جولائی کے دوسرے ہفتے کی ایک آگ برساتی تپتی دوپہر چرخ نیل عام پر سورج دیوتا پو رے جلال کے دہکتا ہوا گو لا بن کر زمین کو ابلتے ہو ئے کڑاہے کی طرف گر ما چکا تھا سورج دیوتا کا آتش فشانی جلال بتا ر ہا تھا کہ آج وہ ہر شے کو بھون کر کھا جائے گا نرم و نازک درختوں پھولوں پودوں کی ملائم شاخیں تو کب کی جھلس کر بنجر ہو چکی تھیںاب تو پیپل اور بوڑھ کے صحت مند موٹے صحت مند پتے بھی جھلس کر زرد ہو چکے تھے ‘ دوزخ کے ڈھکن آسمانوں کے مالک نے اٹھا کر اس کا منہ زمین کی طرف کر دیا تھا قہر بر ساتے سورج نے ہوائوں کے جھونکوں میں بھی تمازت بھر دی تھی پورا شہر شعلہ فشاں کڑاہے کا روپ دھار چکا تھا سارا شہر آگ برساتی گرمی سے صبح سویرے سے سلگنا شروع ہو گیا تھا ہوا ایسی گرم کہ دوزخ کے پتیلے سے آگ کی تپش پھیلتی جا رہی ہو۔
گرم ہوا کے تھپیڑے بند دروازوں کھڑکیوں کے بند پٹوں سے ٹکراتے پھر رہے تھے کہ شائد کو ئی دریچہ دروازہ کھلا ملے یا ادھ کھلا ہی مل جائے تو دوگھڑی بھر کو سائے کی آغوش میں دم لے کر اپنی توانائی بحال کر سکیں ناقابل برداشت گرمی اور کئی مہینوں سے کرونا عفریت کی ماردھاڑ انسانوں کو بے رحمی سے چاٹنے کا عمل ایسا خوفناک کہ لوگ آگ بر ساتی گرمی اور کرونا کے خوف سے اپنے اپنے گھروں میں دبکے بیٹھے تھے پہلے کرونا اپنی ظلم و بربریت کی آخری حدوں پر جاکر انسانوں کو خوف و دہشت کی چادر میں لپیٹ چکا تھا اب رہی سہی کسر آگ برساتے سورج نے پوری کر دی تھی کہ ہر ذی روح اپنے اپنے گھروں پناہ گاہوں میں گھس کر بیٹھ گیا تھا با ہر نکلنا موت کے منہ میں جانے کے برابر ہو گیا تھا سڑکیں بازار ویرانی کا منظر پیش کر رہے تھے اور اکا دکا لوگ انتہائی مجبوری میں کھلے آسمان کے نیچے آنے کا خطرہ مول رہے تھے ورنہ ہر کسی کو اپنی جان کے لالے پڑے ہو ئے تھے اپنی جان کی بقا کے لیے باہر نکلنا ہر ایک نے بند کر دیا تھا میں فطری طور پر جسمانی طور پر طبی طور پر گرم مزاج بلکل بھی نہیں لیکن جسم کے اندر حرارت زیادہ اِس لیے میںساری زندگی ٹھنڈے علا قوں کی آغوش میں پناہ لیتا رہا جوانی میں مری گلگت سکردو ہنزہ وادی سوات کا غان چترال کشمیر راولا کوٹ وادی نیلم جہاں کو ئی ٹھنڈ پر بہار صحت مند علاقے میں جانے کا موقع ملتا میں جاکر پناہ لیتا پھر بارہ سال کو ہ مری کے قیام کے دوران تو گرمی برداشت کر نے کی ہمت بلکل بھی نہ رہی لیکن کوہ مری کے قیام کے دوران جب خدا کے خاص فضل کرم سے راہ فقر روحانیت کا طالب علم بنا تو پھر جسمانی نزاکتوں ضرورتوں آسائشوں اور مو سمی تغیرات سے آزاد ہو تا گیا ۔
پھر لاہور آگیا لیکن شدید گرمی میں میرے جسمانی نظام اعصاب عضلات شدید بے چینی کا اظہار کرتے’ کرونا اور جولائی کی قہر برساتی گرمی کی وجہ سے میں بھی اپنا حجرہ ٹھنڈا کر کے کتابوں میں سر دئیے وقت گزار رہا تھا کتاب اور مصنف کی نثر نگاری اچھوتا اسلوب سر شاری کیف آور سرور آور کیفیت میں تھا کہ عین دوپہر کے وقت کسی نے آکر دروازے پر حملہ ہی کر دیا میں نے شروع میں تو نظر انداز کیا کہ دوچار دستک کے بعد واپس چلا جائے گا لیکن حملہ آور کا ایسا کوئی موڈ نہیں تھا اُس نے تھوڑے وقفے کے بعد پھر ٹھوکروں سے لو ہے کے گیٹ پر طاقت آزمانی شروع کر دی اب تو باقاعدہ دروازہ پیٹا جا رہا تھا آنے والا اتنا ڈپریشن غصہ پریشانی شائد دروازے پر نکالنے کے ارادے سے آیا تھا اُس کی دروازے پر مستقل ستم اندا ز آوازسے پتہ چل رہا تھا کہ وہ ٹلنے والا نہیں ہے ہر حال میں گھر کے مکینوں کو جگا کر ملاقات کر کے ہی جائے گا گھر کی ملازمہ چند دن کے لیے اپنے والدین سے ملنے اپنے گائوں گئی ہو ئی تھی اِس لیے اب حملہ آور سے میرا ٹاکر ہ نا گزیر ہو گیا تھا۔
میں نے کمال ڈھٹائی کا مظاہرہ کر تے ہو ئے نظر انداز کر نے کی کو شش کی لیکن حملہ آور نے زیادہ شدت بلکہ آوازوں سے بلانا شروع کر دیا دروازہ کھولو جلدی کھولو آواز نسوانی تھی میرا جذبہ رحمدلی فوری بیدارہوا میں اپنے حجرے سے جلدی جلدی نیچے اتر کر دروازے پر گیا تو صحت مند طاقت ورچالیس سالہ چنگڑی عورت بھکاری کے روپ میں قہر برساتی آنکھوں سے میری منتظر تھی کہ تمہاری اتنی جرات میں دروازے پر ہوں اور تم دروازہ نہیں کھول رہے یا اتنی دیر سے آنے کی تمہاری جرات ۔مجھے دیکھتے ہی وہ غرائی صاحب جی کب سے دروازہ پیٹ رہی ہو ں پیاسی ہو ں ٹھنڈا پانی چاہیے میں فورا گھر کی طرف گیا لا کر ٹھنڈا جوس بھرے ہو ئے جگ کی شکل میں پیش کیا گلاس اُس کے ہاتھ میں دے کر سماجی فاصلے کے ساتھ کھڑا ہو گیا چڑیل نما کالی سیاہ بھکارن نے تین گلاس جوس کے چڑھائے پھر میری طرف دیکھ کر بولی صاحب جی راشن چاہیے غصہ جارحیت اُس کے مزاج کا حصہ تھا وہ مہذب ہو نے کی کو شش کر رہی تھی لیکن اُس کا اندرونی ابال نکل رہا تھا وہ گرم پتیلے کے پانی کی طرح ابل رہی تھی۔
ایک تو سورج کی آتش فشانی گر می اوپرسے اُس کے اندر کا جوار یا سفر پیدل چلنے کا غصہ یا گھر والوں کے ساتھ لڑائی کہ خود کو کنٹرول کرنے کی کو شش کر رہی تھی لیکن جارحیت اُس کی آنکھوں جسمانی حرکات سے نظر آرہی تھی وہ بھیک نہیں مانگ رہی تھی بلکہ دھیمہ لہجے اور نظروں سے حکم جاری کر رہی تھی کہ مجھے راشن دو میں نے جلدی سے ٹھنڈے کمرے میں جانے اور اِس بلا کو ٹالنے کے لیے سو روپے کا نوٹ نکالا اُس کی طرف کر تے ہو ئے واپسی کی طرف مڑا کہ وہ ابھی نوٹ پکڑ کر چلی جائے گی لیکن اُس کی غراتی ہو ئی آواز میری سماعت کو چھید گئی صاحب جی مجھے اتنے تھوڑے پیسے نہیں راشن چاہیے میں اتنی گرمی میں چل کر آپ کے گھر آئی ہو ں صرف ایک سو روپے کے لیے مجھے زیادہ پیسے دیں ایک سو سے میرا کیا بنے گا سو روپے کے بعد میں اِس جارحیت کے لیے بلکل تیار نہیں تھا۔
میرے اندر کا دیہاتی مرد بیدار ہو نے لگا تو میں نے خشک لہجے میں اُسے کہا آپ گرمی سے اپنی مرضی سے آئی ہیں اپنی مرضی سے گر می میں باہر پھر رہی ہیں میں نے آپ کو دعوت دے کر تو نہیں بلایا تو اُس نے دوسرا حملہ یہ کیا صاحب جی اگر اللہ نے اتنا زیادہ دیا ہے تو اُس میں ہم غریبوں کا حصہ بھی ہے اکیلے اکیلے مو جیں کریں گے تو خدا یہ ساری موجیں کسی دن چھین لے گا اب اُس نے ایک دم پینترا بدلا خود کو بھکاری سے فقیرنی میں بد ل کر ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر روحانی فقیری بلیک میلنگ پر اُتر آئی کہ میں بہت اللہ والی ہوں اگر مجھے راضی نہیں کرو گے تو میری بد دعا تم کو لگ جائے گی اب وہ روحانی دہشت گردی شعبدہ بازی پر اُتر آئی تھی میں اپنے نرم مزاجی درگزر نظر انداز کے نقطہ عروج پر تھا میں اُس کو زیادہ پیسے دے بھی سکتا تھا لیکن اُس کی بد معاشی بلیک میلنگ کی وجہ سے نہیں دینا چاہ رہا تھا کہ وہ یہی رویہ تیر کسی اور پر جاکر آزمائے گی اِس طرح روحانی لوٹ مار کا یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا۔
میں نے نہایت آرام سے اُسے کہا دیکھو گرمی بہت ہے جو میرے پاس ہیں وہ لو اور جائو میرا دھیما اور صلح جو رویہ اُس کو اور شیر کر گیاوہ سمجھی کہ میں اُس کے روحانی دبدبے سے ڈر گیا ہو ں اُس کی آنکھوں میں شکار کر نے والی چمک تیز ہوئی آنکھوں کو مٹکاتی ہاتھ ہوا میںاٹھا کر پھر بو لی جو ہم کہتے ہیں وہ فوری کرو راشن کے پانچ ہزار فوری لاکر دو ورنہ تمہاری خیر نہیں اُس کی یہ بد معاشی اور بلیک میلنگ اب ناقابل برداشت تھی میرا دیہاتی پن پوری طرح بیدار ہو گیا تھا اُس کا جھوٹا روحانی رویہ بھی ناقابل بر داشت تھا میں غصے میں باہر نکلا سیکورٹی گارڈ کو بلایا اُس کے ہا تھ میں سو روپے کا نوٹ دیا اوراُسے کہا اِس بھکارن کو گیٹ سے باہر نکال دو دوبارہ واپس آئے تو پو لیس کو کال کر دینا دوبارہ یہ نظر نہ آئے بھکارن کو سیکورٹی گارڈ کے حوالے کر کے ٹھنڈے کمرے میںآکر بیٹھ گیا تو تھوڑی دیر بعد پھر دستک ہو ئی مجھے لگا وہ بھکارن پھر آگئی میں غصے میں تندور بن کر باہر گیا کہ اُس کی خیر نہیں لیکن دروازے پر بھکارن نہیں تنویر کھڑا تھا جو دوسال پہلے میرے پاس آیا تھا اور کہہ رہا تھا کہ سر میری موت میرے سر پر کھڑی ہے میں ایک ماہ زندہ ہوں میں کیا کروں اور آج پھر دو سال بعد بھی زندہ تھا ( جاری ہے )
Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956 ویب سائٹ: www.noorekhuda.org فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org