تحریر : ممتاز حیدر کشمیر جنت نظیر سات دہائیوں سے بھارت کے قبضے میں اور پچھلے دو ماہ سے جہنم بنی ہوئی ہے۔ عید الفطر کے بعد برہان وانی کی شہادت کے بعد شروع ہونے والی تحریک کو آج دو ماہ ہو گئے کشمیری بھارت سرکار کے مقابلے میں میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ ان دو ماہ میں سو سے زیادہ کشمیریوں نے جانیں قربان کیں ۔ہزاروں زخمی ہوئے۔ سینکڑوں نوجوانوں کی بینائی ضائع ہوئی۔ گھروں، ہسپتالوں میں توڑپھوڑ کی گئی۔سکولوں پر قبضہ کیا گیا۔ تاجروں کا اسی ارب کا نقصان ہوا اس سب کے باوجود ہر اگلے دن کشمیریوں کی تحریک آزادی میں تیزی آ رہی ہے۔
حریت رہنمائوں کی گرفتاریوں و نظر بندیوں کے باوجود کشمیر کا بچہ بچہ حتیٰ کہ خواتین بھی میدان میں ہیں۔دو ماہ سے مسلسل کرفیو کی وجہ سے غذائی قلت شدید ترین ہے۔ادویات بھی ناپید ہو چکی ہیں۔لیکن کشمیریوں کے حوصلے بلند و بالا ہیں۔ہر گلی محلے میں نوجوان پاکستان کا پرچم لہرا رہے ہیں اور بھارتی ترنگا بھارتی فوج کے سامنے جلا رہے ہیں۔بھارت شاید یہ سمجھتا تھا کہ وانی کی شہادت کے بعد چند روز میں یہ تحریک ماضی کی طرح دب جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔جس عزم کے ساتھ کشمیری کھڑے ہیں اب حالات اس نہج کی طرف جا رہے ہیں کہ ان کو آزادی کی منزل تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔بھارتی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ دو مرتبہ سرینگر کے دورے پر آئے لیکن حریت رہنمائوں نے اس سے ملنے سے انکار کر دیا۔
اپنے دورے میں راجناتھ سنگھ نے پیلٹ گن کے استعمال کو روکنے کی یقین دہانی تو کروائی تھی لیکن پیلٹ گن کا استعمال آج بھی جاری ہے۔کشمیری نوجوانوں کوپیلٹ گن سے نشانہ بنایا جا رہا ہے تا کہ انکی بینائی ضائع ہو اور وہ تحریک میں حصہ نہ لے سکیں۔دو ماہ سے کاری تحریک کے دوران 664 کشمیریوں کی آنکھوں کو براہ راست پیلٹ گنوں سے نشانہ بنایا گیا، قابض بھارتی فورسز نے ہر دو گھنٹے بعد ایک کشمیری کی آنکھوں کو پیلٹ گنوں سے نشانہ بنایاجو وادی کے مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔مقامی ڈاکٹروں کے مطابق اوسطاً ہر روز12 کشمیریوں کی آنکھوں کو بھارتی فوج نے پیلٹ گنوں سے نشانہ بنایا، یعنی ہر دو گھنٹے بعد ایک کشمیری کی آنکھیں پیلٹ گن سے زخمی ہوئیں۔
Rajnath Singh
بھارت کی اس بربریت و درندگی کے سامنے اقوام متحدہ صرف بیانات دے رہی ہے۔کوئی عملی قدم نہیں کیا حالانکہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں۔گزشتہ روز تیس رکنی بھارتی پارلیمانی وفد جو کشمیر کی صورتحال کو معمول پر لانے کے لئے مذاکرات اور اقدامات کا جائزہ لینے کے لئے سری نگر پہنچا۔ وفد میں وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ وزیر خزانہ ارون جیٹلی’ وزیر مملکت برائے جتندرسنگھ’ اسد الدین اویسی’ سیتا رام کیسری سمیت سیاسی پارٹیوں کے نمائندے شامل ہیں۔ سیتارام کسیری’ شردیادیو’ اسد الدین اویسی’ راج گوپال نرائن اور دیگر ارکان پارلیمنٹ اپنے دورے کے سلسلے میں سب سے پہلے حیدر پورہ سری نگر میں سید علی گیلانی کی رہائش گاہ پر پہنچے تاہم علی گیلانی نے بھارتی وفد سے ملنے سے انکار کر دیا اور گھر کے دروازے بند کر لئے۔
بھارتی سیاستدان کافی دیر گھر کے باہر شرمندہ اور مایوس کھڑے رہے پھر واپس لوٹ گئے یہی نہیں انہیں یاسین ملک اور میرواعظ عمر فاروق سے بھی یہی جواب سننے کو ملا شرد یادیو اور سیتارام کسیری ہم ہامہ کے حراستی مراکز میں یاسین ملک سے جا کر ملے مگر حریت رہنما نے انہیں 2 منٹ بعد ہی چلتا کر دیا اور واضح کر دیا کہ حریت کانفرنس بھارتی آئین کے تحت ان سے مذاکرات کے لئے تیار نہیں اور نہ کریگی۔ بھارتی رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی میرواعظ عمر فاروق سے ملنے چشمہ شاہی جیل پہنچے جہاں حریت رہنما نظربند ہیں مگر وہ بھی 2 منٹ بعد میرواعظ کا کورا جواب سنکر شرمندہ سے واپس باہر آئے اور وہاں موجود بھارتی ٹی وی چینلوں کے رپورٹرز سے بات کرنے سے انکار کر دیا۔
اسی طرح سابق حریت رہنما عبدالغنی بھٹ نے بھی رابطے پر بھارتی وفد سے ملنے سے منع کر دیا جبکہ ایم ایل اے انجینئر رشید نے بھارتی وفد سے ملاقات میں واضح کر دیا کہ بھارت کشمیر میں رائے شماری کرائے جبکہ سید علی گیلانی’ میرواعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے مشترکہ بیان میں بھارتی پارلیمانی وفد سے ملاقات اور مذاکرات کی دعوت بھی مسترد کر دی۔انکا کہنا تھاکہ مقبوضہ کشمیر کے گلی کوچے آزادی کے نعروں سے گونج رہے ہیں۔ یہاں کے درودیوار گواہی دے رہے ہیں کہ ہم بھارتی تسلط سے آزادی چاہتے ہیں لیکن دہلی دربار کے یہ میکاولی سیاستدان اور انکے مقامی گماشتے اندھے بہرے ہونے کا ڈرامہ رچا رہے ہیں’ ایسی شاطرانہ چالیں کسی صورت بھی سنجیدہ اور حقیقت پسندانہ مذاکات کا نعم البدل نہیں ہو سکتیں۔
بھارتی پارلیمانی وفد سے نہ صرف حریت رہنمائوں نے ملنے سے انکار کیا بلکہ مقبوضہ کشمیر کے دانشوروں ،ٹریڈ یونینوں، ٹرانسپورٹ اداروں اور تاجرتنظیموںچیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری، کشمیر اکنامک الائنس، کشمیر ٹریڈرز اینڈ منی فیکچرز فیڈریشن، فیڈریشن چیمبر آف انڈسٹریز کشمیر اور آل کشمیر فروٹ گوورز ایسوسی ایشن نے بھی وفد کو ملنے سے انکار کیا۔بھارتی وفد کے لئے کشمیریوں کا نہ ملنا بہت بڑا دھچکا ہے۔بھارت سرکار نے اعلانیہ اور غیر اعلانیہ کرفیو نافذ کرکے وادی کشمیر کو فوجی چھاونی میں تبدیل کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے عوام کو گونا گوں مسائل و مشکلات کا سامنا کرناپڑرہا ہے۔ تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ وادی کشمیر میں مسلسل 59ویں روز بھی کرفیو نافذ رہا جبکہ لوگوں کے بنیادی حقوق بھی سلب کئے گئے ہیں جس پر بھارت کے میڈیا نے مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہے۔ اس سے پہلے گجرات میں سال 1967میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑنے کے بعد 50دنوں تک کرفیو نافذ کیا گیا تھا تاہم وہ ریکارڈ بھی ٹوٹ گیا ہے۔
Curfew in Kashmir
اعلانیہ اور غیر اعلا نیہ کرفیو کی وجہ سے لوگوں کی حالت دن بدن بد سے بدتر ہوتی جار ہی ہے۔ بیماروں کو ادویات دستیاب نہیں ، نو زائد بچے دودھ کیلئے تڑپ رہے ہیں شہر سرینگر اور دوسرے قصبوں کے لوگوں کو روز مرہ کی چیزیں بازاروں سے خریدنے کی اجازت نہیں اور پھر بھی بھارت سرکار کی طرف سے یہ دعوے کئے جار ہے ہیں کہ کشمیر وادی میں امن وا مان بحال ہے۔ بھارتی حکومت کے وفد کی مقبوضہ کشمیر آمد کے موقع پر ہزاروں کی تعداد میں آزادی کے متوالے سڑکوں پرآئے اور بھارت کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور ریاست کی کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کی تصاویر بھی جلائیں، شوپیاں میں مظاہرین نے منی سیکرٹریٹ کی عمارت کو آگ لگا دی جب کہ بھارتی فورسز نے روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہتے کشمیریوں پر بلا اشتعال فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 150 افراد زخمی ہو گئے۔
حزب المجاہدین کے کمانڈر سید صلاح الدین کا کہنا تھا کہ کشمیری لیڈرشپ، عوام اور مجاہدین جان چکے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کا پر امن حل مذاکرات کے ذریعے ممکن نہیں، کشمیر کے مسئلے کا واحد حل مسلح جدوجہد ہے۔ بھارتی فوجی ہمارے گھروں کی حرمت کو پامال کر کے ہمیں حملے کرنے پر مجبور کرتے ہیں، تحریک آزادی کے نوجوان کمانڈر برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد سے آزادی کی تحریک انتہائی اہم دور میں داخل ہو چکی ہے۔
گزشتہ 2 ماہ سے بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ کر رکھا ہے اور پوری وادی بھارتی فوجی چھاؤنی بنی ہوئی ہے لیکن میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ بھارت جتنا زیادہ ظلم کرے گا ہماری آزادی کی جدوجہد بھی اتنی ہی زیادہ مضبوط اور توانا ہوگی۔ مذاکرات صرف اس صورت میں ہی ہو سکتے ہیں جب بھارت کشمیر کو ایک مسئلہ سمجھے، اگر بھارت نے کشمیر کو ایک مسئلہ نہ سمجھا تو ہمیں اپنی طاقت دکھانا ہوگی اور پھر ہماری مسلح جدوجہد صرف کشمیر تک محدود نہیں رہے گی بلکہ پورا خطہ اس کی لپیٹ میں آ جائے گا۔