کراچی (جیوڈیسک) کراچی محمد رفیق مانگٹ کرکٹ شرفا کے منظم کھیل سے تیزی سے اربوں ڈالر صنعت میں ڈھل رہی ہے۔ 2010 کے پاکستان اور حالیہ آئی پی ایل اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل نے ایشیائی کرکٹ کو کرپشن کا نیا تصور دیا۔اس کھیل میں بڑھتی کرپشن سے عالمی کرکٹ برادری تشویش کا شکار ہے۔ بھارتی کرکٹ آئندہ دی ایشز کو پیچھے چھوڑ دے گی۔کرکٹ سے وابستہ عالمی مصنوعات ساز وں کے لیے بھارت اور پاکستان کی مارکیٹ پرکشش ہے۔
تجارتی لحاظ سے کرکٹ کے ایشیائی ٹی وی ناظرین سب سے اہم ہیں۔ مشرق وسطی کااخباردی نیشنل لکھتا ہے کہ کرکٹ منظم کھیل سے کثیر ارب ڈالر صنعت کا روپ دھار رہی ہے۔ انگلینڈ اور ویلز کرکٹ بورڈ ای سی بی کا سالانہ کاروباری حجم( ٹرن اور )دس کروڑ پونڈ( 100 ملین پونڈ) سے زیادہ ہے۔ لیکن برانڈ فنانس کے مطابق گزشتہ برس انڈین پریمیئر لیگ(آئی پی ایل) 2.99ارب ڈالر کی تھی، اگرچہ کرکٹ انگلینڈ سے ایجاد ہوئی لیکن اس کا نقطہ نظر خالصتا کاروباری تھا۔
بھارت اس کھیل پر غلبہ پا رہا ہے بھارتی کرکٹ آئندہ 1882 سے برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان کھیلی جانے والی ٹیسٹ سیریز دی ایشز کو گہنا دے گی۔کارپوریٹ کمیونی کیشن کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ایشز کی طرح بھارت بھی ہمارے لیے تجارتی لحاظ سے اہم ہو گیا ہے۔ای سی بی کی70سے75فی صد آمدنی ٹیلی ویژن سے آتی ہے۔بھارتی ٹی وی مارکیٹ بھی وسیع ہے، ان کا کہنا تھا کہ ہمارے لیے ٹی وی کی مارکیٹ ایشیا ہے۔
بھارتی کرکٹ نئے ذرائع ابلاغ کو بھی استعمال کر رہی ہے۔تین سال قبل آئی پی ایل کا دعوی تھا کہ وہ پہلے اسپورٹس ایونٹ کو انٹرنٹ ویڈیو سروس یو ٹیوب سے لائیو دکھا رہے ہیں۔ کھیلوں کے سازوسامان سے وابستہ بین الاقوامی اداروں نے بھی ترقی پزیر مارکیٹوں کی ترقی کو کیش کرنا شروع کردیا ،ایک بین الاقوامی کرکٹ مینوفیکچر کے پراڈکٹ مینجر کا کہنا تھا کہ بھارت، پاکستان اور بنگلا دیش ان کے سازوساماں کے لئے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔کیونکہ یہ ممالک کرکٹ مصنوعات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔برطانوی ریٹیل کرکٹ مصنوعات مارکیٹ کی سالانہ مالیت35 ملین پونڈ سے زائد ہے جب کہ بھارتی کرکٹ مصنوعات مارکیٹ کی قدر30 ملین پونڈ ہے۔
اس حقیقت کے باوجود کہ بھارتی شہری برطانوی شہریوں سے زیادہ کرکٹ کی مصنوعات خریدتے ہیں پاکستان اور بھارت جیسے ممالک میں کرکٹ نے مقبولیت پائی اور اسٹریٹ گیم بن گئی جسے بہت زیادہ غریب بھی کھیلتے ہیں۔ کرکٹ کی دنیا اس کھیل میں بڑھتی کرپشن پر تشویش کا شکار ہے اور خاص کر پاکستان اور بھارت جیسے ترقی پزیر مارکیٹ میں اس کا سراعیت کرنا قابل تشویش ہے جس کی واضح مثال حالیہ آئی پی ایل اسکینڈل جس میں تین کھلاڑیوں کو اسپا ٹ فکسنگ پر گرفتار کرلیا گیا، ایشیائی کرکٹ کے لئے اسپاٹ فکسنگ کا تصور نیا ہے۔
2010 میں پاکستان کے اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں قومی کھلاڑی ملوث تھے جنہوں نے رشوت لی جس پر آئی سی سی نے پاکستان کے تین کھلاڑیوں پر پابندی عائد کردی محمد آصف اور محمد عامر سمیت تینوں کھلاڑیوں پر پانچ سے دس سال تک کرکٹ کھیلنے پر پا بندی عائد کردی گئی۔ والپول کا کہنا ہے کہ تمام کرکٹ بورڈز کو کرپشن سے لڑنا ہو گا،انہوں نے کہا کہ ای سی بی پہلا کرکٹ بورڈ ہے جس نے ملکی سطح پر اینٹی کرپشن یونٹ قائم کیا جو آئی سی سی کے ساتھ مل کر کام کررہا ہے۔