جب سے انسان نے شعور سنبھالا ہے اُس دن سے اِس میں ایک خامی بھی پیدا ہو گئی ہے وہ ہے بلا وجہ اور خواہ مخوا ہ تنقید کر نا۔ دوسروں میں خامیاں نکالنا خود کو عقل کل اور سارے علوم کا جاننے والا سمجھنا اُس کو اپنی ایک خامی بھی نظر نہیں آتی لیکن وہ تنقید کی بندوق پکڑ کر دوسروں کی خوبیوں کو بھی خامیاں بنا کر ان پر گولہ باری شروع کر دیتا ہے تنقید برائے تنقید کر تے ہوئے وہ عقل و شعور کا دامن بھی چھوڑ دیتا ہے میںنہ مانوں کی رٹ لگا کر ٹھوس حقائق کو بھی ٹھکرا کر انکار کر دیتا ہے ا ِیسی ہی تنقید کی گولہ باری ہر دور میں روحانیت پر بھی نام نہاد عقل کے ٹھیکے دار کر تے آئے ہیں اِن تنقید کر نے والوں کی ہٹ دھرمی ملاحظہ فرمائیں کہ واضح نشانیوں ثبوتوں کے باوجود روحانیت کے سرے سے انکاری ہو جاتے ہیں جبکہ حق تعالیٰ نے ہر دور میں مختلف انسانوں کو روحانی صلاحیتوں سے مالا مال کر کے دھرتی پر اتارا ہے پیغمبروں کے بعد آپ صحابہ کرام کی زندگیوں کا اگر مطالعہ کر یں تو آپ کو بے شمار ایسے واقعات ملتے ہیں جب اللہ تعالی نے کسی انسان کے سامنے پڑے پردوں کو سرکا دیا اور آنے والے دور کی تصویر دکھا دی بر وقت روحانی مدد سے صحابہ کرام کی مدد اور راہنمائی کی کون بھول سکتا ہے۔
جب ایک دفعہ حضرت فاروق اعظم مسجد نبوی میں خطبہ جمعہ فرما رہے تھے اُس وقت مدینہ سے ہزار میل دور مسلمانوں کی فوج ایران میں جنگ میں مصروف تھی کہ اچانک فاروق اعظم نے دوران خطبہ اپنا چہرہ مبارک ایران کی طرف کیا اور فرمایا اے ساریہ اپنے پیچھے پہاڑ کی طرف دیکھو ساریہ اُس وقت مسلمان فوج کے کمانڈر تھے جو فارس میں مصروف جنگ تھے جنگ میں دونوں فوجیں جوش و جذبے سے بر سر پیکار تھیں کہ ساریہ کو حضر ت عمر کی یہ آواز سنائی دی تو انہوں نے پیچھے مُڑ کر دیکھا تو ادھر سے ایک فوج حملہ آور ہونے کا ارادہ کر رہی تھی لہٰذا حضرت عمر کی آواز پر فوری طور پر اپنی جنگی حکمت عملی تبدیل کی اور مسلمان فوج کو فوری طور پر محفوظ مقام پر لے گئے ‘ روحانیت کے منکرین کے لیے یہ مثال کافی ہے کہ حضرت عمر میدان فارس سے ہزار میل دور مدینہ منورہ میں خطبہ جمعہ دے رہے تھے لیکن قدرت نے حضر ت عمر کی نظروں کے سامنے سے سارے حجابات اٹھادئیے اور حضرت عمر میدان جنگ کو اپنی آنکھوں سے اِس طرح دیکھ رہے تھے جیسے خود میدان جنگ میں موجود ہوں۔
اِس غیر معمولی مثال سے آپ کو ماننا پڑے گا کہ قدرت جب چاہے روحانی مدد کے ذریعے انسان کی مدد کر کے حالات واقعات کو تبدیل کر سکتی ہے اِسی طرح فارس میں ہی مسلمان فوج کے سامنے ٹھاٹھیں مارتا دریا آگیا مسلمانوں کے سپہ سالار سعد بن ابی وقاص تھے انہوں نے خدا پر توکل کرتے ہوئے دریا کی منہ زور موجوں کو حکم دیا کہ یہ مسلمانوں کی فوج ہے جو دین الٰہی کے لیے کافروں سے جنگ کر نا چاہ رہی ہے لہٰذا تم ہماری فوج کو راستہ دواور مسلمان فوج کو کسی قسم کا نقصان نہیں ہو نا چاہیے دریا کو حکم دینے کے بعد آپ نے فوج کو دریا میں اترنے کا حکم جاری کر دیا پھر دریا کے دوسرے کنارے فارس کی فوج نے اپنی جاگتی آنکھوں سے حیران کن منظر دیکھا جب مسلمانوں کی فوج ٹھاٹھیں مارتے دریا کے درمیان سے حفاظت سے دوسرے کنارے پہنچ گئیں کافر فوجیں دہشت کے عالم میں پھٹی نظروں سے یہ حیران کن منظر دیکھ رہی تھیں کہ ساری کی ساری فوج کتنے آرام سے دریا کر اس کر گئی اِس منظر کو دیکھ کر ایرانی فوج خوف دہشت سے الٹے قدموں بھاگ کھڑی ہوئی کہ دیو آگئے دیو آگئے اگر اُس وقت مسلمانوں کی مدد روحانی طور پر نہ ہو تی تو پتہ نہیں فارس کی فتح میں اور کتنا عرصہ لگتا یہ روحانی مدد ہی تھی کہ مسلمان فوج دریا پار کر کے کافروں کو شکست دینے میں کامیاب ہوئی تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ روحانی قوتوں کی مدد سے اُس وقت کی سپر پاور کو شکست دی گئی۔
پھر وہ ایمان افروز واقعہ بھی تو تاریخ عالم کے سینے پر نقش ہے جب مسلمانوں کی فتح کے بعد دریائے نیل خشک ہو گیا تو اہل مصر نے بتا یا کہ ہر بار جب دریائے نیل خشک ہو تو ایک نوجوان دو شیزہ لڑکی کو دلہن بنا کر اُس کو ذبح کر کے اُس کا خون دریا کو پیش کیا جاتا ہے تو پھر دریائے نیل انسانی خون پینے کے بعد دوبارہ رواں ہو تا ہے مسلمان گورنر کو جب یہ بتایا گیا تو اُس نے ساری بات لکھ کر امیر المومنین حضرت عمر فاروق سے مشورہ مانگا کہ ہمارے لیے کیا حکم ہے تو حضرت عمر فاروق نے خدا پر توکل کر تے ہو ئے ایک خط دریائے نیل کے نام لکھا جس میں صرف یہ لکھا بسم اللہ الرحمن الرحیم اے دریائے نیل اگر تو خدا کے حکم سے چلتا ہے تو چل ورنہ تیرے پانی کی ہمیں ضرورت نہیں ہے ۔ یہ خط جب گورنر کو ملا تو اُس نے یہ خط دریائے نیل میں ڈال دیا خط جیسے ہی دریا کی خشک مٹی سے ٹکرا یا دریائے نیل کا پانی اُبل پڑا وہ دن اور آج کا دن پھر دوبارہ کبھی دریائے نیل خشک نہیں ہوا اور نہ ہی دوبارہ کبھی نوجوان لڑکی کو ذبح کر کے اُس کا خون دریائے نیل کو قربانی کے طور پر پیش کیا یہ حضرت عمر فاروق کو خدا کی روحانی مدد تھی اِس واقعے کے پیچھے بھی روحانی جہت ہی کار فرما تھی اِس واقعے کے دشمنوں پر گہرے اثرات مرتب ہوئے مسلمانوں کی حقانیت سچائی واضح ہو گئی اِس واقع کے آنے والے دور پر گہرے سیاسی جغرافیائی اثرات مرتب ہوئے روحانیت کے منکرین کے لیے یہ ایک واضح ناقابل تردید مثال ہے پھر اُس حیرت انگیز ایمان افروز واقع کو کیسے فراموش کیا ج اسکتا ہے۔
جب حضر ت خالد بن ولید ایک مرتبہ میدان جنگ میں مصروف جنگ تھے کہ مخالف کمانڈر نے آپ کو للکارتے ہو ئے کہا ہم نا قابل شکست ہیں آپ ہمارا مقابلہ اِس لیے نہیں کر سکتے کہ ہماری فوج طاقتور مہلک اسلحے سے لیس ہے ہماری تلواروں پر جان لیوا زہر لگا ہوا ہے جو کسی کو چھو بھی جائے تو اُس زہر سے اُس کی موت یقینی ہے انسان زندہ نہیں بچ سکتا تو سیف اللہ خدا کی تلوار ایمان سے لبریز لہجے میں بولے لائو زہر کی شیشی جو تم نے تلواروں پر لگا رکھا ہے پھر وہ مہلک جان لیوا زہر کو اللہ کا نام لے کر اپنے حلق میں انڈیل لیا کفار پھٹی نظروں سے خالد بن ولید کو دیکھ رہے تھے جن پر خطرناک زہر کا بلکل بھی اثر نہ ہوا خالد بن ولید کی روحانی طاقت اورخدا پر یقین کا یہ لازوال مظاہرہ دیکھ کر کافروں نے شکست قبول کی یہاں پر بھی خدا کی روحانی مدد نظر آتی ہے حدیث مبارکہ میں ارشاد ہے مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے تاریخ اسلام کے سنہرے واقعات کا جب ہم مطالعہ کر تے ہیں تو حیران کن حقائق سامنے آتے ہیں اِس قدر حیران کن مثالوں سے واسطہ پڑتا ہے اور انسا ن یہ سوچھنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ بلا شبہ مسلمانوں نے اپنے زور بازو پر بے مثال فتوحات حاصل کیں لیکن اُن فتوحات کے پیچھے ہمیں واضح مثالیں ملتی ہیں جب اُن کی پشت پر روحانی قوتیں اثر اندار ہوتی آئی ہیں تاریخ اسلام کے ہر بڑے معرکے کے پیچھے ہمیں روحانی قوت پوری طرح اثر انداز ہوتی نظر آتی ہے۔
Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956 ویب سائٹ: www.noorekhuda.org فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org