تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی روحانیت تصوف کی پراسرار وادی میں ہر اگلے قدم پر نیا موڑ نئی آزمائش اور تزکیہ نفس سے واسطہ پڑتا ہے ‘مرشد مرید کا تعلق کچے دھاگے کی مانند ہوتا ہے ‘مرید ساری عمر اِس تعلق کو نبھانے کی کوشش اپنی جان سے بڑھ کر کرتا ہے ‘مرید کی سانسیں مرشد کے دیدار سے چلتی ہیں ‘کسی بھی مرید کا کل اثاثہ مرشد کی رضا ہوتا ہے مرید ساری عمر اِس متاع حیات کی حفاظت کرتا ہے اور اگر کبھی یہ متاع حیات یا کچا دھا گہ ٹوٹنے کا جواز پیدا ہو جائے تو مرید کی جان لبوں تک آ جاتی ہے ‘سانسیں رکنے کے ساتھ نبض کائنات بھی تھم جاتی ہے ارباب علم و دانش خوب جانتے ہیں جب شہنشاہ ِ پاک پتن حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کسی بات پر جب نظام الدین اولیاء سے ناراض ہو گئے گفتگو بند کر دی تو حضرت نظام الدین اولیا ء کے لیے زندگی اندھیر نگری میں تبدیل ہو گئی جدائی کا کر ب جب حد سے بڑھ گیا تو خودکشی تک کا سوچنے لگے کیو نکہ مرشد کے بغیر زندگی کے سارے رنگ پھیکے پڑھ گئے تھے تا ریخ کے اوراق میں ایک اور بھی واقع ملتا ہے جب مشہور صوفی منصور حلاج جیسا جلیل القدر درویش مرشد کی نا راضگی کی زد میں آگیا حضرت منصور حلاج دنیا جہا ں سے علم سیکھ کر حضرت جنید بغدادی کے آستا نہ پر حاضر ہو ئے ایک دن جنا ب شیخ جنید بغدادی جلوہ افروز تھے کہ منصور حلاج اپنے مرشد سے سوال جواب شروع کر دئیے دوارن گفتگو سوال کر تے ہو ئے آواز بلند ہو ئی لہجہ ایسا تھا کہ سوال کی بجا ئے منصور حلاج اپنے مرشد پر اپنی علمی بر تری ثابت کر نا چاہتے تھے کہ میرے پا س بہت علم ہے گفتگو جب زیاد ہ بڑھ گئی تو شیخ جنید بغدادی کو بو لنا پڑا کہ منصور تم مجھ سے علم سیکھنے آئے ہو کہ مجھے سکھانے یا میرا امتحا ن لینے ‘اب منصور حلا ج کو فوری معذرت کر نی چاہیے تھی یا پھر مرشد کریم کے دل کو صاف کر نا چاہئے تھا لیکن منصور نے ایسا نہیں کیا اور بے نیاز انہ انداز سے اُٹھ کر چلے گئے اِسطرح مرشد مرید کا کچا دھاگا ٹو ٹ گیا اور پھر منصور اُس کے بعد کسی بھی مجلس میں سکو ن سے نہ بیٹھ سکے اضطراب وحشت دیوانگی جنون حد سے بڑھ گیا سکو ن نشہ اُن سے روٹھ گیا اور پھر آخر سولی پر لٹکا دئیے گئے۔
مرید ہمیشہ مرشد کی رضا کی جستجو میں لگا رہتا ہے اُس نا زک مو ڑسے بچتا ہے جب اُس کا مرشد اُس سے نا را ض ہو جائے ۔ یہی نا زک کٹھن مو ڑ تا ریخ تصوف کے سب سے انو کھے لا ڈلے خدا مست بے نیاز صوفی حضرت بلھے شاہ کی زندگی میں بھی آیا جب بلھے شاہ کے مرشد جناب حضرت عنایت قادری بلھے شاہ سے ناراض ہو گئے تذکرہ نگاروں نے اِس واقعہ کو خو ب بیان کیا ہے لیکن تصوف کا ادنیٰ طا لب علم ہو نے کے نا طے میں یہ گزارش کروں گا کہ حضرت عنایت قادری جانتے تھے کہ بلھے شاہ گناہ گار نہیں ہے اور نہ تکبر اورغرور کا شکا ر ہوا ہے لیکن کیو نکہ حا سدین اور منکرین روحانیت بار بار بلھے شاہ اور حضرت عنایت قادری کے لازوال رشتے کو داغدار کرنا چاہتے تھے یا حضرت عنایت قادری لوگوں کو دکھا نا چاہتے تھے کہ بلھے شاہ نہ بدلا ہے اور ہی تکبر غرور میں مبتلا ہوا ہے اِس لیے وقتی نا راضگی لے لی اِس کے بعد ہی تو وہ واقعہ پیش آیا کہ بلھے شاہ مرشد مرید کے تعلق میں سب سے منفرد اور نما یاں نظرا تے ہیں مرشد کو منا نے کے لیے بلھے شاہ نے جو طریقہ یا انداز اپنا یا اُس سے بلھے شاہ قیامت تک کے لیے امر ہو گئے۔
جب بلھے شاہ کے مرشد نا راض ہو گئے تو بلھے شاہ نے باربار در پر غلا موں کی طرح کھڑے ہو کر معافی کی اجازت چاہی سفارشیں کرائیں لیکن جب با ت نہ بنی تو انگا روںپر لو ٹنے لگے جب ہر طرف انکار اورما یو سی کا اندھیر ا گہرا ہو نے لگا تو اچانک روشنی کی کرن پھوٹی کہ حضرت عنایت قادری کے مرشد جناب حضرت شیخ محمد غو ث گو الیا ری کے مزار پر انوار پر جا کر سفارش کرائی جا ئے حضرت محمد غو ث گوا لیا ری مغل با دشاہ اکبر کے دور کے مشہور صوفی گزرے ہیں آپ کا تعلق شطا ریہ سلسلے سے تھا آپ پرہر وقت جذب و سکر مستی کا غلبہ رہتا ‘دنیا سے بے رغبتی کا یہ عالم با د شاہ بھی آجاتا تو ملنے سے انکار کر دیتے ‘دنیا سے بے نیاز خدا سے بے پنا ہ عشق اور پھر خدا ئے لا زوال نے اپنے عشق کا انعا م ایک بڑی کرامت کے طور پر دیا کہ قیا مت تک تاریخ کے ما تھے پر جھو مر بن کر چمک گئے آپ کی مجلس میں ایک غریب ہندو لڑکا بھی آپ کا وعظ سننے آتا تھا اِس لڑکے کو بچپن سے ہی مو سیقی اورگا نے کا بہت شوق تھا قدرت نے بہت سریلی آواز سے نوازا تھا اُس دور میں مو سیقی امیروں کا شغل تھا لڑکا چونکہ بہت غریب تھا مو سیقی سے قلبی لگا ئو کی وجہ سے مو سیقی سمجھنے والوں کے پاس گیا لیکن کسی نے بھی گھاس نہ ڈالی بلکہ اُسے مشورہ دیا جا تا کہ یہ تو راجوں شہزادوں کا شوق ہے تم اپنی دال روٹی پو ری کرلو تو بڑی با ت ہے’ ہر دور میں غریب کو کو ئی پا س نہیں بیٹھنے دیتا یہ صوفیا کرام ہی ہیں جن کا آنگن محبت پیا ر کا آنگن ہوتا ہے زما نے کے ٹھکرائے ہو ئے ستا ئے ہو جب اِن خا ک نشینوں کے پاس آتے ہیں تو یہ چشمہ فیض وا کر نے کے ساتھ ساتھ ایسے لا چاروں بیچاروں کو گلے سے لگاتے ہیں۔
اپنے دستر خوان پر اپنے ہا تھ سے نوا لے بنا کر لا چاروں کے منہ میں ڈالتے ہیں یہ لڑکا جہاں بھی جا تا لو گ اُسے دھکے دیتے ٹھکراتے تو یہ حضرت محمد غو ث گوا لیا ری کے در پر آجا تا جہاں روحانی تسکین کے ساتھ ساتھ پیٹ کی آگ بھی بجھ جاتی تھی اب یہ لڑکا ایک تو درویش کے آستا نے پر مسلسل حاضری دیتا اور دوسرا مندروں میں جا کر پجا ریوں کے بھجن سنتا پھر اُن کو نقل کر تا یہ گلیوں با زاروں میں گا تا پھر تا قدرت نے سریلی آواز سے نواز رکھا تھا جو سنتا گھر سے نکل آتا اور اِس لڑکے کی سحر انگیز آواز کے سحر میں ڈوب جاتا ایک دن حضرت شیخ غو ث محمد نے اِس لڑکے سے پو چھا تم ہندو ہو کر یہاں کیوں آتے ہو تو لڑکا بو لا جناب مجھے آپ کی با تیں بہت اچھی لگتی ہیں شیخ صاحب نے پو چھا تم کیا کر تے ہو تو بو لا جناب گا تا ہوں شیخ بو لے ہمیں بھی سنا ئو پھر لڑکے نے سریلے انداز میں بھجن گا یاتو حا ضرین سرور لینے لگے جناب شیخ نے آواز پسند کی اور کہا آج سے تمہا ری پرورش خرچہ میرے ذمہ جا ئو مو سیقی کے اساتذ ہ سے یہ فن سیکھو میں خرچہ دوں گا۔
اِسطرح یہ لڑکا مو سیقی کی تعلیم لینے لگا خدا نے بے پنا ہ صلا حیتوں سے نوازا ہوا تھا جیسے ہی اساتذہ نے پا لش کیا ٹیلنٹ نکھر کر سامنے آیا تو دنیا آواز سن کر جھو منے لگی خدا کا احسان اور درویش کی نظر کام کر گئی آواز کیا تھی طلسم ہو شربا تھا جو سنتا وجد میںآکر جھو منے لگتا ۔ شہرت پھیلتے پھیلتے دربار اکبری تک پہنچ گئی با دشاہ کے نو رتنوں میں شامل ہوا جب ہندو ستان میں شہرت کے آسمان پر آفتاب بن کر چمکنے لگا تو مرشد کے قدموں میں بیٹھ کر نو ر ایما نی سے خو د کو رنگ لیا مسلمان ہو گیا ۔ ہندوئوں نے بہت شور مچایا کہ زبردستی مسلمان کیا گیا تو ہزاروں لوگوں کی مو جودگی میں اعلان کیا کہ میں نے پو رے ہوش و حواس میں اسلام قبو ل کیا ہے یہ جناب غو ث محمد مرشد سرکار کی اک نظر کا کما ل ہے کہ کروڑوں جھو ٹے بتوں کو چھو ڑ کر خدا ئے لا زوال کے ماننے والوں میں شامل ہوا امیری شہرت ایمان زندگی فن سب مرشد کے قدموں کی خا ک کا صدقہ ہے یہ لڑکا قیا مت تک کے لیے تان سین مسلمان ہو نے کے بعد میاں تان سین مشہور ہوا دنیا تان سین کو شہنشاہ ِ مو سیقی کے طو رپر جا نتی ہے یہ بھی مر شد کی صحبت کا نتیجہ تھا ۔ شہرت اور دربا ر اکبری میں سرداری ملنے کے بعد تان سین مر شد کریم کے قدموں میں حاضری دیتے رہے ساری زندگی تو مرشد کے قدموں کو چومتے رہے مر نے کے بعد بھی مرشد کریم کے احا طے میں مر شد کے قدموں میں مٹی کی چادر اوڑھی تان سین نے مرنے کے بعد بھی مرشد کے قدموں سے دوری گوارا نہ کی۔