کولمبو (جیوڈیسک) سری لنکا کے صدر نے گذشتہ اتوار کو ایسٹر کے موقع پر چار ہوٹلوں اور تین گرجا گھروں پر بم حملوں میں ملوّث ہونے کے شُبے میں دو گروپوں کو کالعدم قرار دے دیا ہے جبکہ بمباروں کے سرغنہ محمد ہاشم ظہران کے بارے میں یہ اطلاع سامنے آئی ہے کہ وہ پڑوسی ملک بھارت میں ایک عرصہ مقیم رہا تھا اور اس نے ممکنہ طور پر عسکری تربیت وہیں سے حاصل کی تھی۔اس کی بیوی اور بیٹی سری لنکن فوج کی ایک مکان پر چھاپا مار کارروائی کے دوران میں زخمی ہوگئی ہے۔
صدر میتھری پالا سری سینا نے ہفتے کے روز سری لنکا سے تعلق رکھنے والی قومی توحید وجماعت ( این ٹی جے) اور جماعت ملت ابراہیم پر اپنے ایمرجنسی اختیارات کے تحت پابندی عاید کردی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ان دونوں غیر معروف گروپوں کو ٹھوس ثبوت نہ ہونے کی بنا پر قبل ازیں کالعدم قرار نہیں جاسکا تھا کیونکہ اس مقصد کے لیے ٹھوس ثبوت درکار تھے ۔
سری لنکن فوج کے ایک ذریعے نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بھارتی اخبار دا ہندو کو بتایا ہے کہ ’’ ہم داعش کے زاویے سے بھی تحقیقات کررہے ہیں۔ہمیں یہ شُبہ ہے کہ مشتبہ خودکش بمباروں میں سے بعض سخت گیر نوجوانوں کی بھارت اور ممکنہ طور پر تامل ناڈو میں نظریاتی اور عسکری تربیت کی گئی تھی‘‘۔
اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارتی حکام یہ تو نہیں کہتے کہ ہاشم نے بھارت کا سفر کیا تھا ۔البتہ ان کا کہنا ہے کہ اس کے بھارتی نژاد نوجوانوں سے ورچوئل ( انٹرنیٹ کے ذریعے) روابط ضرور استوار تھے۔سری لنکا کی مسلم کونسل کے نائب صدر حلمی احمد نے بھی ہاشم کے جنوبی بھارت میں روابط ومراسم کی تصدیق کی ہے۔
انھوں نے فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ہاشم نے اپنا اڈا جنوبی بھارت میں منتقل کردیا تھا ۔اس کی تمام ویڈیوز بھارت سے ہی اپ لوڈ کی گئی تھیں ۔وہ اسمگلروں کی کشتیوں کو بھارت جانے اور وہاں سے واپس آنے کے لیے استعمال کیا کرتا تھا‘‘۔
وہ سری لنکا کے مشرقی صوبے میں واقع ضلع باٹی کالوآ کے قصبے کاٹن کوڈے میں ایک سخت گیر گروپ کی قیادت کرتا تھا ۔وہ اپنی بستی میں انتہا پسند مذہبی نظریات کے لیے مشہور تھا۔اس کی کمیونٹی کے افراد سے اکثر بحث وتکرار ہوتی رہتی تھی۔مقامی افراد نے اسی ہفتے دا ہندو کو بتایا تھا کہ ہاشم ظہران کی دو سال قبل ایک مقامی عالم سے اسلام پر عمل کے حوالے سے سخت توتکار ہوئی تھی اور اس کے بعد وہ قصبے سے فرار ہوگیا تھا اور چھپ چھپا کی زندگی گزار رہا تھا۔
سری لنکن پولیس کو یقین ہے کہ ایسٹر پر بم دھماکے کرنے والے حملہ آوروں کا سرغنہ محمد ہاشم محمد ظہران این ٹی جے یا اس سے الگ ہونے والے ایک اور دھڑے کی قیادت کررہا تھا۔جماعت ملت ابراہیم کے بارے میں کوئی زیادہ معلومات سامنے نہیں آئی ہیں لیکن اس کے کارکنوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انھوں نے بھی بم دھماکوں میں کردار ادا کیا تھا۔داعش نے ان بم حملوں کی ذمے داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
حکومت نے قریباً دس ہزار فوجیوں کو ملک بھر میں مشتبہ افراد کے خلاف چھاپا مار کارروائیوں اور سکیورٹی کے لیے مامور کیا ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے گذشتہ چھے روز کے دوران میں قریباً ایک سو مشتبہ افراد کو گرفتار کیا ہے،ان میں ، شامی اور مصری شہریوں سمیت غیرملکی بھی شامل ہیں اور ان سے پوچھ تاچھ کی جارہی ہے۔
سکیورٹی فورسز نے جمعہ کی شب ضلع امپارا میں واقع علاقے سینٹ ہماروتھو میں مشتبہ جنگجوؤں کی ایک خفیہ کمین گاہ پر چھاپا مار کارروائی کی تھی جس کے نتیجے میں تین خودکش بمباروں سمیت پندرہ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔فوجی ترجمان کے مطابق ان مہلوکین میں چھے بچے بھی شامل تھے۔اس کارروائی میں ہاشم ظہران کی بیوی اور بیٹی زخمی ہوگئی تھی۔اس کی بہن نے ان دونوں کی شناخت کی ہے۔
سری لنکا میں بم دھماکوں کے بعد داعش نے اپنے آٹھ جنگجوؤں کی ایک ویڈیو جاری کی تھی۔اس میں صرف ظہران کا ہی چہرہ کھلا نظر آرہا تھا اور باقی سات افراد نے اپنے چہرے ڈھانپ رکھے تھے۔وہ داعش کے سیاہ پرچم کے آگے کھڑے تھے اور داعش کے لیڈر ابوبکر البغدادی سے بیعت کا اعلان کررہے تھے۔
انھوں نے کولمبو اور ساحلی شہر نیگومبو اور باٹی کلوآ میں ایسٹر کے موقع پر تین گرجا گھروں اور چار ہوٹلوں کو بم حملوں میں نشانہ بنایا تھا۔سری لنکن حکام کے مطابق ان بم دھماکوں 253 افراد ہلاک ہوئے تھے ۔ان میں ڈچ، امریکی اور برطانوی شہریوں سمیت 35 غیر ملکی بھی شامل تھے۔بم دھماکوں میں قریباً پانچ سو افراد زخمی ہوئے تھے۔ ہاشم ظہران نے ایک اور خودکش بمبار کے ساتھ مل کر کولمبو میں واقع ہوٹل شنگریلا میں خودکش بم دھماکا کیا تھا۔ وہاں دھماکے کے بعد ان کی شناخت سی سی ٹی وی کیمروں سے ہوئی تھی۔