سرینگر (اصل میڈیا ڈیسک) مقبوضہ کشمیر میں نظام زندگی معطل ہوئے 18 دن ہوگئے، سرینگر کی دیواروں پر آزادی کے پوسٹرز لگ گئے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ وادی میں کشمیریوں اور بالخصوص نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔
بھارتی فوجی رات گئے چوروں کی طرح کشمیریوں کے گھر پر حملہ آور ہوتے ہیں، گھر والوں کو زد و کوب کرتے ہیں اور نوجوانوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق مقبوضہ وادی میں جیلیں کشمیریوں سے بھر چکی ہیں۔ اسی وجہ سے ان نوجوانوں کو اب بھارت کی جیلوں میں قید کیا جا رہا ہے۔
سری نگر کے رہائشی کے مطابق بھارتی فوج رات گئے ان کے گھر گھسے اور ان کے دو لڑکے اٹھا کر لے گئے۔
بی بی سی کے مطابق ایسی گرفتاریوں پر جب پولیس اور فوجی حکام سے پوچھا جاتا ہے تو وہ کوئی جواب نہیں دیتے۔ مسلسل 18 روز سے ان گرفتاریوں پر اٹھائے گئے سوالات کو ٹالا جا رہا ہے۔
کشمیری نوجوانوں کی مزاحمت سے خوفزدہ بھارتی فوج اور پولیس روزانہ سیکڑوں کے حساب سے گرفتاریاں کر رہی ہے، گرفتار نوجوانوں کو مقبوضہ کشمیر کی بجائے بھارت کی جیلوں میں قید رکھا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے ماہرین برائے انسانی حقوق نے مقبوضہ کشمیر میں مواصلاتی رابطوں کی بندش فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور بھارتی حکومت پر زور دیا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی پر کریک ڈاﺅن فوری ختم کیا جائے جوکہ اس نے اس ماہ کے آغاز میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے پارلیمنٹ کے فیصلے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں کیا۔
رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ 4 اگست سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی وادی میں مواصلاتی رابطے مکمل طور پر منقطع کرکے بلیک آﺅٹ کردیا گیا جبکہ انٹرنیٹ‘ ٹیلی ویژن چینلز‘ کیبل اور فون نیٹ ورکس تک رسائی منقطع کردی گئی۔
امریکہ سے تعلق رکھنے والے اقوام متحدہ کے ماہر اور خصوصی رپورٹر برائے فروغ آزادی اظہار رائے ڈیوڈ کائے اور انسانی حقوق بارے فرانسیسی ماہر مائیکل فروسٹ نے کہا ہے کہ بھارتی حکومت کی طرف سے کسی جواز کے بغیر انٹرنیٹ اور ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورکس بند کئے گئے ہیں جوکہ بنیادی اقدار کی نفی ہے جبکہ بلیک آﺅٹ جموں و کشمیر کے عوام کو دی جانے والی سزا کی اجتماعی شکل ہے جوکہ کسی جرم کے ارتکاب کے بغیر ہی انہیں دی جا رہی ہے۔