تحریر : فاطمہ خان ان دنوں میرے شہر لاہور میں بہار اپنے جوبن پر ہے اور شہر کی مختلف شاہراوں پر سجے ہنستے مسکراتے پھول ایک الگ ہی منظر دکھاتے نظر آتے ہیں. شہباز شریف اور اُن کی پالیسیوں سے میں جتنا مرضی اختلاف کر لوں مگر لاہور کی خوبصورتی کے معاملے پر اُن کو نہ سراہنا زیادتی ہو گی.
اُب شہر میں جس طرح کی جدت نظر آتی ہے اُس سے اس کا موازنہ ہم کسی بھی ترقی یافتہ شہر سے کر سکتے ہیں. گو کہ پرانا لاہور اب خواب ہو چکا ہے اور کبھی کبھی ہم اُس پرانے لاہور کو بہت یاد بھی کرتے ہیں جس کی کھلی سڑکوں پر پیدل چل کر ایک عجیب سی خوشی محسوس ہوتی تھی مگر اب تو لاہوری اس جدت کے عادی ہوتے جا رہے ہیں.
خیر بات ہو رہی تھی آمد,بہار کے رنگوں کی جو ان دنوں ہر طرف اُڑتے پھرتے نظر آتے ہیں.آمد بہار پر جشن منانے کی روایت نئی نہیں ہے قدیم یونانی ,مصری خزاں کے بعد پھول کھلنے کے موسم میں مختلف طریقوں سے خوشیاں منا,کر بہار کا استقبال کیا,کرتے تھے اور پارسی برادری کا جشن نوروز بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے پھر عیسائی برادری اپنا ایسٹر کا تہوار بھی بہار کے موسم میں ہی مناتی پے.
Spring Season
اسی موسم بہار میں اگر کوئی خزاں رسیدہ خبر سننے کو مل جاےُ تو بہار کی ساری خوبصورتی ایک طرف ہو جاتی ہے اور دل کے اندر دور تلک خزاں ڈیرے ڈال کر بیٹھ جاتی ہے اور ویسے بھی کہاجاتا ہے کہ موسموں کا تعلق تو آپ کے اندر سے ہوتا ہے من خوش تو سب خوش اور جب من اُداس ہو سب اداس نظر آتا ہے.میری والدہ اکثر ایک شعر پڑھتی ہیں جو صیحیح معنوں میں اس کیفیت کی عکاسی کرتا ہے.
مطمعن دل ہو تو ویرانے بھی بن جاتے ہیں گیت دل اُجڑ جاےُ تو شہروں میں بھی تنہائی بہت
اسی بہار کے موسم میں کچھ عزیز دوستوں کو اپنی والدہ سے دائمی جدائی کا صدمہ برداشت کرنا پڑا اور اُن کے اندر کی دنیا ویران ہو گئی.موت بلاشبہ ایک اٹل حقیقت ہے اور جو روح اس دنیا میں آئی ہے اُسے لازماً موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور کسی ذی روح کا اس سے فرار ممکن نہیں ہے اور پھر ماں اور بیٹی کا تو رشتہ ہی بہت خوبصورت ہوتا ہے.
ماں کی محبت کا موازنہ تو خدا تعالیٰ نے اپنی محبت سے یہ کہہ کر کیا ہے کہ میں تمھہں ستر ماوُں سے زیادہ محبت کرتا ہوں اس سے بڑی ماں کی محبت کی مثال کیا ہو گی.
میں اپنی ان دوستوں کے غم میں برابر کی شریک ہوں اور دعا کرتی ہوں کہ رب کائنات انھیں صبر جمیل عطا کرےُ اور ان کی والدہ ٰ درجات بلند کرے.آمین.اسی بہار میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی پے در پے شکستوں نے دل کو ایک اور چوٹ پہنچائی حالانکہ بھارت سے ہارنے کی روایت نئی نہیں ہے مگر پھر بھی ہر بار ہم اپنی ٹیم سے نئے سرے سے اُمیدیں لگا کر بیٹھ جاتے ہیں اور جب اُمید ٹوٹتی ہے تو دل کو ایک عجیب سے ناقابل تلافی نقصان کا احساس ہوتا ہے.
Pakistani Cricket Team
شکست کے بعد ایک دوسرے پر ملبہ ڈالنے کی بجاے اگر ہم حقیقت پسندانہ تجزیہ کریں تو زیادہ بہتر وجوہات تلاش کر کے ہم ٹیم کو دوبارہ سے کامیابی کی راہ پر ڈال سکتے ہیں.بہار کی آمد پر ایران میں جو جشن نو روز منایا جاتا ہے وہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے.موسم بہار میں دل کی بے نام کی اُداسی کی وجہ کبھی بھی سمجھ نہیں آئی.وہ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
جب بہار آئی تو صحرا کی طرف چل نکلا صحن گل چھوڑ دیا دل میرا پاگل نکلا
حقیقت میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے. موسم بہار میں نفسیاتی مریضوں کی تعداد میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہو جاتا ہے.اکثر مریضوں کی ذہنی کیفیات اس موسم میں شدید ہو جاتی ہیں.ابھی میں یہ کالم لکھ ہی رہی تھی کہ .اچانک سے مختلف چینلز پر پرویز مشرف کی دبئی منتلقی کی خبریں چلنے لگیں مگر مجھے یہ خبریں سن کر بالکل حیرت نہیں ہوئی کیونکہ اس ملک میں کسی ڈکٹیٹر کو کبھی سزا,نہیں ملی تو مشرف کو کیسے ملتی.اب موصوف ایک آزاد شہری جیسی سہولیات کا لطف اُٹھائیں گے اور ہو سکتا ہے کسی وقت وہ ملک واپس لوٹ آئیں اور اُن کا ہیرو کی حثیت سے استقبال کیا جاےُ.
ہمارے ملک میں کچھ بھی ممکن ہے. وطن عزیز,میں حقیقی بہار تب ہی آے گی جب یہاں سب کو ایک جیسا انصاف ملے گا .وزیراعلیٰ کو بھی چاہیے کہ وہ لاہور کے علاوہ دوسرے شہروں کی خوبصورتی میں بھی اضافہ کرنے کے اقدامات کریں.لاہور کامشہور بسنت کا تہوار اب دوسرے شہروں نے ادھار لے لیا ہے بلکہ پچھلے دنوں دبئی میں بسنت منانے کی خبریں سن کر حیرت ہوئی کہ اب یہ تہوار دبئی بھی پہنچ گیا ہے.
ہر معاشرے کے بہار منانے کے مختلف انداز ہیں .ہر ایک اپنے اپنے انداز سے خوشی مناتا ہے.سو آپ بھی اپنے انداز سے آمد بہار کا استقبال کر سکتے ہیں بس اپنی مزہبی اور ثقافتی روایات کا خیال رکھیں اور ساتھ میں دعا بھی کریں کہ ہمارے ملک کو بھی حقیقی بہار نصیب ہو اور آخر میں میرا ایک اپنا شعر جو بہار کے حوالے سے ہی ہے.
تم کبھی آو میری زندگی میں ایسے تپتے صحرا میں کہیں پھول کھلے ہوں جیسے..