تحریر: پرفیسر رفعت مظہر مملکت خداداد کی اڑسٹھ سالہ زندگی میں بہت سے نشیب وفراز آئے ۔ہم نے اسلام کے نام پر زمین کایہ ٹکڑاحاصل کیا لیکن دینِ مبیں کی ترویج واشاعت کی بجائے بدترین آمریتوں نے گھیرے رکھا ۔ہمیں جو جمہوریت نصیب ہوئی وہ بھی آمریت کے قریب تر۔ایوبی آمریت سے مشرفی آمریت تک ملکی سلامتی ہمیشہ ڈانواڈول ہی رہی ۔یہ بجاکہ جمہوریت نے ہمیںکچھ نہیں دیا لیکن وہ آمریت سے بدرجہا اِس لیے بہترکہ اگراُس نے ملک وقوم کاسنواراکچھ نہیںتو بگاڑا بھی نہیں جبکہ دوسری طرف آمریت کے دَور میں ملکی سلامتی کو خطرات ہی لاحق رہے ۔جنرل ایوب کے دَور میں 65 ء کی جنگ ہوئی، یحیٰی خاں ملک کودو ٹکڑے کرنے کاباعث بنے اورضیاء الحق نے افغان جنگ میںحصّہ ڈال کر کلاشنکوف کلچرکو جنم دیا۔ پرویزمشرف نے حکومت سے مشورہ کیے بغیرکارگل کی جنگ چھیڑی۔
دعویٰ اُن کاآج بھی یہ کہ اگر میاں نواز شریف جنگ بندی کا معاہدہ نہ کرتے توہم نے بھارت کو شہ رگ سے پکڑہی لیا تھاحالانکہ حقیقت یہ کہ کارگل کی جنگ محض پرویز مشرف کی طالع آزمائی تھی ۔اگر کارگل کی جنگ نہ چھڑتی توشاید مسٔلہ کشمیرکا کوئی نہ کوئی حل نکل ہی آتاکیونکہ اُس وقت بھارت مذاکرات کی میزپر تھااور مسٔلہ کشمیر کے حل کے لیے مختلف تجاویز زیرِبحث۔
Pervez Musharraf
سانحہ نائن، الیون کے بعد یہی ”کمانڈو” ایسا بزدل نکلا کہ امریکہ کی ایک کال پر چاروں شانے چِت اوروہ سب کچھ بھی مان گیاجس کاامریکہ نے مطالبہ ہی نہیں کیا تھا۔ آج ہم ساٹھ ہزارسے زائد جنازے پڑھ چکے ۔پاک فوج کے دَس ہزارسے زائدجرّی جوانوں کے تابوتوں کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ چکے، ملکی معیشت کا 100 ارب سے زائد کانقصان کرچکے ۔سوال مگریہ کہ اِس کاذمہ دارکون ہے؟ ۔۔۔ بِلاشُبہ پرویز مشرف ۔طالبان نامی عفریت ،خودکش حملے ،بم دھماکے اسی دَور کی پیداوارہیں ۔اپنی اتحادی ایم کیوایم کو پرویز مشرف نے اتنی چھوٹ دی کہ پاکستان کا معاشی ہَب کراچی خونم خون ہوگیا۔
پرویز مشرف نے ناراض بلوچوںکو مناکر قومی دھارے میںلانے کی بجائے بلوچستان میں طاقت کااستعمال شروع کردیا ۔اُس نے بلوچ سرداراکبر بگتی کو کہا ”ہم تمہی ںوہاں سے ہِٹ کریںگے کہ پتہ بھی نہیںچلے گا”۔ اکبربگتی کی شہادت کے بعد بلوچستان میں علیحدگی کی تحریکوںنے زورپکڑا ۔پرویزمشرف نے معاملات کوسلجھاؤ کی بجائے اُلجھاؤ کے راستے پہ ڈال دیا۔ بلوچستان کے میرظفراللہ جمالی کوپہلے خودہی وزیرِاعظم بنایااور پھررُسوا کرکے وزارتِ عظمیٰ واپس لے لی ۔لال مسجدبھی بلوچستان ہی کے مولاناعبد العزیز اورغازی عبدالرشید نے قائم کی تھی۔ پرویزمشرف کااگلاٹارگٹ یہی مسجد بنی۔
مولانا عبدالعزیزاور عبدالرشید محفوظ راستہ ملنے کی صورت میںجامعہ حفصہ اورلال مسجد چھوڑنے کوتیارتھے لیکن عین اُس وقت جب مذاکرات آخری مراحل میںتھے ،پرویز مشرف کے حکم پرلال مسجدپر چڑھائی کردی گئی اورپھر ایساسانحہ ہواجس نے چنگیزیت کے دَورکی یادتازہ کردی ۔۔۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری بھی بلوچستان ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ کے جسٹس بنے اورپھر چیف جسٹس ۔اُنہیںنشانِ عبرت بنانے کے لیے سڑکوںپر گھسیٹاگیا ۔پیپلزپارٹی توآج بھی پنجاب کوموردِالزام ٹھہراتے ہوئے کہتی ہے کہ بھٹوکی پھانسی اوربینظیر کی شہادت کاذمہ دارپنجاب ہی ہے۔
Balochistan
لیکن ذرا سوچئے کہ جب بلوچستان ہی کوٹارگٹ کرتے ہوئے سردار اکبر بکتی ،میرظفر اللہ جمالی ،غازی برادران اورافتخارمحمد چودھری کونشانِ عبرت بنانے کی سعی کی گئی توکیا بلوچستان میںنفرت کی آگ نہیںپھیلے گی؟ ۔پیپلزپارٹی کے دَورمیں جب ”بلوچستان پیکیج” کااعلان ہواتو بلوچوںنے اِسے یکسرمسترد کرتے ہوئے پرویزمشرف کواُن کے حوالے کرنے کامطالبہ کیا ۔عرض کرنے کامطلب یہ ہے کہ ساراقصور بلوچ علیحدگی پسندوںکا ہی نہیں، کچھ ہمارے حکمرانوںکی غلط پالیسیوںکا ثمربھی ہے ۔ ۔۔ دَورِآمریت کے بعدمعاملات آہستہ آہستہ سلجھاؤ کی طرف گامزن ہیںاور یہ بہرحال تسلیم کرناہی پڑے گاکہ نوازلیگ کے موجودہ دَورمیں اِن میںتیزی بھی نظرآنا شروع ہوگئی ۔آپریشن ضربِ عضب نے دہشت گردوںکی کمرتوڑ کے رکھ دی ،کراچی کی روشنیاں لوٹنے لگیں،ٹارگٹ کلنگ ،بھتہ خوری تقریباََ ختم ۔بلوچستان کے وزیرِاعلیٰ ڈاکٹرعبد المالک بلوچ نے پائنااور پنجاب یونیورسٹی کے اشتراک سے منعقدکیے جانے والے سیمینارمیں کہا کہ کوئٹہ اب رات دو، دوبجے تک جاگتاہے اورخوف کی فضاء تقریباََ ختم ہوچکی ۔
محترم الطاف حسن قریشی قومی مسائل پر سیمینارمنعقد کرتے ہی رہتے ہیں ۔اِس ڈھلتی عمرمیں بھی اُن کاعزم جوانوںسے بھی جواںہے ۔اُن کے احترام کایہ عالم کہ وہ جس کسی کوبھی سیمینارمیں شرکت کی دعوت دیتے ہیں،وہ انکارکر ہی نہیںسکتا۔سوموار 23 نومبر کو اُنہوں نے ”استحکامِ بلوچستان، چیلنجزاور امکانات” کے موضوع پر پنجاب یونیورسٹی لاہورکے الرازی ہال میں قومی سیمینار منعقدکیا جس میں بلوچستان کی تقریباََ تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی موجودتھی ۔لاہورسے بھی ایسے اصحاب کو شرکت کی دعوت دی گئی جن کالکھامستندسمجھا جاتاہے ۔حکومتی نمائندگی کے لیے احسن اقبال اورخواجہ سعدرفیق موجودتھے۔
Change
پانچ گھنٹوں پر محیط اِس سیمینار میں بلوچستان سے آئے ہوئے مہمانوں نے کھُل کر اپنے جذبات واحساسات کااظہار کیا۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے غلام نبی مری نے کہا کہ حقیقی طور پر کچھ بھی نہیں بدلا، سب کچھ مصنوعی سالگتا ہے۔ ہمیں خوشگوار حیرت اُس وقت ہوئی جب بلوچستان ہی کے وزیرِداخلہ سرفراز بگتی نے غلام نبی مری کی طرف سے اٹھائے گئے ہراعتراض کا مدلل جواب دیا۔
اُنہوں نے کہاکہ اگربلوچستان میںامن وسکون نہ ہوتاتوسرداراختر مینگل نوشکی میں جلسۂ عام منعقدنہ کرسکتے ۔اگرسب کچھ مصنوعی ہوتاتو ڈیرہ بگتی کابند پریس کلب نہ کھُلتا ۔سرفرازبگتی صاحب نے پروجیکٹرپر بلوچستان کے مختلف علاقوںمیںہونے والے جلسوںاور ریلیوںکی ایسی تصاویردکھائیں جن میںجابجا پاکستانی پرچم لہراتے نظرآ رہے تھے ۔وزیرِاعلیٰ عبدالمالک بلوچ صاحب نے بلوچستان میںاپنی اڑھائی سالہ کارکردگی کا بھرپور جائزہ پیش کیا ۔قصہ مختصریہ کہ اِس سیمینارکی طفیل ہمیںبھی یقیں ہوچلا کہ ”بہارآنے کوہے”۔