روحانیت سے شیطانیت تک

Spirituality

Spirituality

تحریر : ممتاز ملک۔پیرس

دنیا میں ہر انسان بیک وقت دو دنیاوں کا سفر کر رہا ہوتا ہے ۔ ایک اس کی جسمانی دنیا اور ایک اس کی روحانی دنیا۔
ہر ایک کا سفر دوسرے سے جدا ہوتا ہے ۔ ہر ایک کے درجات دوسرے سے الگ ہوتے ہیں۔

بہت ممکن ہے ایک ہی ماں کی کوکھ سے جنم لینے والا ایک انسان عظمتوں کے مینارے تعمیر کر رہا ہو اور اسے لمحے میں اسی ماں کی دوسری اولاد شیطانیت کو شرمسار کر رہی ہو۔

کچھ لوگوں کا سفر دنیا خریدنے اور اسے مذید سے مذید تر اپنی جیب میں اور پیٹ میں بھرنے کے لیئے وقف ہوتا ہے ایسا انسان نہ کسی رشتے کا سگا ہوتا ہے اور نہ ہی خدا کی لکھی تقدیر کا قائل۔ اسے بدبخت بھی کہا جا سکتا ہے ۔جو اپنے رشتوں کو اپنے لیئے آہنی دیوار بنانے کے بجائے ریت کی ڈھیری میں بدل لیتا ہے ۔ اور جب بھی مٹھی کھولتا ہے خود کو خالی ہاتھ ہی پاتا ہے۔

اس عمل میں وہ شیطانی دنیا کے وہ وہ گر آزماتا ہے جو کبھی اسے شرک کا مرتکب کر دیتا ہے اور کبھی کفر کی دنیا کا فرد شمار کروا دیتا ہے ۔ وہ سمجھتا یے میری چالبازیاں میرے جادو ٹونے ، میری لمبی زبان اور میرا گندہ کردار لوگوں کو مجھ سے دہشت زدہ رکھے گا اور یہ کسی حد تک سچ بھی ہے۔ آپ نے اپنے ارد گرد ایسے بہت سے چلتے پھرتے شیطان صفت جسم دیکھے ہونگے جن پر ایک حدیث پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مفہوم سو فیصد صادق آتا ہے کہ ” ایک وقت آئے گا لوگ دوسروں کی عزت ان کے اچھے کردار اور طرز عمل کی وجہ سے نہیں کرینگے بلکہ انکے شر سے محفوظ رہنے کے لیئے کیا کرینگے ۔ ”

یہ خود ساختہ اور نام نہاد کامیاب لوگ ہوتے ہیں ۔ انکی جیب میں پیسہ تو کسی اور کا ہوتا ہے ۔ لیکن پھوں پھاں انکی زوردار ہوتی ہے ۔ یہ وہ خالی غبارے ہوتے ہیں جنہیں وقت کا بچہ جب چاہے حکم خداوندی سے پھونک مار کر پھلا لیتا ہے اور جب چاہے اسے ایک ہاتھ سے مار کر اسکا زبردست پٹاکا نکال سکتا ہے۔

دوسری جانب وہ لوگ جن کا سفر خیر کے لیئے روشنی کی لکیر کے لیئے طے ہوتا ہے ۔ وہ دل کے خالص ہوتے ہیں۔
اب ان کا نصیب کہ جسے انہوں نے اپنے نورانی منزل کا چراغ سمجھا وہ آخر میں جا کر ایک ٹرک کی بتی نکلا اور انکی راہ کھوٹی کر گیا ۔ وقت کا یہی تو اچھا پہلو بھی ہے اور برا بھی کہ یہ کبھی پلٹ نہیں سکتا سو اس شخص کے خلوص کے سفر کو کیا خاک میں ملا دیا جائے گا ؟ نور کا متلاشی کیا اندھیروں میں اتار دیا جائے گا ؟

نہیں۔۔۔ کیونکہ یہ تو رب العالمیں کی شان کے خلاف ہو جائے گا ۔ جبھی تو وہ فرماتا ہے کہ انما الاعمال بالنیات ۔ یعنی اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔ اور یہی بات اس نیک فطرت انسان کی روحانی سربلندی اور ذہنی سکون کے لیئے آب حیات کی سی حیثیت رکھتی ہے ۔ ایسے لوگ بے سکون نہیں ہوتے۔ ہار کر بھی مطمئن ہوتے ہیں کہ ابدی جیت کا وعدہ تو ازلی سے ابدی تک کے مالک نے خود ان سے کر رکھا ہے اور بیشک اس سے بڑا کون ہے اپنے وعدوں کو وفا کرنے والا ، حکومت کرنے والا اور راہنمائی فرمانے والا ۔ انتظار اور یقین کا یہ سفر بیحد صبر آزما تو ہے لیکن بے ثمر کبھی نہیں ہوتا ۔ اسی کو ایمان کہتے ہیں۔

Mumtaz Malik

Mumtaz Malik

تحریر : ممتاز ملک۔پیرس