تحریر: وقارانساء جب انسان کے دل میں حب دنیا گھر کر لیتی ہے تو وہ دنیا میں اپنے آنے کا مقصد بھول جاتا ہے -اور اس بات سے بے خبر ہو جاتا ہے کہ کس نے اس کو یہ نعمتیں مال دولت اولاد اور ہر طرح کا دنیاوی سکون یا آسائشیں عطا کیں –وہ اس قادر مطلق کی ذات کو بھول ہی جاتا ہے جس نے اس کے ذمے کچھ فرائض بھی رکھے – حق بندگی ادا کرنا اس ذات وحدہ لا شریک کی بڑائی اور انسان کی عاجزی کا اظہار ہے کہ اس ذات وحدہ بر حق کے سامنے عاجزی سے جھکا رہے اور ان نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتا رہے اور ایک مسلمان کی حیثیت سے جو فرائض اور ذمہ داریاں ھم پر ہيں ان کی بجا آوری میں کوتاہی نہ کریں- ان میں سے ہی ايک انفاق فی سبيل اللہ ہے
انفاق انسان کے تمام عقائد واعمال کے لئے غذا اور پانی کی طرح ہے اس سے نیکیاں جڑ پکڑتی ہیں عقائد مستحکم اور پائیدار ہوتے ہیں اسی چيز کو قرآن میں حکمت سے تعبیر کیا گیا ہے اس حکمت کے خزانے کی چابی ہی انفاق ہے- انفاق فی سبیل اللہ کا مطلب اللہ کے راستے میں خرچ کرنا ہے – صاحب حیثیت لوگوں کے مال میں ناداروں کا بھی اللہ نے حق رکھا – گویا اس مال کو دے کر ان لوگوں کے لئے امتحان بنا دیا کہ وہ اللہ کا بخشا ہوا مال راہ اللہ دیتے ہوئے کیا رویہ اختیار کرتے ہیں مستقبل کے اندیشوں کے پیش نظر اس مال کو جمع کیا جاتا ہے – جب کہ مستقبل کی خبر انسان کو نہیں- لالچ اور حرص وہوس کا شکار انسان دولت کو جمع کرنے کی فکر میں لگا رہتا ہے اصل مستقبل تو آخرت ہے اس کو بھول جاتا ہے-ہونا تو یہ چاہیے کہ اس مال کو وہاں کام آنے کے لئے استعمال کيا جائے جو زندگی اخروی اور نہ ختم ہونے والی ہے
Helping Needy
اللہ نے اگر مال دیا تو زائد از ضرورت مال کو ضرورتمندوں کی ضروریات اور دین کی بہتری میں استعمال کیا جائے- اس کا بہترین مصرف دین کے علم میں لگانا ہے اورعلم سے مخلوق خدا کو فائدہ پہنچایا جائے – علم ایسا صدقہ جاریہ ہے جس کے اجر وثواب کا اندازہ لگانا ناممکن ہے اس علم سے مستفید ہونے والے اور کتنے لوگ اس علم نافع کے حصول کے بعد کتنے لوگوں تک پھیلانے کا باعث ہوں گے قرآن مجید سورۃ البقرہ میں ارشاد باری تعالی ہے جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے ايک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں اس طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے بڑھاتا ہے اور وہ بڑی کشائش والا اور سب جاننے والا ہے
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے ہر ایک کے ساتھ اس کا رب اس طرح کلام فرمائے گا کہ اس کے اور اس کے رب کے درمیان کوئی ترجمان نہ ہوگا پھر وہ اپنے دائیں بائیں دیکھے گا تو اسے صرف اپنے وہ اعمال ہیں ظر آئیں گے جو اس نے پہلے سے آگے بھیج رکھے ہوں گے اور جب وہ اپنے آگے دیکھے گا تو اسے اپنے چہرے کے سامنے صرف دوزخ ہی نظر آئے گی – پس (اے لوگو) دوزخ سے بچو چاہے کھجور کے ايک ٹکڑے کے عوض ہی کیوں نہ ہو (بخاری) مسلم شریف کی حدیث ہے آدمی کہتا ہے میرا مال میرا مال حالانکہ تيرے مال ميں تيرا حصہ اس کے سوا کیا ہے جو تو نے کھا کرختم کر دیا یا پہن کر پرانا کر دیا یا صدقہ کر کے آگے بھیج ديا اس کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ تیرے ہاتھ سے جانے والا ہے اور اسے دوسروں کے لئے چھوڑ جائے گا-
ایک اور حدیث مبارکہ ہے کہ جو مسلمان کسی مسلمان کو ننگے پن کی حالت میں کپڑا پہنائے گا اور جو مسلمان کسی مسلمان کو بھوک کی حالت میں کھانا کھلائے گا اللہ اس کو جنت کے پھل کھلائے گا اور جو کسی مسلمان کو پیاس میں پانی پلائے گا اللہ تعالی اس کو ایسی شراب جنت پلائے جس پر مہر لگی ہو گی (ترمذی) اللہ کی راہ میں اچھی چيز دی جائے عموما لوگ گھر کی بچی کچھی ايسی چیز نکالتے ہیں جو ان کے استعمال کے قابل نہیں رہتی تو وہ اسے دوسروں کو دے دیتے ہیں یہ ناپسنددیدہ عمل ہے -کیونکہ یہ مال تو اللہ نے عطا کیا ہے- یہ اللہ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ جو مال اس نے خود عطا کیا اس کو خرچ کرنے کو کہتا ہے تو اس کو اپنے ذمہ قرض ٹھہراتا ہے جس کو بعد میں کئی گنا ذیادہ کر کے بندے کو لوٹاتا ہے
Allah
اس لئے تو کہا گیا کہ جب رزق کی تنگی محسوس ہو تو اللہ سے سودا کر لیا کرو – حضرت موسی نے ايک دفعہ اللہ تعالی سے پوچھا کہ اللہ آپ کیا کھاتے اور کیا پیتے ہیں اللہ نے فرمایا موسی کیا کرو کے پوچھ کر حضرت موسی نے اصرار کیا تو فرمایا فلاں جگہ جاؤ اور دیکھ لو حضرت موسی نے وہاں جاکر دیکھا تو گلا سڑا کھا نا تھا – فرمایا میں یہ کھا تا ہوں جو میرے نام پر دیا جاتا ہے اسی طرح پہننے کے بارے میں سوال کیا تو وہاں حضرت موسی نے دیکھا کہ چیتھڑے لٹک رہے ہیں صحابہ کے دور سے ھمیں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ انہوں نے اپنے مال سے اپنی پسندیدہ اور بہترین چیز اللہ کی راہ میں دی
کھجور کے باغات کے لحاظ سے ابو طلحہ انصار مدینہ میں سب سے زیادہ دولتمند تھے – انہوں نے اپنے باغوں میں سے محبوب باغ بیرحاء اللہ کی راہ میں صدقہ کر ديا اچھی نیت کے لئے دئیے جانے والا صدقہ اجر کے لحاظ سے بہت بڑا ہے -اور اس کا صدقہ کرنا انسان کی استطاعت کے مطابق ہے اس کے لئے شرط کوئی بڑی چیز نہیں- اپنی ضروریات پر تو اللہ کا دیا ہوا مال فراخدلی سے لگایا جاتا ہے –اور اللہ کی راہ کے لئے دل کی تنگی کے ساتھ ديا جاتا ہے- يا کوئی فالتو چیز ہی نکالی جاتی ہے اس طرح کا انفاق نہ صرف یہ کہ خیروبرکت نہیں پیدا کرتا بلکہ وہ اللہ کے ہاں شرف قبولیت ہی نہیں پاتا اللہ کی راہ میں فراخدلی سے دیا جائے -اور اس میں ریاکاری اور نمودونمائش نہ ہو یہ عمل خالصتا اللہ کی رضا کے لئے کيا چاہئے
Right Relatives
جہاں ہر خاندان میں صاحب ثروت لوگ ہوتے ہیں وہاں نادار اور مفلوک الحال لوگ بھی اسی خاندان سے ضرور ہوتے ہیں –اسلام میں غریب رشتہ داروں کا حق زیادہ ہے اور اس کے کرنے میں دوہرا ثواب بھی ہے – اور اس طرح ان کی مالی معاونت کرنے میں خاندان کی رنجشوں اور اختلافات کو نظر انداز کرنا چاہیے-اور ذاتی پسند ناپسند اور ان کے سلوک کو سامنے رکھ کر ان کی ضروریات کو پورا کرنے سے منہ نہیں موڑنا چاہیے کيونکہ رشتہ دار کا حق باہر کے مسکین سے زیادہ ہے – ان کی امداد اس طرح کی جائے کہ وہ اپنے لئے روزگار کا ذریعہ بنا لیں – جب کسی گھر میں ھماری کوشش سے چولھا گرم ہوگا تو ھمارا یہ عمل صدقہ جاریہ بن جائے گا