تحریر : محمد اشفاق راجا آرمی پبلک سکول پشاور کے سانحہ کی دوسری برسی پر بھارتی فوج نے کنٹرول لائن پر بلا اشتعال فائرنگ کر دی۔ اس دفعہ’سکول بس کو ہدف بنایا جس کا ڈرائیور شہید اور 8طلبہ زخمی ہو گئے۔ زخمیوں میں تین بچے اور 5بچیاں شامل ہیں۔ پاک فوج نے دشمن کو موثر جواب دیا اور اْس کی چوکیوں کو نشانہ بنایا۔دریں اثناء بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کر کے احتجاج ریکارڈکرایا گیا اور بھارت پر زور دیا گیا’ کہ وہ لائن آف کنٹرول پر 2003ء کے جنگ بندی معاہدے کی پاسداری کرے۔ بھارت نے اب تک پاکستان سے کئے گئے کِس معاہدے کی پاسداری کی’ جو اب اْس سے 2003ء کے جنگ بندی معاہدے کی پاسداری کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ پرامن بقائے باہمی یا معاہدوں کی پاسداری اور سمجھوتوں کا احترام کبھی بھی بھارت کی پالیسی نہیں رہی۔بھارت کی خلاف ورزیوں کی تاریخ خاصی طویل ہے۔ اْس نے تقسیم کے فوراً بعد ہی یہ رویہ اپنا لیا تھا۔
سب سے پہلے تو ‘ تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت ریاستوں کے الحاق کے طے شدہ طریق کار کی خلاف ورزی کرتے ہوئے’ ریاست جموں و کشمیر’ جونا گڑھ’ منگرول’ مانا ودر سمیت ہر اْس ریاست کو ہڑپ کر لیا’ جس کا میلان پاکستان کی طرف تھا۔ پھر گیارہ ستمبر1948ء کو نظام کی ریاست حیدر آباد دکن پر فوجی کارروائی کرتے ہوئے قبضہ کر لیا۔ حالانکہ ریاست حیدر آباد’ کے حکمران نظام عثمان علی خاں سے’ مذاکرات کا چکر بھی چلا رکھا تھا۔ جموں و کشمیر’ جہاں کی 95فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی’اْس پر بھی غاصبانہ قبضہ جما لیا۔
جب تنازع بڑھا تو پنڈت نہرو مسئلہ کو اقوام متحدہ لے گئے’ جہاں وعدہ کیا’ کہ وہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دے دیں گے’ لیکن پھر وعدے سے مکر گئے۔ عالمی ادارے’ عالمی رائے عامہ’ اخلاقیات سب کو نظر انداز کر دیا۔ گزشتہ ستر سال سے مظلوم کشمیری عوام’ اپنے حق’ ”استصواب رائے” کی جنگ لڑ رہے ہیں’ اور وہ اب تک اس جدوجہد میں ایک لاکھ سے زائد جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں’ پھر صرف اسی پر ہی نہیںاکتفا کیا بلکہ پاکستان کو کشمیریوں کی سیاسی’ سفارتی اور اخلاقی حمائت کرنے کی پاداش میں’ دولخت کر دیا۔ اس تنازع کی کھوکھ سے جنم لینے والے مسائل کی بنا پر دونوں ملکوں کے درمیان تین جنگیں ہو چکی ہیں۔ بھارت کی بالادستی قائم کرنے کی پالیسی صرف پاکستان تک محدود نہیں’بلکہ تمام ہمسایہ ملک بشمول سری لنکا’ سکم’ بھوٹان’ اور نیپال بھی متاثرین میں شامل ہیں۔ ساٹھ کے عشرے میں چین کو بھی حیدر آباد دکن سکم اور بھوٹان سمجھ کرپنگا لے لیا۔
India
بھارت بین المملکتی معاہدوں کی نہ صرف پاسداری نہیں کرتا’ بلکہ ہمسایوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت بھی کرتا ہے بھارتی قیادت’ خواہ اس کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو اس کی پالیسی یہی ہے کہ ہمسایوں کو چین سے نہ رہنے دو۔ بھارت سے کتنے معاہدے ہوئے کئی بار مذاکرات ہوئے’ لیکن بھارت نے اپنی توپوں کا رْخ پاکستان کی طرف سے نہیں موڑا۔ ہر دوسرے چوتھے کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر شیلنگ جاری رکھے ہوئے ہے’کوئی احتجاج کوئی دلیل کارگر ہوتی نظر نہیں ا?تی۔ بھارت ا?گ سے کھیل رہا ہے’پاکستان کب تک اپنے بے گناہ اور معصوم شہریوں کی جانوں کا ضیاع برداشت کرے گا’ صبر کی ایک حد ہوتی ہے۔بھارت کو سوچنا چاہیے’ دو ایٹمی ملکوں کے تصادم میں اس بدقسمت خطے کا کیا حشر ہو سکتا ہے۔ دراصل بھارت ہمسایہ ملکوں کو محکوم بنانے کے خبط میں مبتلا ہے۔ اْسے طاقت کے غرور نے ہوشمندی سے محروم کر دیا ہے’ ابھی چند دن پہلے بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ نے مقبوضہ کشمیر میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے دس ٹکڑے کرنے کی دھمکی دی۔
دراصل اْس نے اس دھمکی کے پردے میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اس نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے اپنی اس مذموم کارروائی کی تیاری کر رکھی ہے۔ کشمیریوں کی آزادی کی حمایت اورپاکستان کے سی پیک ایسے ترقیاتی منصوبے دو ایسے عوامل ہیں جنہیں بھارت برداشت نہیں کر رہا اور نہ کرے گا۔انڈیا سرحدوں پر دبائو بڑھا کر اور اندرون ملک ریشہ دوانیوں کے ذریعے پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم کیا کرنے والے ہیں اس موضوع پر ہماری قیادت منہ میں گھنگنیاں ڈال کر خاموش بیٹھی ہے۔
خواجہ آصف کے سوا کوئی نہیں بولا۔ سکول کے معصوم بچوں کی بس پر وحشیانہ فائرنگ اس قدر سفاکانہ عمل ہے کہ امریکہ نے پہلی دفعہ اس واقعہ کی مذمت کی ہے۔ بہر کیف قوم کو بتایا جائے کہ ہم کب تک بھارت کی زیادتیوں پر خاموش رہیں گے۔ جب تک بھارت کو دو ٹوک پیغام نہیں جائے گا وہ باز نہیں آئے گا۔ ہمیں اندرونی امن و استحکام اور علاقائی سالمیت کے تحفظ لیے غیر لچک دار رویہ اپنانا ہی ہو گا۔