سری لنکا میں میچ پریکٹس کی کمی لے ڈوبی، مصباح بہانے تراشنے لگے

Misbah ul Haq

Misbah ul Haq

لاہور (جیوڈیسک) پاکستانی کپتان مصباح الحق سری لنکا میں بدترین شکست پر بہانے تراشنے لگے۔ ان کے مطابق میچ پریکٹس کی کمی ٹیم کو لے ڈوبی، سینئر بیٹسمین نے بھاری بھر کم ٹیم مینجمنٹ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ سب نے مکمل کوشش کی، بعض اوقات نتائج سامنے نہیں آتے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا جائے، ہمیں انھیں تھوڑا وقت دینا چاہیے، مصباح کے مطابق آئندہ سیریز سے قبل فارغ وقت میں ہر کھلاڑی خامیاں دور کرنے کیلیے کام کرے گا، ان کا کہنا ہے کہ مجھے بطور بیٹسمین اپنی ناکامی کا احساس ہے۔

دباؤ ذہن پر سوار کرلیا جائے تو کبھی کارکردگی میں بہتری نہیں لائی جاسکتی، فارم میں واپسی کیلیے محنت کروں گا۔ تفصیلات کے مطابق ایک بار پھر ’’گرین سگنل‘‘ ملنے کے بعد کپتان مصباح الحق نے بھی بھاری بھرکم کوچنگ اسٹاف کی حمایت کر دی ہے، قذافی اسٹیڈیم لاہور میں چیئرمین پی سی بی شہریار خان سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ میچ پریکٹس نہ ہونے کی وجہ سے بولرز اور بیٹسمین دورئہ سری لنکا میں توقعات پر پورا نہ اترسکے، ایشیا کپ اور ورلڈ ٹوئنٹی20 میں شرکت کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کا موقع نہیں ملا، ڈومیسٹک سیزن بھی ختم ہوچکا تھا۔

طویل وقفے کی وجہ سے کھلاڑی بھرپور کوشش کے باوجود ردھم میں نہ آسکے،اب یواے ای میں آئندہ سیریز سے قبل ہر کسی کو انفرادی حیثیت اور بطور ٹیم بھی اس مسئلے پر قابو پانے کیلیے کام کرنا ہوگا۔ ذاتی پرفارمنس بھی خراب ہونے سے اضافی دباؤ کے سوال پر انھوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ شکستوں میں میری ناقص فارم کا بھی عمل دخل تھا،بطور بیٹسمین اپنی ناکامی کا احساس ہے، ہر میچ میں کسی بھی سینئر کھلاڑی کا کردار ہمیشہ اہم ہوتا ہے تاہم دباؤ لینے سے کوئی حل نہیں نکلتا، ہمیں مثبت انداز میں سوچنا چاہیے،کوئی انٹرنیشنل کرکٹ میچ پریشر کے بغیر نہیں ہوتا لیکن اسے ذہن پر سوار کرلیا جائے تو کبھی کارکردگی میں بہتری نہیں لائی جا سکتی۔

مسئلے کا حل یہی ہے کہ بنیادی امور پر توجہ دیتے ہوئے فارم میں واپسی کیلیے بھرپور کوشش کی جائے۔ بھاری منیجمنٹ کی افادیت پر سوال اٹھائے جانے پر مصباح الحق نے کہاکہ کوچنگ اسٹاف نے بڑی محنت کی لیکن بعض اوقات اس کے باوجود نتائج حاصل نہیں ہوتے، اس کا یہ مقصد نہیں کہ ان کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا جائے، بہتری لانے کیلیے وقت درکار ہوتا ہے، اگلی سیریز سے قبل خامیاں اور کمبی نیشن درست کیا جاسکتا ہے۔ بھاری مینجمنٹ کی وجہ سے پلیئنگ الیون کے انتخاب میں کپتان کا کردار کم نظر آنے کے سوال پر انھوں نے کہا کہ یہ بات تو آپ کو کسی اور سے پوچھنی چاہیے، میں بطور قائد اپنی رائے دے سکتا ہوں، حتمی فیصلے سلیکشن کمیٹی کو کرنا ہوتے ہیں، مجھ سے مشورہ لیا جاتا ہے مگر کبھی کبھار پوری ٹیم آپ کی مرضی کی نہیں ہوتی، البتہ میدان میں وہی کھلاڑی اتارے جاتے ہیں جن پر بالآخر سب کا اتفاق ہوتا ہے۔

ورلڈ کپ سے قبل کھلاڑیوں کا حتمی پول تشکیل دینے کے سوال پر انھوں نے کہا کہ یہ کام تو پہلے ہی کیا جا چکا،ایک سال کیلیے سینٹرل کنٹریکٹ اسی بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کن کھلاڑیوں کو ملک کی نمائندگی کرنا ہے، معمول کے مطابق کوئی بڑی اکھاڑ پچھاڑ نہیں ہوتی، بڑی ضرورت ہو تو ایک آدھ تبدیلی ہی کی جاتی ہے۔

جونیئرز کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ کوئی کھلاڑی ہمیشہ کیلیے نہیں رہتا، بالآخر اسے جگہ خالی کرنا پڑتی ہے،کسی بھی نوجوان کو ٹیم میں کردار ملنے کی صورت میں توقعات پر پورا اترنا ایک چیلنج ہوتا ہے،ذمہ داری ملے تو نبھانا پڑتی ہے،ہمارے چند جونیئرز بھی پرفارم کر رہے ہیں۔

مستقبل میں انہی کو بوجھ اٹھانا ہے، مواقع ملیں گے تو مزید بہتر ہوتے جائیں گے۔ حالیہ ناقص پرفارمنس کے بعد آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی قطعی مختلف کنڈیشنز میں ورلڈکپ میں متوقع کارکردگی کے سوال پر انھوں نے کہا کہ میچ پریکٹس سے ہی مسائل حل کیے جاسکتے ہیں، اچھا ٹیم کمبی نیشن بنانے کیلیے یہی بہترین راستہ ہے، جتنے زیادہ مقابلوں میں شرکت کرسکیں بہتر ہوگا، کسی بھی میگا ایونٹ سے قبل اس بات کا جائزہ لینا اہم ہوتا ہے کہ وہاں کی کنڈیشنز میں کس حریف کیخلاف کیسا اسکواڈ میدان میں اتارنے سے بہتر نتائج حاصل ہوسکتے ہیں، ورلڈ کپ سے قبل چند وارم میچز تیاری کیلیے انتہائی اہمیت کے حامل ہوں گے۔