وحدانیت، نورانیت، روحانیت، اِسلامیت اور اِنسانیت کے درمیان بہت اٹوٹ ”رشتہ” جبکہ ان میں حضرت اِنسان کی نجات کا”رستہ” پنہاں ہے۔اِسلام کے ہوتے ہوئے اِنسانیت کو سب سے بڑا مذہب کہنا جہالت ہے کیونکہ اِسلامیت نے انسانوں کو ضابطہ حیات اور اِنسانیت کا تصور دیا ورنہ ظہور اِسلام سے قبل دنیا بھر میں ظلم و ستم، فرعونیت، شیطانیت اور جاہلیت کا تاریک دورتھا،اس وقت لوگ انسانیت کے مفہوم سے نابلد اور ناآشنا تھے۔دورجاہلیت میں عورتوں،غلاموں اورکمزوروں کے کوئی حقوق نہیں تھے جبکہ نوزائیدہ بیٹیوںکوزندہ درگورکردیاجاتا تھا۔ سراپارحمت اورسرورِکونین حضرت محمدرسول اللہ خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآلہ واصحبہٰ وسلم کو محسن انسانیت بھی کہاجاتا ہے کیونکہ نبوت کی برکت سے کفروشرک کی نحوست دورہوئی اور انسانوں کی کایا پلٹ گئی ۔دین فطرت اِسلام وہ روشنی ہے جس کی آمد سے ظلمت کااندھیرا چھٹ گیا ۔کفار کی گھٹیامنافقت اوربدترین مزاحمت کے باوجود فروغ اسلام تلوار نہیں افکاراورکردار کانتیجہ ہے۔
اِسلام کی دعوت اوراشاعت میں شریک شخصیات نے معبودبرحق کے” قرب” کیلئے بار بار” کرب” جبکہ حسینیت نے پلید یذیدیت کوتسلیم نہ کرنے کی پاداش میں کرب وبلاکاسامنا کرتے ہوئے سربلندی وسرفرازی کے ساتھ جام شہادت نوش کیا۔ راہِ حق کے مسافر اپنے نظریات پر استقامت کی بدولت مینارہ نوربن گئے اورانہوں نے کروڑوں تاریک قلوب کواسلام کی تعلیمات سے سیراب اورمنورکردیا۔خاندانِ نبوت کے مرد حضرات کاحسن درحقیقت جمالِ حسین علیہ السلام کی خیرات ہے ،سیّد زادوں کی سخاوت اورعبادت جبکہ دشمنانِ اِسلام کے ساتھ ان کی عداوت قابل تعظیم اورقابل تقلید ہے۔ کوئی سیّدہواوروہ سخی یاغنی نہ ہویہ ہونہیں سکتا۔کوئی سیّد ہواوراس کی شخصیت میں ”جمال وجلال” نہ ہویہ نہیں ہوسکتا۔کوئی سیّد ہواوروہ باوفا،باصفا اورباحیاء نہ ہو یہ نہیں ہوسکتا ۔کوئی سیّد ہواوراس میں” کرامت و متانت ”نہ ہویہ ہونہیں سکتا۔سرورِکونین حضرت محمدرسول اللہ خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآلہ واصحبہٰ وسلم کی ذاتِ اقدس سے جس جس کا”شجرہ” ملتا ہے وہ سبھی اُمت کیلئے” شجرسایہ دار” ہیں۔چندبرس قبل لاہور میںایک حسن وجمال اورجلال والے باکمال سیّد زادے پیر طریقت ،رہبر شریعت ،یوسف المشائخ ،عالمی مبلغ اِسلام ،پاسبان مسلک حضرت مجددالف ثانی رحمتہ اللہ علیہ، داعی اتحادبین المسلمین،عالمی چادراوڑھ تحریک کے بانی،حضرت صاحبزادہ پیر سیّد کبیر علی شاہ گیلانی مجددی رحمتہ اللہ علیہ سے ان کے آستانہ اورآشیانہ میں یادگار ملاقات ہوئی توراقم ”شاہ” کی سحرانگیز شخصیت اورسحرانگیز گفتگوکی تاثیر کااسیر ہوگیا۔پیر سیّدمحمدکبیرعلی شاہ گیلانی زندگی بھر اپنے معبود اورمحبوب ربّ العزت کی کبریائی بیان کرتے ر ہے۔ بارگاہ الٰہی میں کلمہ طیبہ کا ورد اور بارگاہ رسالت میں درودوسلام کے نذرانے پیش کرتے رہے۔
پیر سیّد محمد کبیر علی شاہ گیلانی شریعت،طریقت ،سیاست ،معیشت اورمعاشرت سمیت ہرموضوع پر سیر حاصل گفتگوکرتے تھے ۔ان کی خوبصورت شخصیت میں استقلال اوران کے پرجوش خطابات میں استدلال تھا ۔ وہ صرف اپنی پرمغز باتوں سے اپنے عقیدتمندوں کوسیراب اورشاداب کرتے تھے ۔ سرورِ کونین سیدنا حضرت محمد رسول ا للہ خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآ لہ واصحبہٰ وسلم کے اہل بیعت کی خاصیت ان کی عبادت اور سخاوت ہے ، پیر سیّدمحمدکبیر علی شاہ گیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے پرنورقلب کی طرح ان کا دسترخوان بھی بہت کشادہ تھا۔وہ اپنے ہر مہمان کواپنی مخصوص مسکان،پرخلوص دعائوں اوربیش قیمت تحائف کے ساتھ رخصت کیا کرتے تھے ۔انہیں دوسروں کواپناگرویدہ بنانے کا گر آتا تھا ۔پیر سیّدمحمد کبیر علی شاہ گیلانی جب بھی ملتے ان سے بہت کچھ سیکھنے کوملتا،ان کی صحبت میں بیٹھنا اوران سے براہ راست مفید نصیحت سننا بیش قیمت سعادت تھی ۔ باباجی کادم ان کے پیاروں، پیروکاروں اورعقیدتمندوں کیلئے تازہ ہواکاجھونکا تھا ۔
پیر سیّدمحمد کبیر علی شاہ گیلانی نے تقریراورتحریر کے میدان میں بھی اپنی خدادادصلاحیتوں سے اپنے عقیدتمندوں کوبیحدمتاثراورمستفید کیا ،ان کی تحریر اورتقریردونوں میں تاثیر تھی ۔وہ تحریراورتقریر سے انتہائی موثراورمنظم تحریک کاکام لے رہے تھے ۔بابا جی نے روحانیت کے” رنگ” سے بے شمار انسانوں کے قلوب کا ”زنگ ”دورکرکے ا نہیں بندگلی سے باہر نکال لیا۔ پیرسیّدمحمد کبیر علی شاہ گیلانی مادروطن کی معروف ومحبوب روحانی اورنورانی شخصیت تھے۔ اوصاف حمیدہ کے معاملے میں باباجی واقعی” کبیر”لیکن وہ ہرقسم کے”کبر ”سے پاک تھے۔ پیر کبیر نے ہردورمیں نعرہ تکبیر بلند کیا ،زندگی بھراپنے دین اسلام پرفخر، اپنی ذات میںفقر،ذکرالٰہی اورشکرالٰہی ان کااوڑھنابچھونارہا ۔وہ مستندومقبول اورمعقول قلم کار کی حیثیت سے ورلڈ کالمسٹ کلب سے وابستہ تھے ۔ پیر سیّدمحمد کبیر علی شاہ گیلانی کی خلوص اورمحبت سے بھرپور دعوت پر راقم کو ایک بار الحمراء ہال مال روڈ لاہور میں عالمی چادراوڑھ تحریک کے زیراہتمام ایک پروقار اورمنظم کانفرنس میں شریک ہونے کااعزاز نصیب ہوا۔دفاعی تجزیہ کار جنرل (ر)غلام مصطفی ،قلم قبیلے کی سینئراورسنجیدہ شخصیات میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ،ڈاکٹر نبیلہ طارق ایڈووکیٹ، خواجہ خالد آفتاب ،عدنان ملک ، اخترعلی بدر ،ملک محمد ارشدعاصم ،ممتازاعوان ،سلمان پرویز ،ناصر چوہان ایڈووکیٹ اورملک شکیل اعوان نے اس تعمیری کانفرنس میںشرکت کی ۔مقررین نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اپنے اپنے منفردانداز میں خواتین کیلئے چادر کی ضرورت اوراہمیت پرروشنی ڈالی اور قوم کی بیٹیوں کوچادریں اوڑھانے کے سلسلہ میں پیر سیّد محمدکبیر علی شاہ گیلانی کی گرانقدر خدمات کوسراہا۔راقم نے اس کانفرنس کے اختتام پربابا جی کوکسی شفیق ومہربان باپ کی طرح وہاں موجود بیٹیوں اوربہنوں کوچادریں اوڑھا تے ہوئے دیکھا ۔میں کیوں نہ آگے بڑھنے سے پہلے آپ کوعالمی چادراوڑھ تحریک کی شروعات کی رودادسناتاچلوں ۔
پرویز مشرف اپنے آئیڈیل کمال اتاترک کی طرح ہم وطنوں کوتاریک راہوں پر دھکیلناچاہتا تھا ،موصوف نے اپنے بیرونی آقائوں کی خوشی کیلئے پاکستانی خواتین کومادرپدرآزادی کاپیغام دیا اورایک سازش کے تحت لاہور کے اندرمیراتھن ریس کااہتمام کیا ،مسلم خواتین کوبے پردگی پراکسانابیہودگی تھی۔ان دنوں سیّدزادے پیرمحمد کبیرعلی شاہ کی قیادت میں عالمی چادراوڑھ تحریک کی شروعات ہوئی اوراب تک کئی ملین چادریں خواتین کے سروں کی زینت بن چکی ہیں۔بابا جی نے ان چادروں کیلئے آج تک اپنے کسی مرید یاعقیدتمند سے ایک ٹیڈی پیسہ بطورنذرانہ ،عطیہ یا چندہ نہیں لیا بلکہ وہ تاحیات اپنے مسائل اپنے وسائل سے حل کرتے رہے ۔12جون2020ء کو پیر سیّد محمدکبیر علی شاہ گیلانی مجددی کاوصال ہوگیا ۔کرونا کے باوجودلاہورسمیت پورا پاکستان ان کی نمازجنازہ میں امڈآیا ۔بابا جی کوان کے آستانہ شریف میں اپنے ہاتھوں سے تعمیر کی گئی جامعہ مسجد میں سپردخاک کیا گیا ۔3ستمبر2020ء کو عالمی مبلغ اسلام ،بانی و امیر عالمی چادر اوڑھ تحریک پاکستان، یوسف المشائخ حضورتاجدار چورہ شریف پیرسیّدمحمد کبیر علی شاہ گیلانی مجددی رحمتہ اللہ علیہ کی یاد میں تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا گیا جہاں راقم اوربرادرم ملک شکیل اعوان بھی مدعوتھے ۔ اقبال اکادمی پاکستان کے شعبہ تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر طاہر حمید تنولی، پی ٹی آئی کے ممبرقومی اسمبلی ملک کرامت کھوکھر اور خواجہ خالدآفتاب کے بعدمجھے بھی اظہارخیال کیلئے کہاگیا تومیں نے عرض کیا ،ریفرنس کے شرکاء چشم تصور سے دیکھیں باباجی ہمارے درمیان موجود ہیں ،وہ ہمیں دیکھ اورسن رہے ہیں کیونکہ جس کی مرقد زندہ ہووہ زندہ ہوتا ہے ۔میں نے باباجی کومخاطب کرتے ہوئے عرض کیا ،”آپ کبیر ہیں میں توحقیر ہوں ،آپ ”شاہ ”ہیں میں توفقیر ہوں”۔میں نے دیکھا میری بات سن کربابا جی اپنے مخصوص انداز میں تبسم فرمارہے تھے۔
اللہ تعالیٰ کارسازاورقادر ہے ،وہ ہرنظراورہرمنظرمیں ہے۔خالق اپنی مخلوق کومسلسل د یکھنے اورسننے پرقادرہے مگر ہم بندے ظاہری آنکھ سے اپنے معبود برحق کونہیں دیکھ سکتے ۔ کائنات میںچہارسواس کانور ہے مگروہ انسانی بینائی کی رسائی سے بہت دور ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے خود بھی پردوں میں رہناپسندفرمایااورمسلمان خواتین کیلئے پردہ فرض کردیا۔ عفت وعصمت کے بغیر کسی انسان کورفعت ،عزت اورعظمت نصیب نہیںہوتی۔ شہرت ،طاقت ،دولت یاحکومت کوعزت وعظمت کامعیار سمجھنادرست نہیں ۔باوفااورباصفا لوگ درحقیقت باحیاء ہوتے ہیں،ہمارے معبود برحق کواپنے بندوں میں حیاء بہت پسند ہے،حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے منسوب حیاء کے روح پرور واقعات ہماری اسلامی تاریخ کاروشن باب ہیں۔دین فطرت اسلام کی کامل تعلیمات سے حضرت انسان کوشرم وحیاء اورحمیت کادرس ملتا ہے۔ چادر وچاردیواری کامحاورہ ہمارے ہاں بہت استعمال ہوتا ہے۔زمانہ قدیم میںچادرخواتین کیلئے مخصوص نہیں تھی بلکہ مردحضرات بھی چادر استعمال کرتے تھے،نام نہاد جدت آنے سے کئی ایک خوبصورت اِقدار کاجنازہ اٹھ گیا ہے۔ ہمارے دیہات کے اندر آج بھی خواتین وحضرات میں چادراوڑھنے کاکلچر عام ہے ۔سراپا رحمت سرورکونین حضرت محمد رسول اللہ خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآلہ واصحبہٰ وسلم کی چادرمبارک کو ”کملی ”کے نام سے یادکیاجاتا ہے۔ حضرت محمدرسول اللہ خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآلہ واصحبہٰ وسلم نے اپنی رضائی ماں حضرت حلیمہ سعدیہ کی بیٹی شیما اورحاتم طائی کی بیٹی کوچادروں کابیش قیمت تحفہ پیش کیا۔
دوسروں کی پگڑیاں اچھالنا اورقوم کی بیٹوں کے سرڈھانپنا،یہ دونوں کام مختلف ہیں۔آج اہل سیاست اوراہل صحافت میں سے زیادہ ترلوگ دوسروں کی پگڑیاں اچھال رہے ہیں جبکہ اس ماحول میں سجاہ نشین چورہ شریف سیّد پیرمحمدکبیر علی شاہ نے اپنی ظاہری حیات میں محض ہماری مائوں، بہنوں اوربیٹیوں کوچادراوڑ ھنے کاپیغام نہیں دیتے رہے بلکہ اپنے وسائل سے انہیں چادریں بھی مہیاکر تے رہے ،اب یہ مقدس مشن ان کے نیک نام صاحبزادوں سجادہ نشین آستانہ عالیہ چورہ شریف،جانشین واحد، قمرالمشائخ حافظ القاری پیرسید احمد مصطفین حیدر شاہ گیلانی مجددی اورپیر سیّد احمدسبطین حیدر شاہ گیلانی مجددی کی انتھک قیادت میں جاری رہے گا۔اللہ رب العزت قابل فخر باپ کے ان فرمانبردار اورقابل رشک بیٹوں یعنی دونوں بھائیوں کے درمیان بے پایاں محبت ،اتفاق اور اتحادویکجہتی کی ہرنگاہ بدسے حفاظت فرمائے،(آمین)۔ عالمی چادراوڑھ تحریک نے اب تک مسلمان بیٹیوں اوربہنوں کو سواملین چادریں اوڑھائی ہیں،کسی خاتون کاچادر سے سرڈھانپنا سرورکونین حضرت محمدرسول اللہ خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآلہ واصحبہٰ وسلم کی مبارک سنت ہے،اِسلام میںمردبھی اپنا سرڈھانپ کرنمازاداکرتے ہیں ۔ دوسروں کے عیوب پر پردہ ڈالنا جبکہ قوم کی مائوں ،بہنوں اور بہو،بیٹیوں کے سروں کوڈھانپنا ہمارے سچے ربّ کو بیحد پسند ہے۔