سرینگر (جیوڈیسک) بُدھ کو بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس اور بھارت کے وفاقی نیم فوجی دستوں نے سرینگر میں محرم کی 8 تاریخ کو نکالے جانے والے روایتی ماتمی جلوس پر انتظامیہ کی طرف سے ایک مرتبہ پھر پابندی لگائے جانے کے بعد ریاست کے گرمائی صدر مقام کے کئی علاقوں میں کرفیو جیسی پابندیاں عائد کیں۔
عہدیداروں نے بتایا کہ شہر کے شہید گنج، بٹہ مالو، مائسیمہ، شیر گڈھی، کوٹھی باغ، رام منشی باغ اور کرالہ کھڈ پولیس تھانوں کے تحت آنے والے علاقوں میں دفعہ 144 کے تحت پابندیاں لگائی گئیں، اور ایسا حفظ ماتقدم کے طور پر امن و امان کو برقرار رکھنے کے لئے کیا گیا۔
حکام نے پورے ضلع سرینگر میں تمام تعلیمی اداروں کو بھی بند کر دیا۔
انہیں خدشہ تھا کہ اگر شہدائے کربلا کی یاد میں تعزیتی جلوس نکالنے کی اجازت دی جاتی ہے تو استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی سیاسی جماعتیں اور ان کے کارکن انہیں بھارت مخالف مظاہروں میں بدلنے کی کوشش کریں گے اور اس طرح امن و امان میں رخنہ پڑ جائے گا۔
سرکردہ آزادی پسند لیڈر اور کشمیر کے میر واعظ مولوی عمر فاروق نے اس مفروضے کو مسترد کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ’’ریاست میں لوگوں کے سیاسی اور مذہبی حقوق کو مختلف بہانے بنا کر سلب کرنا اب معمول بن گیا ہے‘‘۔
تاہم، انہوں نے یہ بھی کہا کہ”یہاں کے جو حالات ہیں، جو ظلم ہو رہا ہے اور جو زیادتیاں ہو رہی ہیں ظاہر سی بات ہے ہم اُن پر تو بات کریں گے ہی”۔
انہوں نے مزید کہا کہ “ان کو بہانہ مل رہا ہے کہ تحریک پسند قیادت ان تقریبات میں مداخلت کریں گے۔ لیکن ہم نے ایسا کوئی پروگرام دیا تھا نہ ہمارا ایسا کرنے کا ارادہ تھا۔ یہ ایک مذہبی تقریب ہے جس میں ہمارے لوگ بھی حصہ لیتے ہیں۔ یہ اتحاد اور ملی یکجہتی کا مظاہرہ ہوتا ہے”۔
اطلاعات کے مطابق، اس دوران سرینگر کے بٹہ مالو علاقے میں جب ماتمی جلوس منظم کرنے کی کوشش کی گئی، تو پولیس اور نیم فوجی دستوں نے ان پر بانس کے ڈنڈے چلائے اور پھر گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔
بعد دوپہر شہر کے ڈل گیٹ علاقے سے نکالے گئے ایک ماتمی جلوس پر پولیس نے اشک آور گیس کے گولے داغے، عزا داروں پر لاٹھیاں برسائیں اور درجنوں افراد کو گرفتار کرلیا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اس واقعے میں کئی افراد کے چوٹیں آئیں۔ سرینگر کے ریگل چوک پر بھی اسی طرح کی صورتِحال مشاہدے میں آئی۔
بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں تقریباً 30 سال پہلے مسلح تحریک کے آغاز پر حکومت نے محرم کی آٹھ اور دس تاریخوں پر سرینگر میں روایتی راستوں سے ماتمی جلوس نکالنے پر پابندی عائد کی تھی جو ہنوز جاری ہے۔
تاہم، شعیہ مسلمانوں کو شہر کے اُن علاقوں میں جہاں وہ اکثریت میں آباد ہیں۔ بعض ضوابط کے تحت جلسے منعقد کرنے اور جلوس نکالنے کی اجازت ہے۔ ریاست کے دوسرے حصوں میں شہدائے کربلا کی یاد میں اس طرح کی تقریبات کے انعقاد پر کوئی پابندی نہیں ہے۔