بسنت منانے میں روزگار کے نئے مواقع

Basant

Basant

تحریر : محمد صدیق پرہار

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ بسنت خالصتاً ایک ثقافتی، معاشرتی اورروایتی تہوار ہے۔ اسے قطعاً کسی خاص مذہب سے جوڑنا درست نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ لاہور کی سول سوسائٹی سمیت ثقافتی حلقوں اورشہریوں کی طرف سے بسنت کا تہوار منانے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔بسنت کوشایان شان طریقے سے منانے اور کیمیکل ڈورسمیت دیگرمعاملات کاجائزہ لینے کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب نے آٹھ رکنی کمیٹی بنادی ہے۔جس میں صوبائی وزیراطلاعات، وزیرقانون ،آئی جی پنجاب، سیکرٹری اطلاعات وثقافت سمیت سول سوسائٹی اورمیڈیاکے نمائندہ ارکان شامل ہیں۔یہ کمیٹی تمام امور کا جائزہ لے کرایک ہفتہ میں اپنی سفارشات وزیراعلیٰ پنجاب کوپیش کرے گی۔اوران سفارشات کی روشنی میں وزیراعلیٰ بسنت کومنانے کی حتمی منظوری دیں گے۔

وفاقی وزیراطلاعات ونشریات چوہدری فوادحسین نے بسنت کاتہواردوبارہ منانے کے پنجاب حکومت کے فیصلے کاخیرمقدم کیا ہے۔ وزیراطلاعات نے اپنے ٹویٹ پیغام میںکہا کہ عثمان بزداراورپنجاب حکومت اس اہم فیصلے پرمبارکبادکے مستحق ہیں۔ واہ بھائی واہ کیاکہنے وزیراطلاعات کے۔ بسنت منانے کے اعلان پر مبارکباد دینے سے یہ آسانی سے سمجھاجاسکتا ہے کہ وزیراطلاعات کو عوام کے جان ومال کی حفاظت کاکتنا خیال ہے اوراس سے یہ بھی سمجھاجاسکتا ہے کہ عوام کے جان ومال کی حفاظت ترجیح ہے یاکچھ اور۔ ایک قومی اخبارمیں اس حوالے سے ایک رپورٹ یوں شائع ہوئی ہے کہ صوبائی دارالحکومت لاہورمیں بسنت کا تہوار آٹھ سال بعدپہنچایاجائے گا۔

آخری مرتبہ یہ تہوارسال دوہزارنومیںمنایاگیا۔دھاتی وکیمیکل ڈوراورہوائی فائرنگ سے ہونے والی ہلاکتوں اورعوامی دبائوکی وجہ سے رنگوں کے اس تہوارپرپابندی لگادی گئی تھی۔گزشتہ سالوںمیںمتعددبارپنجاب حکومت ،نگران حکومت اورہائی کورٹ سے بسنت منانے کی اجازت طلب کی گئی لیکن درخواستیں ردکی جاتی رہیں کیونکہ بدلتے موسم کایہ تہوارموت کاتہواربن چکاتھا۔تاہم گزشتہ برس صوبائی وزیرتعلیم رانامشہوداحمدخان نے کمیٹی کی سفارشات کے بعدبسنت فروری سال دوہزاراٹھارہ منانے کااعلان کیاتھا جس کے لیے شہرکے اندراورباہرمقامات مخصوص کیے جانے تھے۔بسنت منانے کے اعلان کے بعدایک طرف لاہور،گوجرانوالہ اورروالپنڈی میںموجودپتنگوں اورڈورکے کاروبارسے منسلک دکاندارخوشی سے نہال ہوگئے تودوسری جانب خوف کی لہربھی دوڑگئی۔ایک قومی اخبارسے گفتگوکرتے ہوئے لاہوربسنت فیسٹول کے آرگنائزرذوالفقارعلی شاہ نے بسنت منانے کے حکومتی اعلان کوخوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے شکارعوام کوتفریح میسرہوسکے گی۔

ایسی سوچ کوخراج تحسین پیش کرناچاہیے جوخونی تہوارکوتفریح کانام دے رہی ہے۔ ایسے لوگوںکوصرف اورصرف تفریح چاہیے چاہے وہ پتنگوں کی قاتل ڈوریں زندگی کی ڈوریں کیوںنہ کاٹ دیں۔دہشت گردی کے ستائے عوام کی تفریح کے لیے کیاصرف خونی تہواربسنت ہی رہ گیاہے۔اس پتنگ بازی کے بغیربھی عوام کوتفریح فراہم کی جاسکتی ہے۔ان کاکہناہے کہ روزگارکے نئے مواقع پیداہوں گے۔ روزگارکے نئے مواقع پیداہوں گے یازندگیاں ختم کرنے کے نئے مواقع پیداہوں گے۔ ایساروزگارجس سے انسانی زندگیاں خطرے سے دوچارہوجائیں وہ روزگارنہیں بلکہ خونی روزگارہوتاہے۔ایسے روزگار جس کی وجہ سے انسانی زندگیاں ضائع ہوجائیں اس کے ذمہ دار ایسا روزگار کمانے والے، ایسے روزگارکی اجازت دینے والے اورایسے روزگارسے چشم پوشی کرنے والے بھی ہواکرتے ہیں۔

اگرروزگارکوجوازبناکرزندگی کی ڈوریں کاٹنے والی پتنگ بازی کی اجازت دے دی جائے توایسے تمام کاموںکوکرنے کاجوازپیداہوجائے گاجن کاموں سے کسی کوبھی معمولی سافائدہ ہورہا ہو۔روزگارکاجوازبناکرانسانی زندگیوں کی ڈوریں کاٹنے والی پتنگ بازی کی اجازت دے دی جائے تو ایسے تمام کاموںکاجوازبھی روزگاربن جائے گا جن کاموںپرانسانیت کے لیے خطرناک ہونے کی وجہ سے پابندی ہے۔اسی جوازکومدنظررکھتے ہوئے جعلی ادویات، جعلی دودھ، جعلی چائے کی پتی، جعلی مرچیں، جعلی گھی، جعلی مشروبات سمیت تمام جعلی چیزیں بنانے اورفروخت کرنے والوں کوبھی ان کے کاموں کی عام اجازت ہونی چاہیے۔ جعلی چیزیں بنانے ، فروخت کرنے اورسپلائی کرنے والوں کے پاس بھی بہت سے لوگ کام کرتے ہیں اورروزگارکماتے ہیں۔جعلی چیزیں تیارکرنے والے ایک دوافرادنہیںہوتے بلکہ ان کی بھی ایک ٹیم ہوتی ہے۔جعلی چیزیں تیارکرنے اور فروخت کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے اورجعلی چیزیںبنانے کے اڈے یافیکٹریاں بندہونے سے بہت سے افرادبے روزگارہوسکتے ہیں۔ اس لیے ایک طرف روزگارکے نئے مواقع فراہم کرنے کے لیے پتنگ بازی کی اجازت کوخوش آئندقراردیاجاسکتا ہے تواسی زاویہ سے جعلی چیزیں بنانے اورفروخت کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی مذمت بھی کی جاسکتی ہے۔

ایک طرف روزگارکے مواقع فراہم کرنے کے لیے آٹھ سال سے بند تہوار کو منانے کی اجازت دی جائے اوردوسری طرف جعلی چیزیں تیارکرنے اور فروخت کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرکے ان سے روزگارچھین لیاجائے تویہ دوغلی پالیسی کہلائے گی۔ روزگارکاجوازبناکر زندگی کی ڈوریںکاٹنے والی پتنگ بازی کی اجازت دے دی جائے توایسے تمام کاموں کاجوازبھی روزگاربن جائے گا جوملاوٹ کرتے ہیں۔اس کے علاوہ بھی بہت سے ایسے کام ہیں جن کی روزگارکاجوازبناکراجازت دی جاسکتی ہے۔ان کاکہناہے کہ اس ضمن میں تمام سٹیک ہولڈرزکواعتمادمیں لے کرحفاظتی اقدامات کویقینی بنانے کے لیے قانون کی سختی سے عملداری کویقینی بنانے کی ضرورت ہے۔حفاظتی تدابیرکے طورپرپتنگ کے دوسائزمقررکیے جائیں گے اورڈورکے لیے آٹھ پلائی دھاگااستعمال کیاجائے۔نائیلوں کی باریک ڈوری پرمانجھالگانے پرپابندی کویقینی بنایاجائے کیونکہ یہ آسانی سے نہیں ٹوٹتی اوراس کے پھرجانے سے موٹرسائیکل سواروں کے گلے کٹ جاتے ہیں۔پتنگ بازی کے لیے چرخی کی بجائے پٹہ استعمال کیاجائے موٹرسائیکل سواروں اورسڑکوں پر پیدل چلنے والوں کوتیزدھارڈورسے بچانے کے لیے شہرکی بتیس بڑی سڑکوںپرایکس ٹائپ تارلگائے جائیں تاکہ ڈورنیچے نہ آسکے اورموٹرسائیکل سواروںکوسیفٹی کالراورانٹینازکے استعمال کاپابندبنایاجائے۔لاہوربسنت فیسٹوہل کے آرگنائزر کابسنت منانے کے اعلان کوخوش آئندقراردیتے ہوئے کہناہے کہ اس سے روزگارکے نئے مواقع میسرآئیں گے۔

انہوں روزگارکے نئے مواقع کی تفصیلات بھی بتادی ہیں۔ بسنت منانے کے لیے لوگ ڈھیروں پتنگ اورڈورخریدیں گے۔ پتنگ اورڈورکی بڑھتی ہوئی طلب کی وجہ سے بہت سے لوگ پتنگ اورڈوربنانے اورفروخت کرنے میںمصروف ہوجائیں گے، اس طرح ایسے لوگوں کو روزگارکے نئے مواقع میسرآئیں گے۔چرخی اورپٹہ بنانے اورفروخت کرنے والے بھی روزگارکے نئے مواقع سے خوب فائدہ اٹھاسکیں گے۔سیفٹی کالر اور انٹیناز بنانے والے بھی روزگارکے نئے مواقع سے مستفیدہوسکیں گے۔روزگارکے ایسے مواقع بھی ہیںجوآرگنائزرنے نہیںبتائے اوراس تحریر میں لکھے بھی نہیں جا سکتے ۔ روزگارکے ایسے نئے مواقع گلے پرڈورپھرنے اورگردنیںکٹ جانے یازخمی ہوجانے کے بعدپیداہوں گے۔ڈورپھرجانے کی وجہ سے موٹرسائیکل کے حادثات بھی ہوسکتے ہیں۔ موٹرسائیکلوں کے نقصان بھی ہوسکتے ہیں۔ اس سے موٹرسائیکلوں کی مرمت کرنے والوںکوروزگارکے نئے مواقع میسرآئیں گے۔ لوگ قاتل ڈورسے بچنے کے لیے کم مسافت کے راستے کوچھوڑ کرزیادہ مسافت والے محفوظ راستے اختیارکرسکتے ہیں۔ اس سے تیل زیادہ خرچ ہوگا یوں تیل کے کاروبارسے وابستہ افرادکوروزگارکے نئے مواقع میسرآسکیں گے۔

روزگار کے نئے مواقع کی یہ تفصیل صرف اورصرف اس لیے لکھی جارہی ہے تاکہ یہ احساس دلایاجاسکے کہ پتنگ بازی کتنی خطرناک ہے ۔یہ تفصیل اس لیے بھی لکھی گئی ہے تاکہ بسنت کی اجازت دینے والوںکواحساس ہوجائے کہ وہ کتنے خطرناک کام کی اجازت دے رہے ہیں تاکہ وہ اپنافیصلہ واپس لینے میں کسی الجھن کاشکارنہ ہوجائیں۔جہاں تک حفاظتی اقدامات کا تعلق ہے اس سے یہ بات توواضح ہوتی ہے کہ بسنت منانے کوخوش آئندقراردینے والوںکویہ احساس تو ہے کہ پتنگ بازی کتنی خطرناک ہے اورانہیں انسانی جانوں کے ضائع ہونے کاخوف بھی ہے۔ مگرنہ جانے کیوں وہ یہ سب کچھ جانتے اورسمجھتے ہوئے اس خطرناک کام کی حمایت کررہے ہیں۔ یہ حفاظتی اقدامات اس سے پہلے بھی کیے جاتے رہے ہیں۔ ہرایک کے پاس نہ اتنا وقت ہوتا ہے اورنہ ہی سرمایہ کہ سیفٹی کالراورانٹیناخریدسکے۔ یہاں یہ سوال کیاجاسکتا ہے کہ دونوں چیزوں کی قیمت اتنی ہوتی ہے کہ ہرشخص آسانی سے خریدسکتا ہے ۔ یہ بھی کہاجاسکتاہے کہ جان کی حفاظت کے لیے پیسے کونہیں دیکھاجاتا۔ اس کاجواب یہ ہے کہ یہ ہمارے معاشرے کاکلچربن چکا ہے کہ جس چیزکی طلب بڑھ جاتی ہے اورجس چیزکوخریدنے کے لیے لوگ مجبورہوتے ہیں اس چیزکی قیمت کئی گنابڑھادی جاتی ہے۔

سردیوں میں گیس کی قیمت بڑھادی جاتی ہے اس لیے کہ سردیوں میںگیس زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ یہ سب اقدامات کرنے سے کیایہ بہترنہیںہوگا کہ بسنت منانے پرپابندی کوبرقراررکھاجائے اس سے عوام بھی محفوظ رہیں گے اوراتنے اقدامات بھی نہیںکرنے پڑیں گے۔ ایک طرف توحکومت بچت پروگرام پرعمل کررہی ہے اوردوسری طرف پتنگ بازی جیسی فضول خرچیوںکی اجازت بھی دے رہی ہے۔ پنجاب حکومت کی جانب سے بسنت منانے کے اقدام کوصفدرشاہین پیرزادہ ایڈووکیٹ نے لاہورہائی کورٹ میں چیلنج کردیا ہے ۔ درخواست گزارنے موقف اختیارکیا کہ بسنت خونی کھیل کی شکل اختیارکرگیاتھا جس کی وجہ سے پابندی لگائی گئی تھی۔حکومت عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے خونی کھیل کی اجازت دے رہی ہے۔ ڈورپھرنے کے واقعات سے بے شمارقیمتی جانیں ضائع ہوئیں عدالت حکومت کی جانب سے بسنت منانے کی اجازت دینے کااقدام کالعدم قراردے۔ادھربسنت پرپابند ی ختم کرنے کے حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب اوروزیرقانون کوشہری خلیل حنیف نے اپنے وکیل مدثرچوہدری کی وساطت سے لیگل نوٹس ارسال کیاہے۔نوٹس کے متن میںکہاگیا کہ حکومت پنجاب پندرہ دنوںمیں اپنابیان واپس لے ورنہ ہائی کورٹ اورسپریم کورٹ سے رجوع کیاجائے گا۔بسنت ایک خونی کھیل ہے جس پرسپریم کورٹ آف پاکستان نے پابندی لگائی۔خونی کھیل میں کئی معصوم جانیںضائع ہونے کاخطرہ ہے ۔ دوسری جانب پنجاب اسمبلی میں بسنت منانے کے فیصلے کے خلاف مسلم لیگ ن کی رکن اسمبلی کی جانب سے جمع کرائی گئی قراردادمیںکہاگیا ہے کہ بسنت منانے کافیصلہ غیردانش مندانہ ہے سپریم کورٹ ازخودنوٹس لے۔حفاظتی اقدامات کے طورپرتارپرمانجھالگانے، سیفٹی کالراورانٹینازکے استعمال کی پابندی کی تجویزتودے دی گئی ہے۔ یاددہانی کے طورپرلکھاجارہا ہے کہ پتنگ بازی میں انسانی جانوںکانقصان صرف ڈورپھرنے سے نہیںہوتا بلکہ پتنگ پکڑنے، پتنگ لوٹنے کے دوران بھی حادثات ہوجاتے ہیں۔آنکھوں دیکھا واقعہ ہے کہ دس گیارہ سال کاایک بچہ پتنگ پکڑنے کے چکرمیں ٹرین سے ٹکرانے سے بال بال بچا۔ ٹرین کی ٹکر اوراس بچے کے درمیاں تین سے چارفٹ کافاصلہ رہ گیاتھا کہ بچے کو بچا لیا گیا۔

Muhammad Siddique Prihar

Muhammad Siddique Prihar

تحریر : محمد صدیق پرہار