تحریر: ممتاز اعوان وادی کشمیر بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں خون کی ہولی سے گزرنے کے بعد سیلاب جیسی قیامت خیز قدرتی آفت کا سامنا کر رہی ہے۔ مقبوضہ وادی میں سیلاب کوئی پہلی مرتبہ نہیں آیا بلکہ یہ اس خطے کی ایک پہچان بن چکا ہے، لیکن ہر مشکل کا سامنا کرنے والی جری کشمیری قوم ہر آفت ارضی و سماوی کے بعد باردگر زندگی کی رونقیں بحال کرنے میں کامیاب رہتی ہے۔
البتہ ستمبرکے اوائل میں آنے والے سیلاب نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ اچانک ہونے والی طوفانی بارشوں اور سیلاب نے تو تباہی مچائی تھی مگر رہی سہی کسر بھارت کی مرکزی اور ریاست کی کٹھ پتلی حکومتوں نے اپنی مبینہ غفلت اور لاپرواہی سے پوری کردی ہے۔ ایک ہفتے تک جاری رہنے والی بارش نے مقبوضہ وادی کی فصلوں اور پھلوں کے لہلاتے باغات پر حقیقی معنوں میں پانی پھیر کر رکھ دیا ہے۔ وادی کے سب سے زیادہ پیداواری شہروں بالخصوص سری نگر، اسلام آباد( اننت ناگ)، بارہ مولا، کپواڑہ، سوپور پونچھ، جموں اور پہل گام میں وہ تباہی مچائی جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی ہے۔ مجموعی طور سیلاب کے نتیجے میں تین لاکھ کشمیری باشندے براہ راست اور آٹھ لاکھ افراد بالواسطہ طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ بھارت کے مختلف شہروں سے کاروبار کی غرض سے وادی کا رخ کرنے والے سیکڑوں غیرمقامی افراد بھی اپنی جانوں سے گئے اور ہزاروں اپنی جمع پونجی سے محروم ہو گئے ہیں۔
دھان کی فصل، زعفران،اخروٹ، سیب، بادام اور مکئی کے بڑے علاقوں پر محیط کھیت پانی میں بہہ گئے۔ سیلاب کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کا فی الوقت اندازہ لگانا مشکل ہے مگر اب تک نقصانات کے جو تخمینے لگائے گئے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ شہروں میں 90 فی صد فصلات اور انفرااسٹرکچر تباہ ہوگئے ہیں۔ وادی کشمیر کا سیب، اخروٹ اور زعفران دنیا میں مشہور ہیں لیکن مقامی شہریوں کا کہنا ہے کہ سیلاب نے نہ صرف ان کے پھلوں کے باغات اجاڑ دیے بلکہ زمین کو بھی کھنڈر بنا دیا ہے۔ ہرے بھرے لہلہاتے کھیت اور باغات اب ریت اور ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں جنہیں دوبارہ آباد کرنے اور قابل کاشت بنانے کے لیے کروڑوں ڈالر کا سرمایہ درکا ر ہے۔ بھارتی میڈیا اور ماہرین کے مطابق ریاست جمو ں و کشمیر میں اڑھائی لاکھ عمارتیں متاثر ہوئی ہیں۔ ان میں 20 ہزار مکانات اور دیگر عمارتیں مکمل طور پر زمین بوس ہو چکی ہیں جبکہ ہزاروں کھڑی عمارتوں کے محض ڈھانچے ہی بچے ہیں جو عملًا ناکارہ ہو چکی ہیں۔ بھارتی حکومت کی لاپرواہی اور کھلی غفلت کے بعد ریاست کے سیلاب زدگان سخت غم وغصے میں ہیں۔ حال ہی میں مرکزی حکومت کی جانب سے سیلاب متاثرین کے لیے بھیجا گیا اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف سامان شہریوں نے اٹھا کر دریا برد کر دیا، اس طرح کے کئی واقعات پیش آچکے ہیں۔ بھارتی حکومت کی جانب سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ متاثرہ شہریوں میں اب تک ایک ایک لاکھ روپے کی امداد فی خاندان تقسیم کی جا چکی ہے۔
Syed Ali Geelani
تلاش کے باوجود کہیں سے اس کی تصدیق اور گواہی نہیں مل سکی۔ عین ممکن ہے یہ امداد بھی انہی لوگوں کو دی گئی ہوگی جنہیں سیلاب سے نکالنے کے لیے بھارتی فوج نے ایمرجنسی ہیلی کاپٹرسروس دن رات چلا رکھی تھی۔بھارتی فوج صرف اپنے فوجیوں کو سیلاب سے بچا رہی تھی جبکہ کشمیریوں کو کہا جاتا تھا کہ تم پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہواور ہمارے اوپر پتھرائو کرتے ہو اب پاکستان کو مدد کے لئے بلائو۔پاکستان کی طرف سے بھارت کو مقبوضہ کشمیر کے سیلاب متاثرین کی امداد کی پیشکش کی گئی جسے بھارت نے نہیں مانا۔حریت رہنما سید علی گیلانی متعدد بار اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ سیلاب سے شدید تباہی ہوئی ۔ہم نے اقوام متحدہ،ریڈ کراس و دیگر عالمی تنظیموں سے امداد کے لئے رابطہ کیا لیکن انہوں نے جواب دیا کہ جب تک بھارت ہمیں اجازت نہیں دے گا ہم مدد کے لئے نہیں آ سکتے۔بھارت نے کشمیریوں کو مرنے کے لئے چھوڑ دیا۔پاکستان میں جماعة الدعوة کے امیرپروفیسر حافظ محمد سعید نے کشمیری حریت رہنمائوں سے رابطہ کیا اور کشمیریوں کی مدد کا وعدہ کیا۔
اس وعدے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے فلاح انسانیت فائونڈیشن آزاد کشمیر نے مقبوضہ کشمیر کے سیلاب متاثرین کیلئے پندرہ ٹرکوں پر امدادی سامان روانہ کیا۔ مظفر آباد سے بھیجا گیا سامان 3 ہزار خاندانوں کیلئے ایک ماہ کے خشک راشن پر مشتمل تھا۔یہ سامان چکوٹھی کے راستہ سری نگر جانا تھا۔ اس موقع پرایک دعائیہ تقریب کا بھی انعقاد کیا گیا جس میں سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار عتیق احمد خاں، امیر جماعةالدعوة آزاد کشمیر مولانا عبدالعزیز علوی، مسلم کانفرنس کے رہنما دیوان چغتائی، غلام اللہ آزاد ، ڈاکٹر منظور احمد و دیگرنے شرکت کی۔تقریب سے جماعةالدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید نے بھی ٹیلیفونک خطاب کیا اور کہا کہ ہم خالصتا انسانی ہمدردی کی بنیاد پر حالیہ تباہ کن سیلاب سے متاثرہ اپنے کشمیری بھائیوں کی امداد کیلئے سامان روانہ کر رہے ہیں۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ بھارت سرکار جو کشمیریوں کی امداد کا دعویٰ کرتی ہے وہ اس سامان کو روکے گی نہیں بلکہ سری نگر جانے دی گی تاکہ سیلاب متاثرین تک یہ سامان پہنچایا جا سکے۔
Hafiz Mohammad Saeed
امدادی سامان کی روانگی کی اس تقریب میں شرکت پر سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار عتیق احمد خاں کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار عتیق احمد خاں نے کہاکہ ہم جماعةالدعوة اور حافظ محمد سعید کے تہہ دل سے مشکور ہیں جن کی طرف سے کشمیریوں کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے امدادی سامان کی یہ بڑی کھیپ سری نگرروانہ کی جارہی ہے۔ سیلاب متاثرہ کشمیریوں کی زندگیاں بچانے کیلئے کنٹرول لائن کو ریلیف لائن میں تبدیل اور کشمیریوں کو آر پار آنے جانے کی اجازت دی جائے۔ کشمیری و پاکستانی قوم کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں انہیں کسی صورت جدا نہیں کیاجاسکتا۔ بھارت سرکارکو چاہیے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے سیلاب متاثرین کیلئے امداد بھجوائے جانے کے راستہ میں رکاوٹیں کھڑی نہ کرے اور اس حوالہ سے عائد کی جانے والی پابندی ختم کی جائے۔ امیر جماعةالدعوة آزاد کشمیر مولانا عبدالعزیز علوی نے بتایاکہ تین ہزار خاندانوں کیلئے بھجوائے گئے امدادی سامان میں آٹا، چاول، گھی، چینی، دالیں و دیگر اشیائے خورونوش شامل ہیں۔ جماعةالدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید کی ہدایات پر سیلاب متاثرہ کشمیری بھائیوں کی مددکیلئے امدادی سامان کی یہ کھیپ روانہ کی گئی ہے۔
بھارت انسانی بنیادوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سامان کو مصائب و مشکلات میں مبتلا کشمیری عوام تک پہنچنے دے اگر اسے ہمارے امداد بھیجنے پر اعتراض ہے تو ہم یہ سارا سامان کسی بھی کشمیری این جی او یا مقبوضہ کشمیر کی انتظامیہ کے سپرد کرنے کیلئے تیار ہیں۔امدادی سامان کے ٹرکوں کو چکوٹھی سے آگے جانے کی بھارت سرکار نے اجازت نہیں دی جس پر جماعة الدعوة نے چکوٹھی پر دھرنا دے دیا۔سیلاب متاثرین کے لئے امدادی سامان روکے جانے پر بھارت بے نقاب ہو چکا ہے۔بھارت سرکار کشمیریوں کی امداد کا دعویٰ کرتی ہے لیکن دنیا بھر کے کشمیریوں کی طرح آزاد کشمیر کے عوام کو بھی اپنے متاثرہ بھائیوں کی مدد کیلئے ریلیف سامان بھجوانے کی اجازت نہیں دی جارہی۔ کشمیری و پاکستانی قوم کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں انہیں کسی صورت جدا نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت سرکارکو چاہیے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے سیلاب متاثرین کیلئے امداد بھجوائے جانے کے راستہ میں رکاوٹیں کھڑی نہ کرے اور اس حوالہ سے عائد کی جانے والی پابندی ختم کی جائے۔عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس صورتحال کا نوٹس لینا چاہیے اور بھارتی حکومت پر دبائو بڑھانا چاہیے کہ وہ مصائب و مشکلات میں مبتلا لاکھوں کشمیریوں کیلئے ریلیف کا سامان جانے دے تاکہ انکے معمولات زندگی بحال ہو سکیں۔