پاکستان کو معروض وجود میں آئے تقریباً سرسٹھ سال کا عرصہ بیت گیا ہے اس عرصہ میں بھارت سے ہجرت کرنے والی کمال درجہ شخصیات وقت کے بیت جانے کے ساتھ ساتھ خالق حقیقی سے جا ملتے رہیں ہیں انہی کمال درجہ اور روحانی مقام پر فائز، عالم و ادب کے سمندر، صاف و شفاف سیاست کے رہبر پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں الگ تھلگ چمکتے دمگتے ستارے کی طرح بہت خوبصورت آواز کے مالک قاری و حافظ علامہ مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی کی شخصیت تھی۔ چودہ شعبان کو آپ کا عرس احاطہ مزار حضرت سید عبد اللہ شاہ غازی پر انتہائی جوش و عقیدت کے ساتھ منایا جاتا ہے۔
عرس کے موقع پر ہمیشہ اے آر وائی کیو ٹی وی اور اے آر وائی نیوز اپنی نشریات میں خاص مقام دیتا رہا ہے، اس کے علاوہ دیگر چینلز بھی عرس کی تقریبات کی کوریج کرتے ہیں جبکہ اخبارات عرس کے موقع پر خاص ایڈیشن شائع کرتا ہے۔ سولہ شوال سن چودہ سو چونتیس ہجری یعنی چوبیس اگست سن دو ہزار تیرہ کو دس واں عرس مبارک نہایت عقیدت و احترام سے منایا جائیگا۔ جس کی کوریج اے آر وائی کیو ٹی وی اور نیوز بلخصوص اپنی نشریات میں شامل کریگا اس کے علاوہ دیگر چینلز بھی پیش کریں گے یہاں اے آر وائی کا ذکر اس لیئے کیا گیا ہے کہ اس چینل کے مالکان کا ذاتی لگاؤ اور عقدت خاص ہے۔
اور کیوں نہ ہو کیونکہ مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی پاکستان کے اسلامی دینی اور سیاسی میدان میں ایک قد آور شخصیت تھے وہ سن انیس سو چھبیس عیسوی کو میرٹھ میں مولانا عبدالعلیم صدیقی کے گھر پیدا ہوئے، جن کا شجرہ نسب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے اور شجرہ طریقت امام احمد رضا خان قادری سے جا ملتا ہے، انہوں نے آٹھ سال کی عمر میں مکمل قرآن مجید حفظ کیا تھااور نیشنل عربک کالج سے گریجویشن کرنے کے بعد الہ آباد یونیورسٹی سے فاضل عربی اور دارالعلوم عربیہ سے درس نظامی کی سند حاصل کی تھی۔ قیام پاکستان کے وقت آپ متحدہ برطانوی ہند میں ایک طالب علم اور تحریک پاکستان کے ایک سرگرم کارکن رہے۔
قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد پاکستان چلے آئے۔ سن انیس سو اڑتالیس عیسوی میں علامہ احمد سعید کاظمی نے جمعیت علماء پاکستان کے نام سے ایک جماعت بنائی اورسن انیس سو ستر عیسوی میں مولانا نورانی نے جب پہلی بار الیکشن میں حصہ لیا تو جمعیت میں شامل ہوئے اس وقت جمعیت کے سربراہ خواجہ قمرالدین سیالوی صدر تھے۔ سن انیس سو ستر عیسوی میں جمعیت علمائے پاکستان کے ٹکٹ پر کراچی سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور ذوالفقار علی بھٹو کے مد مقابل انہوں نے وزیر اعظم کے عہدے کے انتخاب میں حصہ لیا، سن انیس سوباہتر عیسوی میں مولانا نورانی جمعیت علماء پاکستان کے سربراہ بنے اور قیادت سنبھالی اور تادم مرگ وہ سربراہ رہے۔
Maulana Shah Ahmad Noorani
آپ دو مرتبہ رکن اسمبلی اور دو مرتبہ سینٹر منتخب ہوئے ، سن انیس سوستتر عیسوی میں تحریک نظام مصطفیٰ کے پلیٹ فارم پر فعال ہونے کی وجہ سے قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کیں، مولانا نے دنیا بھر میں اسلام کا آفاقی پیغام عام کرنے کیلئے سن انیس سوباہتر عیسوی میں ورلڈ اسلامک مشن کی بنیاد رکھی اور مختلف ممالک میں اس کے دفاتر بنا کر اسے فعال کیا، نرم مزاجی اور حلم کی وجہ سے وہ دوستوں اور دشمنوں میں یکساں مقبول تھے۔ مولانا شاہ احمد نورانی نے تیس جون سن انیس سوچوہتر عیسوی میں قومی اسمبلی میں بل پیش کیا اورسات ستمبر سن سن انیس سوچو ہتر عیسوی سے قادیانیوں کے خلاف آئین میں ہونے والی دوسری ترمیم کے اصل محرک تھے جس کو اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا تھا۔
قرارداد کے تحت قادیانیوں کو آئین پاکستان میں غیر مسلم قرارد دیا گیا، مولانا نے اس موقع پر قادیانیوں کے سربراہ ناصر مرزا کو مناظرے میں شکست فاش بھی دی تھی۔ دعوت اسلامی تحریک کو قائم کرنے کا سہرا مولانا شاہ احمد نورانی، علامہ سید احمد سعید کاظمی اور دیگر بزرگوں کے سر ہے، انہوں نے سن انیس سواکیاسی عیسوی میں کراچی میں مولانا شاہ احمد نورانی کی رہائش گاہ پر ایک اجلاس میں اس کی ضرورت کو اجاگر کیا وہاں مفتی وقارالدین بھی موجود تھے جن کے ذمے یہ کام لگایا گیاکہ انہوں نے اپنے شاگرد مولانا محمد الیاس قادری کی قیادت میں دعوت اسلامی تشکیل دی، اتحاد بین المسلمین کے لیے انہوں نے سن انیس سوپچانوے عیسوی میں ملی یکجہتی کونسل بنائی جس میں تمام مسالک کے علماء کو ایک پلیٹ فارم پر مجتمع کر کے کشیدگی کم کرنے میں معاون ثابت ہوئے۔
جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں سن دو ہزار دو عیسوی دینی جماعتوں کو متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم پر جمع کرنے میں اہم کردار ادا کیا، مذہبی جماعتوں کا اتحاد عمل میں آیا تو انھیں متفقہ طور پر سربراہ مقرر کیا گیا، جمہوریت کے لیے ان کی کوششوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا، اپنی موت تک وہ متحدہ مجلس عمل کے سربراہ رہے۔دل کا دورہ پڑنے سے اسلام آباد میں سولہ شوال چودہ سو چوبیس ہجری یعنی گیارہ دسمبرسن دو ہزار تین عیسوی کو ان کا انتقال ہوا۔ ان للہ و ان الہ راجعون۔ان کی نماز جنازہ ان کے بیٹے اویس نورانی نے پڑھائی جبکہ انہیں کراچی میں حضرت عبداللہ شاہ غازی کے مزار (کلفٹن) کے احاطے میں سپرد خاک کیا گیا۔
American Indians
ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ سیاسی حالات اور ملکی صورتحال پر علامہ مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی جیسی شخصیت کی اشد ضرورت ہے علامہ کا تعلق خانقاہ سے تھا لیکن انھوں نے اپنی خانقاہ سے اسلامی ریاست کیلئے شب و روز محنت، جدوجہد کو جاری رکھا اور پاکستان میں اسلام دشمن قادیانیوں کو ان کے عزائم اور ناپاک اعمال سے محفوظ کیا، حقیقت ہے کہ سیاست سے دین جدا ہو تو چنگیزی رہ جاتی ہے۔ موجودہ سیاسی صورتحال تو ابتر ہے ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ حکومتی ذمہ داران کی غفلت بھی کارفا دیکھائی دیتی ہے، ہمارے پاسبان بہادر اور شہادت کے متوالے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ پاکستان کی ریاست کا نظام انتہائی ابتر دیکھائی دیتا ہے۔
تقیناً اس کے پیچھے اسرائیل، امریکہ، بھارت اور ان کے حواری شامل ہیں۔ علامہ مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی نے اپنی حیات میں ہی ان حالات کی جانب اشارہ کیا تھا لیکن ایوان میں پہنچنے والے ممبران غفلت کی نیند اوڑھے ہوئے ہیں، علامہ چاہتے تھے کہ ملک پاکستان سے مسلکوں کی جنگ کا خاتمہ ہوجائے اور ہو کوئی آزاد اپنے اپنے مسلک پرقائم رہتے ہوئے ملک پاکستان کی ترقی و فلاح میں ہر شخص اپنا کردار ادا کرے کاش علامہ مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی کی مثبت سوچ اور بہترین مشن کو ہمارے ایوان کے منتخب نمائندے ،فوج و حکومتی ذمہ داران سمجھ جاتے تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے بحرحال ابھی بھی وقت نہیں گزارا ہے۔
علامہ مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی کے مشن پاکستان کو لیکر ہم سب چل سکتے ہیں اس کیلئے سب سے پہلے آپس کی نفرتوں، اقربہ پروریوں، تعصب کو ختم کرکے خاص ایک اللہ اور اس کے آخری بنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یقین کامل رکھتے ہوئے دین اسلام کا پر چار بڑھانے کیلئے سب سے پہلے اپنے انتخابات کے نظام کو جدید خطوط پر لانے کیلئے حکومت پر دباؤ ڈالیں تاکہ امریکہ ہو یا اسرائیل کو بھی بیرونی طاقت پس پردہ نتائج تبدیل نہ کرسکے اور وہی منتخب ہو جسے عوام ووٹ دیں۔ اس کیلئے اے ٹی ایم کی فطرح کارڈ بنایا جائے جس میں ہر ووٹر کی تفصیل موجود ہو اور وہ اے ٹی ایم ووٹنگ مشین میں ڈال کر اپنا ڈیٹا میج کرے جس میں انگوٹھے کا اسکین بھی شامل ہو۔
اس طرح ہر ووٹر اپنا ووٹ خود اپنی مرضی سے دے سکے گا۔ پولنگ ایجنٹ اور چیف پولنگ ایجنٹ کا معاملہ بھی ختم ہوجائے گا پولنگ کے وقت صرف فوجی اہلکار موجود ہوں تاکہ کوئی اُس ووٹنگ اے ٹی ایم مشین کو نقصان نہ پہنچا سکے، یقینا یہ عمل دشوار ضرور ہے مگر نہ ممکن نہیں وطن عزیز کے بہتر مستقبل کیلئے اس نظام کو رائج کرنے کیلئے تمام سیاسی لیڈران، عہدیداران، کارکن، قومی اسمبلی، سینٹ، صوبائی اسمبلیاں، استاد، طالبعلم، ہمارے نوجوان، عدلیہ اور فوج کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔
ہم نہ سہی ہماری نسلیں پڑوسی ملک چین کی طرح ترقی یافتہ نظر آسکیں گی، یاد رکھیئے ہمارا سب سے زیادہ مخلص دوست ملک چین ہے چین کے قریب ہونا پڑیگا اور امریکہ سے جان چھڑانی پڑیگی کیونکہ امریکہ نے ہماری پچھلی تمام جنگوں میں ساتھ نہ دیا اور اب ہم پر افغانستان کے ذریعے بلا وجہ جنگ عائد کی ہوئی ہے جسمیں بھارت پیش پیش ہے، بس ہمیں اس بین الاقوامی سازش کو سمجھنا ہوگا اور ہمارے کالم کاروں کو بلا خوف حقائق آشنا کرنے ہونگے تاکہ قوم اپنے اور غیروں کی تمیز کرسکیں اور چھپے ہوئے آستین کے سانپوں کو نکال باہر کرسکیں یہ ملک وطن عزیز کی سلامتی کیلئے ایک جان ہوجائیگی انشاء اللہ۔