تحریر : عقیل احمد خان لودھی دنیا تیزی سے ترقی کی جانب گامزن ہے اور ہم اس دوڑ میں دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔۔ یہ وہ روایتی الفاظ ہیں جو کسی نا کسی تقریب یا محفل میں موجود دانشوروں کے مونہوں سے نکل کر ہماری سماعتوں سے ٹکراتے ہیں۔ ان دانشوروں کو ہر وقت یہی گلہ رہتا ہے کہ ہم پاکستانی ترقی کی دوڑ میں سب سے پیچھے رہ گئے ہیں اور جناب اگر آپ دنیا کی چکا چوند روشنیوں، نت نئی ایجادات، صنعت وحرفت، زراعت، صحت، تعلیم کے میدانوں میں آگے نکل جانے سے متاثر ہیں وغیرہ وغیرہ تو ترقی کی تعریف کا ذرا زیادہ باریک بینی سے جائزہ لینے کی بجائے اس کی تعریف میں تھوڑی سی گنجائش پیدا کریں تھوڑی سی نرمی لائیں تو دیکھیں اقوام عالم میں آپ کا شمار ترقی کے حوالے سے سرفہرست ہو گا۔۔
دنیا تو ویسے ہی پاکستانیوں کی ہر میدان میں ہونے والی مخصوص ترقی کی معترف ہے گو کہ ہماری ترقی کا سٹائل ان سے کچھ زیادہ ہی الگ ہے بحثیت عوام ہم اگر اپنی ترقی کا جائزہ لیں تو سوچیں کہ ہم نے کس کس میدان میں ترقی حاصل نہیں کی چھوٹی چھوٹی مثالیں اس ترقی کی عبرتناک مثالیں ہیں جو دنیا کو سمجھنا ہوں گی۔۔۔ اور ہماری تعریفیں کرنا ہوں گی۔۔۔
عمومی مشاہدہ میں آتا ہے کہ ہمارے بازاروں چکن فروشوں نے روزانہ کی بنیادپرجاری ہونے زندہ مرغی اور گوشت کی قیمتیں آویزاں کی ہوتی ہیں ہمارے گاہکوں کو مہنگائی کے ذہنی جھٹکوں سے بچانے کیلئے نہایت مہارت کے ساتھ کتبوں یا سلیٹوں پر قیمت درج کی جاتی ہے جس سے 260روپے قیمت کوایک روپیہ کم کرکے259 اس انداز میں لکھا جاتا ہے کہ آخری 9والا ہندسہ صفر محسوس ہونے سے گاہک250روپے کے چکر میں چکن فروش کی جانب لپکتا چلا آتا وہاں جب گوشت تیار کرکے دیا جاتا ہے تو 259روپے کی بجائے وہی 260روپے وصول کرلئے جاتے ہیں کہ ایک دو پانچ روپے کی ریزگاری واپس کرنا تو اب رواج ہی نہیں رہا اور اکثر گاہک بھی ایک دو پانچ کے سکے واپس لینا اپنی توہین سمجھتے ہیںاور اس فراخدلی پر مبنی ترقی کے عمومی اثرات غریب افراد پر پڑتے ہیں کہ جنہیں ایک ایک روپے کا حساب رکھنا پڑتا ہے۔
Foreign Loans
ابھی تو حکومت کی جانب سے ہونے والی ترقی کے بیش بہا نمونے ہیں جن پر ہمارے عوام ناشکری کے راگ الاپتے رہتے ہیں۔اللہ کے بندو اس ترقی پر اپنے حکمرانوں کے گن گایا کرو شکرادا کیا کرو کہ شکر اداکرنے سے زیادہ رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔آپ کے منتخب کردہ حکمران جب ملکی ترقی کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہوتا کہ ملکی قرضوں میں ترقی ہوگئی ہے، بدامنی لاقانونیت نے ترقی کرلی ہے۔ حکمرانوں نے ماورائے قوانین اقدامات میں ترقی کر لی ہے یا انہوں نے جھوٹ بولنے میں ترقی کرلی ہے ترقی کا مطلب ترقی ہوتا ہے اور ہم عوام پر یہ فرض عین ہے کہ ہم اس ترقی پر ہر وقت حکمرانوں کے گن گاتے رہیں ورنہ یہ ناشکری اور ہر وقت کوسنے دینے سے ہم اپنے ان پیارے معزز حکمرانوں کا بگاڑ بھی کیا سکتے ہیں۔ ہم ڈگریوں کے بغیر ڈاکٹر بن جاتے ہیں۔
ہمارے سیاستدان ڈگریوں کے بغیر گریجوایٹ بن جاتے ہیں۔ڈٹرجنٹ پائوڈر، فارملین اورسنگھاڑہ پائوڈر کے علاوہ یوریا کھاد سے ہم دودھ تیار کرلیتے ہیں،بھوسی کے ٹکڑوں سے آٹا بنا لیتے ہیںسرخ، مرچ میں لال اینٹ،مردہ جانوروں کی چربی،انتڑیوں اور دیگر باقیات سے ، موبل آئل سے گھی مکھن بنالیتے ہیں،فارمی انڈوں کو رنگوں میں ڈبو کر دیسی انڈے تیار کرلیتے ہیں، فارمی مرغیوں کے پنجوں سے تیار سوپ اور یخنی کو ہم دیسی مرغ کے ساتھ منسوب کرلیتے ہیں،اراروٹ اور مختلف رنگ ملا کر ٹماٹو کیچپ بنا نے میں ہمارے جتنا ماہر کوئی نہیں، گائے بکری کے نام پر گدھے کا گوشت کھالیتے ہیں۔
چینی کے بغیر میٹھے مشروبات تیار کرلیتے ہیںوہ بھی خالص اور گارنٹی کیساتھ سکرین سے پاک۔نلکے کے پانی میں رنگ ملا کر ہم انسانی ، حیوانی اور زرعی ادویات تیار کرلیتے ہیں،پتھر ڈال کر دالوں کی مقدار بڑھا لیتے ہیں۔بیس بیس جگہوں پرایک ہی پلاٹ کو ایک ہی وقت میں فروخت کردیتے ہیں، سرکاری اور مساجد کی زمینوں پر ہم راتوں رات پلازے بنالیتے ہیں۔ان افراد کو ہم لیڈر مانتے ہیں جو سرعام ڈکیتوں چوروں کے گُرو ہوتے ہیں۔جرائم پیشہ افراد کی دنیا میں کہیں عزت نہیں ہوتی مگر ہمارے ہاں انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے انہیں کہہ کہلوا کر الیکشنوں میں آگے لایا جاتا اور اختیارات کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں دے دی جاتی ہے۔ہمارے لیڈروں کے بینک بیلنس جائیدادیں کاروبار ترقی کرتے ہیں تو ہم بھی ملکی قرضوں میں اضافہ کی صورت میں ایک طرح سے ترقی کی ہی ڈگرپر چل رہے ہوتے ہیں۔
ہمارے سیاستدان جنہیں کل تک چور ڈاکو لٹیرے کہہ کر پکارتے ہیں تنہائی کی بیٹھکوں میں اپنی ہی عوام اپنے ہی حامیوں کا تمسخر اڑاتے ہیں مگر ہم جانتے ہوئے بھی ان کی اولادوں کے بھی تابعدار بنے ہوتے ہیں یہ ہماری ذہنی ترقی کی وہ عمدہ ترین مثالیں ہیں جو ڈھونڈنے سے نہیں ملتیں۔ہمارے تعلیمی اداروں میں میٹرک پاس سٹاف بی اے ایم اے کی کلاسز کے انچارج بنے ہوتے ہیں۔دنیامیں جن مصنوعات،مشینوں، مشینی پرزہ جات کی تیاری کیلئے سالہاسال وقت ضائع (محنت)کیا جاتا ہے وہ ہم چند گھنٹوں میں تیار کرلیتے ہیں بے شک تھرڈ کلاس میٹریل استعمال کریں۔باسی اور گلے سڑے پھلوں سے تازہ شیک تیار کرلیتے ہیں۔ بلیوں کتوں کو پلائے جانے والے درآمد شدہ کیمیکلز ہم یہاں خوشگوار ،ذائقہ دار مینگو جوس میں بدل لیتے ہیں۔
Fake Medicines
جعلی اور ایکسپائر ادویات پر نئے خوشنما لیبل لگا کر ہم خود ہی انہیں کارآمد بنا لیتے ہیں جنہیں پی کر پھرمرتے بھی اتنی تعداد میں ہیں کہ کوئی ملک ہماری اس تیزرفتاری کو چھو بھی نہیں سکتا۔رہی سہی ترقی کی کسر ہمارے تعلیمی اداروں کی طرف سے امتحانی پرچوں میں پوچھے جانے والے سوالات نے نکال دی ہے اب آپ خود دیکھیں وہ جسے ہم روح کو پراگندہ کرنے والی مغربی تہذیب کہتے ہیں سے ہم کوسوں آگے نکل چکے ہیں انہوں نے بھی شاید کبھی اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی جسمانی ہئیت اور دیگر خصوصیات بارے سوالات نہ پوچھے ہوں مگر ہماری یونیورسٹیوں میں کیا ہو رہا ہے اور کیا پوچھا جارہا ہے مغربی نام نہاد ترقی کے حامل ممالک کیا جانیں۔
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے انگریزی پرچہ میں پوچھے جانے والے سوال پر ورطہ حیرت ، اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہوجانے والوں کو یہ سن کر اپنی بے چینی کو چین میں بدلنا ہوگا کہ یہاں بھی ذمہ داروں کے تعین کیلئے تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے اور ایسی کمیٹیوں کے تشکیل اور معاملہ کو دبانے میں بھی ہمارا کوئی ثانی نہیں پایا جاتا تحقیقاتی کمیٹی کی طرف سے کسی کو بھی کچھ کہنے کی ضرورت نہیں اوربحثیت قوم ہمیں ہرگز ہرگز خود کو بدلنے کی ضرورت نہیں۔ یہ ہماری ترقی کی عمدہ مثالیں ہیں ملک اسی رفتار سے ترقی کرتا رہے گا فکر نہ کیجئے دنیا کی کوئی طاقت ہماری اس ترقی کی ہوا کو بھی نہیں چھو سکے گی جب تک ہم اپنا آپ نہیں بدلیں گے ہمیں ترقی کے علمبردار ہمارے ہر دلعزیز حکمرانوں کی حکمرانی کیساتھ اداروں سے بہترین تیز رفتار انصاف کی دولت نصیب ہوتی رہے گی اور ایسی ترقی پر دنیا اگر ہماری تعریف سے بخل سے کام لیتی ہے تو یہ دنیا کی بہت بڑی منافقت ہے۔