کرپشن، چور بازاری اور لوٹ مار کی داستانیں سن سن کر اور پھر لکھ لکھ کر اب تو یہ محسوس ہورہا ہے کہ ہم بھینس کے آگے بین نہیں بجا رہے بلکہ کسی گدھے کے آگے ناچ رہے ہیں بھینس تو پھر بھی دن میں دو بار دودھ دے ہی دیتی ہے بیشک ٹیکہ لگوا کر ہی دے اور گدھے نے اپنی منحوس آواز سنا کر آپ کو مزید پریشان کر دینا ہوتا ہے سمجھ نہیں آتی کہ کس کو لوٹ مار کی کہانیاں سنائیں کیا پورے پاکستان میں ایک بھی ایسا مخلص، ہمدرد اور محب وطن موجود نہیں جو ملکی دولت لوٹنے والے چوروں کو انکے منہ پر چور ہی کہہ دے اور تو اور جن کا حق کھایا جارہا ہے وہ بھی گونگے اور بہرے بنے بیٹھے ہیں ان میں بھی اتنی جرئات اور سکت نہیں ہے کہ وہ اپنا حق چھین لیں مگر ناجانے پوری قوم خاموشی سے ان لٹیروں کا تماشا کیوں دیکھ رہی ہے۔
میں نے اپنے پچھلے کالم میں واپڈا میں اربوں روپے کی کرپشن سے پردہ اٹھایا تھا مگر سوائے مایوسی کے کچھ پلے نہیں پڑا مختلف اداروں بلخصوص واپڈا کے وزیر اور چیئرمین کی طرف سے بھی خاموشی کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے جس طرح واپڈا سمیت باقی تمام محکموں میں کرپشن کے ریکارڈ قائم ہو رہے ہیں وہیں پر سپورٹس بورڈ پنجاب بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے اور ایسے لگتا ہے کہ جس طرح انہوں نے پچھلے سال جوگینز بک آف ورلڈ ریکارڈ ترتیب دیا تھا اور جو ابھی تک مکمل نہیں ہو رہا (اگر اسکی تفصیلات منظر عام پر آ گئی تو ملک کی بدنامی ہوگی)اسی طرح یہاں کے افسران کرپشن میں بھی ورلڈ ریکارڈ بنانے میں مصروف ہیں جبکہ اربوں روپے کی کرپشن کرنے والوں نے آڈٹ بھی اپنی مرضی سے کروا لیا اگر ان سب حقیقتوں سے کوئی ادارہ یا شخص پردہ اٹھانا چاہے تو صرف سپورٹس بورڈ پنجاب کا سپیشل آڈٹ پاکستان آرمی سے کروا لیا جائے تو سب کچھ کھلی کتاب کی صورت میں سامنے آ جائیگا میں اپنے پڑھنے والوں پر یہاں ایک بات واضح کرتا چلوں سپورٹس بورڈ پنجاب میں کوئی بھی مستقل ملازم نہیں رکھا جا سکتا مگر بوقت ضرورت 89 دنوں کے لیے عارضی ملازم رکھے جا سکتے ہیں مگر یہاں پر ڈائریکٹوریٹ جنرل کے متبادل سپورٹس بورڈ میں بھی تعیناتیاں کر دی گئی۔
Punjab Sports Board
حالانکہ جب کسی محکمہ میں نئی بھرتیاں کی جاتی ہیں تو سب سے پہلے SNE بنتا ہے اسکے بعد بل اسمبلی میں پیش ہوتا ہے جہاں سے پاس ہونے کے بعد پھر فنانس ڈویژن کو چلا جاتا ہے اور وہاں سے بجٹ پاس ہونے کے بعد اخبار میں متعلقہ پوسٹوں کی تشہیر کی جاتی اسکے بعد پھر ٹیسٹ اور انٹرویو کا مرحلہ آتا ہے پھر کہیں جاکر بھرتی کا عمل مکمل ہوتا ہے سپورٹس بورڈ پنجاب کا باوا آدم ہی نرالا ہے یہاں پر جس کو جب جی چاہا رکھ لیا اور تواور یہاں کے نائب قاصد، ڈرائیور اور ہوسٹل انچارج کی اتنی تنخواہیں ہیں کہ ایک بڑا سرکاری افسر بھی شائد اتنی تنخواہ نہ لیتا ہو جبکہ سپورٹس بورڈ میںکسی بھی عارضی ملازم کی ترقی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مگر یہاں پر نہ صرف کنفرم ملازم کام کررہے ہیں بلکہ انہیں ہر سرکاری ملازم کی طرح سہولیات بھی میسر ہیں سب سے اہم اور خاس بات یہ ہے کہ سپورٹس بورڈ کو ملنے والا فنڈ کسی بھی صورت میں ملازمین پر خرچ نہیں ہو سکتا خواہ وہ تنخواہ کی مد میںہو یا مراعات کی صورت میں سپورٹس بورڈ کا پیسہ صرف اور صرف کھلاڑیوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کے لیے ہوتا ہے مگر یہاں پر اس معاملہ میں بھی الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔
کھلاڑی بیچارے پیسے کو ترس رہے ہیں اور کھلاڑیوں کے نام پر اناڑی لوٹ مار میں مصروف ہیں یہاں ایک مزے کی بات یہ ہے جسے سن کر میں بھی حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکا کہ چیف سیکریٹری آفس اور کمشنر آفس کے درجہ چہارم کے پانچ ملازموں نے بھی سپورٹس بورڈ پنجاب کو نانا جی کی حلوائی کی دوکان سمجھ رکھا ہے ان میں سے ایک موصوف ایسا بھی ہیں جس نے نئے ماڈل کی چار گاڑیاں بھی خرید رکھی ہیں اور پھر ان پر سرکاری نمبر پلیٹ لگا کر سرکاری پیٹرول کھلے عام استعمال کر رہا ہے جبکہ اسی لوٹ مار سے اس درجہ چہارم کے ملازم نے اپنا گھر کسی بہت بڑے نواب کی طرح محل نما بنایا ہوا ہے۔
سونے کا انڈہ دینے والے اس محکمہ کے وزیر جناب رانا مشہود جب پچھلی حکومت میں ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی تھے تو اس وقت کھانے کے جعلی بلوں کی مد میں لاکھوں روپے خرد برد کرلیے گئے تھے اور اب تو سپورٹس بورڈ میں اربوں روپے کے فنڈز ہیں اور یہاں پر تعینات ہر فرد اپنا حصہ بقدر جثہ لے رہا ہے حیرت اس بات پر نہیں کہ یہاں پر ہرسرکاری ملازم کھل کر لوٹ مار کررہا ہے اور اپنی ہی قوم کا مال مال غنیمت سمجھ کر دونوں ہاتھوں سے اکٹھا کرنے میں مصروف ہے۔
حیرت اس بات پر ہے کہ جن کے حق پر ڈاکہ پڑ رہا ہے وہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور اپنے ہی پیسوں کی بھیک ان ڈاکوئوں سے مانگ کر اپنی آنے والی نسلوں کو بھی ان کے ہاں گروی رکھ رہے ہیں کیا انگریزوں کی غلامی سے نجات پانے کے بعد ان کالے انگریزوں کی غلامی سے بھی ہم نجات پا سکیں گے،،،؟؟؟