تحریر : کومل سعید اسلام کے پانچ رکن ہیں ۔تو حید ،نماز ،روزہ ،زکوة اورحج ۔ان پا نچوں ارکان کی بجا آوری کے بغیر کو ئی بھی فرد مو من نہیں کہلا سکتا ۔جس طرح ایک عما رت کی بنیاد اس کے مضبو ط ستونوں پہ ہو تی ہے اسی طرح اسلا م کی عمارت کے یہ ستون اسلا م کی جا معیت کے غماض ہیں ۔ہر رکن کی اہمیت قرآن پا ک میں بہت واضح طور پر بیان کی گئی ہے اور ان تمام کی بجا آوری فرض ہو جا تی ہے ۔ذوالقعد کا مہینہ شروع ہو تے ہی عازمین حجاج کرام کے قا فلے مقدس سفر کی جا نب رواں دواں ہو نے لگتے ہیں َدل ہو لے ہو لے کہنے لگتا ہے۔ جس نے مد ینے جا نا کر لو تیا ریاں مختصر سا ما ن ،پا ک صاف سفید لبا س ،سادگی کی چادر اوڑھے جب حجاج کے قا فلے حجاز مقد س کی طر ف جا نے لگتے ہیں تو ہر مسلمان کا دل فرط جذبات سے امڈ امڈ جا تا ہے ۔ہر ایک کی یہ خواہش ہو تی ہے کہ وہ بھی اس مقد س سفر کا راہی بنے لیکن یہ سفر تو نصیب والوں کو ہی ملتا ہے اور جس کو اللہ پا ک اپنے گھر کی زیا رت کے لئے منتخب کر لے وہ وہاں پہنچ جا تا ہے قرآن پا ک میں ارشاد ہے کہ “اور تم پر بیت اللہ کا حج فرض ہے جو کو ئی اس کی استطاعت رکھے ” اس سفر مبا ر ک پہ جا نے سے پہلے سب کو اپنی اپنی اصلا ح کر لینی چا ہیے کیو نکہ اگر دل میں کسی قسم کی عداوت ہو تو وہ مزا نہیں رہتا عبا دت کے اندر۔
اللہ پا ک نے اپنے بندوں پہ حج فرض کیا مگر سا تھ ہی یہ بیان فر ما یا کہ اگر تم اس کی استطا عت رکھتے ہو تو ۔استطاعت سے مراد اتنے وسائل کا ہو نا کہ وہ یہ مقدس فر یضہ سر انجام دے سکے۔ ارشاد ہے “جو کو ئی حج کرے تو گو یا وہ گنا ہوں سے ایسے پاک ہو جا تا ہے جسے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔” اللہ پا ک نیتوں کو خوب جا ننے والا ہے ۔ارشاد ہے ” کہ اعمال کا دارو مدار نیتوں پہ ہے ” اگر ہم روپے پیسے کی نما ئش کے لئے اور نمود و نما ئش کو ملخوظ خا طر رکھتے ہو ئے حج کا ارادہ کر تے ہیں تو وہ بے کا ر ہو گا ۔کیو نکہ اللہ پا ک کو ریا کا ری پسند نہیں ہے ۔اللہ تو اس کو قبول کر ے گا جس میں اس کا بندہ اس کی رضا کے لئے کو شش کر ے گا ۔اور دینوی خواہشات کو چھوڑ کر آخر ت کی فکر کر ے گا ۔قا رئین !انسان کسی بھی جگہ پہ جا ئے تو اسے گھر کی یا د ستانے لگتی ہے ۔وہ اپنے بچوں کو چھوڑ کر جا نے کیلئے تیا ر نہیں ہو تا۔
اگر کسی بھی مقا م پہ دو تین دن قیام کا ارادہ ہو تو وہ بچوں کو سا تھ لے جا تا ہے انہیں اپنے سے دور نہیں کر تا ۔مگر جب انسان سا ت سمندر پا ر اس مقد س جگہ کا ارادہ کر تا ہے تو سب کچھ چھوڑ کر صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لئے روانہ ہو جا تا ہے ۔اس جگہ کی تا ثیر ایسی کہ نہ تو گھر کی یا د ستا تی ہے اور نہ ہی بچے یا د آتے ہیں بس ہر لمحہ ایک ہی دھن ہو تی ہے کہ اللہ کی رضا حاصل ہو جا ئے ۔اس کی خو شنودی کے لئے وہ ہر پل ذکر میں ڈوبا رہتا ہے ۔وہاں دنیا کے تمام جھمیلے بھول کر مومن ہر قدم پہ نیکیوں پہ سبقت لے جا نے کی کو شش کر تا ہے ۔ جی کر تا ہے کہ ساری زندگی بیت اللہ کے طواف کر تے اور روضہ رسول ۖ کی زیا رت کر تے گزر جا ئے ۔یوں محسوس ہو تا ہے کہ سا ری زند گی میں بس وہ ہی لمحات وہی چا لیس دن سر ما یہ حیا ت ہیں ۔اور اصل زند گی تو وہی چا لیس دن تھے ۔جو ایک خواب کی طرح گزر گیا ۔اور جب سفر مدینہ شروع ہو تا ہے تو پھر بے ساختہ یہ کیفیت ہو جا تی ہے۔ مد ینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ جبیں افسردہ افسردہ ،بدن لرزیدہ لرزیدہ
Masjid e Nabvi
گویاسارے سفر میں آپ ۖ کا ہجر ت مد ینہ کا سفر آنکھوں میں سما جا تا ہے اور نگا ہیں بے تا ب ہو جا تیں ہیں ،دل مضطرب ہو کر سینے میں ایک طو فا ن برپا کر دیتا ہے کہ جلد ہی سفر ختم ہو اور روضہ اطہر کی زیا رت نصیب ہو سکے ۔تمام راستے میں درود پا ک کا ایمان افروز ورد لبوں سے جدا نہیں ہو تا۔ اللہ پا ک کے خصوصی فضل سے راقمہ کو عمرہ کی سعادت نصیب ہو ئی ۔کیا نور دیکھا ان گناہ گا ر آنکھوں نے ۔وہاں بیٹھنا ثواب ،دیکھنا ثواب ،وہ نوری نظارے ،وہ بیت اللہ شریف کی پر نور کشش جو نگا ہوں کو کہیں بھٹکنے نہیں دیتی تھی۔طواف کر تے ہی رہو چا ہے دن سے رات ہو جا ئے مگر پا ئوں تھے کہ تھکے ہی نہیں ،نگا ہیں تھیں جو ابھی تک پیا سی ہیں اور بیت اللہ کی دید سے سیراب ہو کے نہیں دیتیں تھیں ۔ میر ے لب کپکپا رہے ہیں اور ہا تھوں میں سکت ختم ہو رہی ہے ۔میں اس مبارک سفر کی روداد بیان کر نے سے قاصر ہوں ۔میر ے اندر اتنی طاقت نہیں ،کہ ان نورانی نظاروں کو اپنے لفظوں میں سمو سکوں ۔آنکھوں میں نور کی روشنی ہی روشنی ہے جو میں تادم تحریر محسوس کر رہی ہوں ۔روضہ اطہر کا نظارہ کس قدر نورانی ہے یہ صرف اور صرف دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ گنبد خضرہ میں جو آئے ،ما یو س کہاں کو ئی جا تا ہے پھر میں کیسے سمجھوں یہ کہ دامن میرا خالی ہے۔
خود تو واپس آگئی مگر دل و دماغ مدینہ کی فضائوں میں روضہ اطہر کے پاس چھوڑ آئی ابھی تک دل یہ با ت تسلیم نہیں کر رہا کہ واپس پھر انہی جھملیوں میں لوٹ آئی ہوں ۔سو چتی ہوں کہ عمرہ کر نے والے زائر ین کی یہ کیفیت ہے تو حجاج کرام کی کیفیت کیا ہو گی ؟؟؟وہ کس قدر خوش نصیب ہیں کہ جن کی زیست کے لمحے بیت اللہ کی زیارت میں گزر رہے ہیں ۔وقوف عرفات ،منی کی راتیں ،طواف ودع کی لطا فت اور آنسوئوں میں بھیگی ہو ئی دعائوں کی التجا ئیں ،خطبہ حج کا ایمان افروزسحر ۔۔۔۔یا اللہ ہم سب کو نصیب فر ما ۔اور جن کو اپنے در پہ بلا یا ہے ان کی اس حاضری کو قبول فرما ۔یا اللہ ہم کو حج کی سعادت بار بار نصیب فرما۔
اس مقدس سفر حج سے واپس آکر بھی اگر کو ئی اپنی اصلاح ضروری ہے اگر وہ اصلاح نہ کر ے اور پھر سے وہی روٹین شروع کر دے ،عبادت سے غافل ہو جا ئے ،اللہ کے حقوق پورے نہ کر ے ،بندوں کے حقوق سے انکاری ہو جا ئے تو پھر کبھی بھی اس مسلمان کی اصلاح ممکن نہیں ۔اور اللہ کی ذات اس سے تو جہ ہٹا لیتی ہے اسلئے کو شش کریں کہ ریاکاری سے پا ک اخلاص کے سا تھ عبادت کریں اور جہاں تک ہو سکے ۔برائی سے دور رہیں اور فکر آخرت کو اپنے سے جدا نہ کریں ۔اسی میں اللہ کی رضا اور پیا رے نبی پا ک ۖ کی رضا ہے۔