روحانیت اور اولیاء اللہ کے منکرین ہر دور میں اہل حق پر تنقید کے نشتر چلاتے ہی نظر آتے ہیں جہاں کوئی موقع ملا نہیں اِنہوں نے مخالفت کی گو لہ باری کی ‘ تاریخ کے اوراق ایسے بے شمار واقعات سے بھرے پڑے ہیں جب کوئی غلام زادہ عام شخص اِن اولیاء اللہ کے در پر بادشاہت تک کی مراد لے کر آیا تو کن فیکون کے مالک اِن بزرگوں نے سلطنت تک ایسے سوالیوں کی جھولی میں ڈال دی ایسا ہی ایک واقعہ ہمیں بابا فرید کے تذکروں میں بھی ملتا ہے جب غیاث الدین بلبن ہندوستان کا آنے والے وقتوں کے حکمران کا سوالی بن کر عام شخص کے طور پر بارگاہ فریدی میں حاضر ہو تا ہے ‘ سلطان ناصر الدین محمود آستانہ فریدیہ پر حاضری کا خواہش مند ہو تا ہے لیکن الغ خان (بلبن) مختلف بہانوں سے روکتا ہے اور بادشاہ سے کہتا ہے مسعود الدین گنج شکر خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے خلیفہ اکبر ہیں یہ بے نیاز درویش ہو تے ہیں اِن کی ناراضگی بھی خطرناک ہو سکتی ہے اِن کے مزاج کے خلاف کو ئی بات نہیں کر نی چاہیے اِس لیے آپ کی ملاقات سے پہلے میں خود جا کر سلام عقیدت اورنذر نیاز پیش کر کے کامل درویش سے ملاقات کی راہ ہموار کر تا ہوں پھر آپ کو ملاقات کے لئے لے جائوں گا اِس طرح بادشاہ مطمئن ہو گیا اور الغ خان کو بابا فرید سے ملاقات کی اجازت بھی دے دی۔
الغ خاں کو اپنے خواب کی تعبیر نظر آرہی تھی فوری طور پر اجو دھن کے اطراف میں دیہات کے لیے معافی کا پروانہ ہیرے جواہرات سونے چاند ی اور بہت سارے قیمتی شاہانہ تحائف لے کر اجو دھن کی طرف روانہ ہوا بے نیاز درویش وقت بابا فرید کو جب الغ خان اور ہزاروں فوجیوں کے آنے کی اطلاع ملی تو آپ نے مریدوں کے ہاتھ پیغام بھیجا کہ فقیر کو اُن سے ملنے کی خواہش نہیں ہے آپ واپس چلے جائیں میں آپ سب کے حق میں دعا کرو ں گا الغ خاں کو جب پتہ چلا تو دکھی ہوا اور پھر فریاد کی کہ میںاور ہزاروں دیوانے صرف اور صرف دیدار کی تمنا لے کر سینکڑوں میل کا سفر کر کے آئے ہیں صرف چہرہ مبارک کا دیدار کر کے واپس چلے جائیں گے آپ عظیم مسیحا اور شفیق بزرگ میں ہم پر کرم کیا جائے دیدار کی اجازت دی جائے ہم راستے کی مشکلوں کو صرف دیدار کے لیے ہی جھیل کر آئے ہیں۔
الغ خاں کی بات سن کر شفیق بابا فرید سوچ میںپڑ گئے کہ ہزاروں فوجیوں سے ملاقات کس طرح ہو تو مریدوں نے مشورہ دیا یا شیخ آپ کسی بلند جگہ پر بیٹھ کر چادر مبارک کو نیچے لٹکا دیں ہر سپاہی گزرتا ہوا چادر مبارک کو بو سہ دیتا جائے گا اِسطرح آستانہ عالیہ پر رش بھی نہیںپڑے گا اور دیوانے فوجیوں کی دلی مراد بھی پو ری ہو جائے گی الغ خان اور سپاہیوں نے نعرہ تحسین بلند کیا کہ ہمارے لیے یہی کافی ہے پھر درویش باکمال بابا فرید اونچی جگہ پر جلو ہ افروز ہو گئے چادر مبارک نیچے لٹکا دی گئی اب ہزاروں فوجی قطار میں گزر رہے تھے دیوانہ وار چادر مبارک کو بو سہ دیتے گزر جاتے کچھ دیوانوںکی دیوانگی کہ چادر مبارک کے دھاگے تبرک کے طور پر لینے شروع کر دئیے چادر کی دھجیاں اُڑ گئیں جس دیوانے کے حصے میںدو دھاگا یا چادر کا ٹکڑاآیا وہ دیوانہ وار چومتا ہوا لے گیا چادر دیوانوں میں تقسیم ہو چکی تھی اب آپ مسجد میں آکر بیٹھ گئے خدمت گاروں نے حلقہ باندھ لیا تاکہ کو ئی دیوانہ قریب آکر تنگ نہ کرے اب سپاہی دیدار کر کے آگے بڑھتے رہے اچانک ایک دیوانہ بو ڑھا شخص حلقہ توڑ کر بابا فرید کے قدموں سے لپٹ گیا تو فطری مسیحا عظیم تھوڑا سا غصہ میں آئے تو دیوانے بوڑھے نے گلو گیر لہجے میں کہا شہنشاہ آپ تنگ نہ ہوں رب تعالیٰ کے اِس انعام کا شکر ادا کریں۔
بابا فرید نے شکر کا نعرہ مارا اور اب اجازت دی کہ سپاہی قریب آکر ہاتھوں کو بو سہ دے کر مل کر آگے بڑھتے جائیں اب تمام فوج کے سپاہی دیوانہ وار آتے ہاتھوں کو قدموں کو بو سہ دے کر آگے چلے جاتے جب تمام سپاہی بو سہ دے چکے تو الغ خاں غلاموں کی طرح نذر نیاز قیمتی تحائف جاگیر کا پروانہ لے کر دست بستہ کھڑا تھا شہنشاہ پاک پتن نے نقد رقم اور تحائف قبول کر لیے اور اُسی وقت غلاموں کو حکم دیا کہ قیمتی تحائف رقم ہیرے جواہرات ضرورت مند مہتاجوں میں تقسیم کر دئیے جائیں پھر بابا فرید جا گیر کے پروانے کو پڑھنے لگے تو الغ خاں عاجزی سے بو لا یا شیخ یہ صرف آپ کے لیے تو بے نیا ز درویش پر جلال آواز میں بو لے ایسے کاغذ کے ٹکڑوں کی مجھے ضرورت نہیں ہے آپ کی سلطنت میں لاکھوں ضرورت مند ہیں جن کو ایسے کاغذوں کی ضرورت ہے اُن میں جا کر تقسیم کردو ۔ بابا جی نے جب جاگیر کا پروانہ واپس کیا تو الغ خاں کو اپنا ادھوارا خواب ٹو ٹتا ہو ادکھائی دیا اداس ہو گیا کہ بابا جی کو اب وہ کیسے منائے کر دعا کرائے کہ اُس کا بچپن کا خواب پو را ہو جائے اب اپنے اقتدار کی دعا کیسے کر ائے ‘ الغ خاں کو ملاقات کی اجازت کے بعد یقین ہو گیا تھا کہ اب وہ بابا فرید شہنشاہ کے قدموں کو پکڑ کر اپنی خواہش کی دعا کرائے گا لیکن جب بابا جی نے قیمتی ترین جاگیر کے پروانے کو واپس کیا تو الغ خاں اداس پریشان ہو گیا الغ خاں کو اپنا منصوبہ ناکام ہو تا نظر آنے لگا اب وہ دل ہی دل میں التجا اور دعا مانگ رہا تھا کہ کسی طرح بابا فرید راضی ہو جائیں پروانہ قبول کر کے اُس کے حق میں دعا کردیں لیکن بابا جی انکار کر چکے تھے۔
بارگاہ ِ فریدی کے جلال کے سامنے اُس کی ہمت بھی نہیں تھی کہ دو بارہ جسارت کر ے دوبارہ درخواست کر ے ادب کا تقاضہ خاموشی سے سر جھکائے کھڑا تھا دلوں کے حکمران اور دلوں کے بھید جاننے والے سلسلہ چشت کے عظیم درویش کی پر تاثیر آوازنے فضائوں کو ارتعاش بخشا بابا فرید کی دلنواز آواز الغ خاں کے کانوں سے ٹکرائی بابا جی فارسی کا شعر پڑھ رہے تھے شہنشاہ فریدون کوئی آسمانی فرشتہ نہیں تھا اور نہ ہی اُس کو آرام و آسائش چاہیے تھی لیکن جب اُس نے لوگوں کی خدمت کی سخاوت سے عام لوگوں کو آسانیاں دیں تو پھر بلند مقام تک پہنچ گیا سخاوت کر سخاوت بانٹ پھر تو بھی ایک دن فریدوں جیسا بلند مقام پالے گا بابا جی کے الفاظ جیسے ہی الغ خاں کے کانوں سے ٹکرئے تو وہ سناٹے میں آگیا اور ساتھ ہی بابا فرید کی قوت مکاشفہ دیکھ کر حیران رہ گیا بابا فرید کس قدر روشن ضمیر ہیں کہ جو تمنا دعا خواہش اُس کے دل میں تھی اُس کو پڑ ھ کر اظہار کر دیا الغ خاں بابا جی کی روشن ضمیری دیکھ کر آگے بڑھا اور شہنشاہ پاک پتن کے پائوں پر اپنا سر رکھ دیا قدموں کو چومتے ہو ئے التجا کے لہجے میں درخواست گزار ہوا میرے شہنشاہ میں مجبور ہوں ہر انسان کے سینے میں خواہش خواب تمنائیں ہو تی ہیں۔
میرے دل میں بھی ہندوستان پر حکمرانی کا خواب ہے کہ ایک دن میں بھی تخت ہندوستان پر حکمرانی کرو ں یہ سب آپ کی دعائوں کے بغیر ممکن نہیں ہے آپ کی ایک نگاہ میری زندگی سنوار دے گی شاہا میرے حال پر کرم کریں مجھے دعا دے دیں آپ کی ایک نظر میری زندگی سنوار دے گی اے عظیم شاہا میرے اوپر ایک نظر کردیں الغ خاں گر یہ زاری کر رہا رہا تھا تو عظیم مسیحا حالت کن فیکون کے مالک بابا فرید نے الغ خاں کو کندھوں سے پکڑ کر اٹھا یا اور خاص لہجے میں بولے زمین آسمان اور تمام حکومت کے مالک اُس خدائے لا زوال کے حضور یہ درویش دعا کر تا ہے کہ وہ جہانوں کا مالک تجھ پر بھی اپنا خاص کرم کر دے جا تو جا کر سخاوت کر دکھی لوگوں کی خدمت کر کیونکہ جب تو زمین پر لوگوں پر کرم کر ے گا تو آسمانوں کا مالک تجھ پر مہربان ہو گا الغ خاں بابا فرید کا اشارہ سمجھ گیا ہاتھوں کو بوسہ دے کر چلا گیا شاہ ِ پاک پتن سے ملاقات کے بعد الغ خاں میں ایک خاص تبدیلی آگئی تھی کہ جب بھی اُسے مو قع ملتا وہ غریبوں مسکینوں مہتاجوں میں دولت تقسیم کر تا نظر آتا اور اگر کبھی کو ئی ضرورت مند آتا تو اُسے بابا فرید کی سرگو شی یاد آجاتی سخاوت کر تو بھی فریدوں ہو جائے گا وہ آسمان سے نہیں اُترا تھا سالوں پر سال گزرتے چلے گئے کبھی کبھی الغ خاں مایوس بھی ہو جاتا لیکن پھر اُسے درویش باکمال کے الفاظ یاد آجاتے تو پھر وہ سخاوت کا سلسلہ تیز کر دیتا اِس طرح پچیس سال گزر گئے پھر سلطان ناصر الدین محمود انتقال کر گیا تو الغ خاں کو متفقہ طور پر ہندوستان کا سلطان تسلیم کر لیا گیا رسم تاج پو شی کے بعد سلطان غیاث الدین بلبن کا لقب اختیار کر کے ہندوستان کے تخت پر جلوہ گر ہوا اور ساری عمر بآواز اقرار کر تا رہا میرے بادشاہ ہندوستان بننے میں شہنشاہِ پاک پتن کی دعائیں شامل ہیں اُن کے قدموں سے لپٹنے کا پھل مجھے آج یہ ملا کہ میں ہندوستان کا بادشاہ ہوں یہ درویش کی ایک نگاہ کا انعام ہے۔
Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956 ویب سائٹ: www.noorekhuda.org فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org