاتھ سے چھوڑنا گناہ عظیم سمجھتا ہے کچھ یہی حال پی ڈی ایم والوں کا دیکھائی دے رہا ہے کہ وہ بھی اقتدار چھن جانے کی وجہ سے پریشان ہیں ان سب کے لئے عوام صرف اور صرف عیسیٰ کی بھیڑیں ہیں یہ اقتداری اور اختلافی ٹولے عوام کو تو انسان سمجھنا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں یہ سارے کے سارے جمہوری نہیں بلکہ اقتداری سوچ کے بل بوتے پر جی رہے ہیں۔
حکومتی پارٹی کو کوئی تو سمجھائے کہ کرپشن کا خاتمہ کرپشن کر کے ہرگز ممکن نہیں اور جو جمہور جمہور کا راگ الاپ کر ہلکان ہورہے ہیں ان کو بھی کوئی تو بتائے کہ جمہوریت کہتے کسے ہیں ارے بھائی جمہوریت ہوتی ہے عوام کی حکومت ،عوام کے لیئے حکومت اور عوام میں سے حکومت کیا ایسا آپ کو دیکھائی دے رہا ہے ان نام نہاد جمہوریت کے علمبرداروں میں سے تو پھر کون صادق اور کون امین اس وقت تو یہ دونوں نام حکومتی پارٹی میں ہی موجود ہیں ایک صادق سنجرانی اور دوسرا علی امین گنڈاپور یہی ہیں ان کی نظر میں دونوں صادق اور امین ۔صادق سچا اور امین امانتدار دونوں دھڑوں میں کوئی نہیں بلکہ سیاست میں اس کا آنا منع ہے جو صادق اور امین کی کسوٹی پر پورا اترے کیا فائدہ اس بندے کا ایوان اقتدار میں جو بوقت ضرورت بک سکے نا خرید سکے ؟میری تو ایوان اقتدار میںبیٹھے ہوئے ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ اب لمبی لمبی تقریریں کر کے اپنی اپنی جیت کو اصولی کہنے کی بجائے پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم والے ایک دوسرے کے تقلیدی کہیں آج سے یعنی جو وہ کرتے ہیں نا وہ کرپشن ہے اور جو آپ کرتے ہیں یہ بھی کرپشن نہیں یہی زیب دیتا ہے اب دونوں فریقوں کو کرپشن کے اندھیروں کو ملک پر مسلط کرنے والے اب روشنیوں کی بات بالکل نہ کریں کیونکہ دونوں ہی قوم کی قسمت کے ساتھ بہت بھیانک مذاق کر چکے ہیں حالیہ سینٹ الیکشن میں بقول محبوب صابر کہ
شہر گونگا ہے ،سماعت سے تہی لوگ یہاں ان اندھیروں میں اجالوں بھری تقریر نہ کر
میں سمجھتا ہوں کہ یہی بہتر ہے عصر حاضر میں مجھے تو کوئی ایسا لیڈر دیکھاء نہیں دے رہا جو قابل تائید و تقلید ہو ۔اگر پی ڈی ایم جیتے تو ہارس ٹریڈنگ اور اگر حکومت جیتے تو ؟؟؟؟؟اگر پی ڈی ایم جیتے تو الیکشن کمیشن ٹھیک نہیں اور اگر حکومت جیتے تو ؟؟؟؟تو پھر مان لیں کہ اس حمام میں سب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔