پاکستان آزاد ملک ہے۔اسے آزاد ہوئے 68 سال بیت گئے ہیں۔میں حیران بلکہ ششدر ہو ں کہ آج بھی آزادی مارچ ہو رہے ہیں۔ عوام کو سڑکوں پر ناچ نچاکر مارچ کروایا جا رہا ہے۔ہمارے بزرگوں نے بہت بڑی قربانیاں دے کر انگریزوں سے آزاد کرا دیا تھا۔ لیکن ہم مانتے ہیں کہ آج بھی ہم آزاد ملک میں رہتے ہوئے آزاد نہیں ہیں۔ ہمارے کلچر، تہذیب میں یہودیت رچ بس گئی ہے۔یہودی یلغار میں پھنسے ہوئے ہیں۔عالمی طاقتیں پاکستان کے خلاف سازشیں کر رہی ہیں۔ہم ہیں کہ اپنوں سے آزادی چاہتے ہیں۔یہ کیسی آزادی ہے جو ہم اپنوں سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔؟اپنی عورتوں کو بے پردہ سڑکوں پر ناچ ناچا کر،افرتفری کا بازار گرم کرکے،کاروبار زندگی مفلوج بنا کر کس سے آزادی چاہتے ہیں۔؟جمہوریت سے ۔۔جو کبھی ہم نے دیکھی ہی نہیں۔یا پھر اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
چودہ اگست کو پاکستان معرض وجود میں آیا ۔ہر سال پوری قوم یوم آزادی ایک جھنڈے کے سائے تلے بڑے جوش و جذبے سے مناتی آئی ہے۔مگر افسوس صدا افسوس!۔۔ اس بار یوم آزادی قوم نے منائی ہی نہیں۔ہمارے سیاستدانوں نے قوم کو عجیب کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے ۔ایک سبز ہلالی پرچم کی جگہ سیاسی جماعتوں کے جھنڈے لہرانے لگے۔عمران خان دھندلی کا رونا رو رو کرآزادی مارچ لے کر اسلام آباد جاپہنچے اور اُدھر مولانا طاہر القادری صاحب بھی عین اسی دن انقلاب مارچ لئے مارگلہ کی وادی میں جا پہنچے۔دونوں دھرنوں کو آدھا مہنیہ گزر گیا ہے۔مگر سوائے ذلت و رسوائی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوااور ہونا بھی نہیں ہے۔معیشت کا نقصان اور مہنگائی کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔پورے کا پورا نظام بند ہو کر رہ گیا۔جس طرح کے مطالبات کی بات کی جا رہی ہے اس طرح تو ہر حکومت میں اپوزیشن پارٹیاں پارلیمنٹ کے باہر لوگوں کو جمع کر کے اور اپنی کن پٹی پر بندوق تان کر وزیراعظم سے استعفیٰ مانگنا شروع کر دیں گی۔
عمران خان کو ٹھنڈے دماغ سے سوچنا چاہیے کہ اگر وہ وزیراعظم ہوتے اور اس طرح کے معاملات ان کو درپیش ہوتے تو کیا کرتے؟جس دھندلی کی وہ بات کر رہے ہیں اسی میں وہ حکومت بھی کر رہے ہیں۔انہیں ایک صوبے کی حکومت ملی ہوئی ہے۔دھندلی تو وہاں بھی ہوئی ہو گی۔ملکی تاریخ میں 1970ء کے علاوہ کوئی بھی الیکشن شفاف نہیں ہوا۔ہر الیکشن میں کم یا زیادہ دھندلی ہوتی آئی ہے۔تب تو آزادی مارچ نہیں ہوئے۔تب تو عوام کو یوں سڑکوں پر ذلیل نہیں کیا گیا۔عمران خان کس تبدیلی کی بات کرتے ہیں ۔؟باپردہ عورتوں کو سڑکوں پر ڈانس کروا کر تبدیلی لانا چاہتے ہیں ۔غریبوں کو اور رسواء کر نا چاہتے ہیں۔حکومت کو قائم ہوئے ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کو ہے۔
Imran Khan
عمران خان کی آنکھ اب کھلی ہے۔پہلے خواب غفلت سے بیدار کیوں نہیں ہوئے۔؟کیا یہی نیا پاکستان ہے؟۔اس طرح نہ تو کوئی تبدیلی آنی ہے اور نہ ہی نیا پاکستان بننا ہے۔بلکہ معیشت کا پہہ جام ہو کر رہ جائے گا اور ملک قرضوں کے بوجھ تلے دب جائے گا۔اپنے مفادات کی جنگ میں عوام کے کندھوں پر بندوق رکھ کر کیوں چلائی جا رہی ہے۔اپنی انا ،اپنی ضد ،ہٹ دھرمی کی سزا عوام کو تو نہ دیں۔بیچاری عوام روز اول سے قربانیاں دیتی آئی ہے اب تو رحم کر دیں۔جب موجودہ حکومت باقی مطالبات مان رہی ہے توعمران خان نرمی کریںاور دھرنا ختم کرنے جا اعلان کریں ۔رہی بات استعفیٰ کی توورزاعظم کا استعفیٰ لے کرآپ اس کرسی پر پھر بھی نہیں آسکتے۔جو ہو گیا اسے بھول کر عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام کریں۔
ادھربھارت ہٹ دھرمی کی انتہا کو پہنچ چکا ہے آئے روز سیالکوٹ لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔بے گنا ہ شہری شہید ہو رہے ہیں۔بیرونی سازشیں ہمارے ملک کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتی ہیں ۔پاک وطن کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتی ہیں۔یہی تو وہ چاہتی ہیں جو آپ کر رہے ہیں۔ملک میں انتشار پید اہو۔افراتفری پھیلے۔دہشت گردی کا بازار گرم ہو۔لوگ ایک دوسرے کے گربیان پکڑنے لگے۔آپ سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کر کے بغاوت کر رہے ہیں اور عوام کو بھی بغاوت پر اکسا رہے ہیں۔اپنے ہی گھر کو اپنی ہی ہاتھوں جلانا چاہ رہے ہیں۔افسوس۔۔۔ میرا مشورہ تو یہی ہے جمہوریت میں اگر باری کی سیاست چل رہی ہے تو آپ بھی اپنی باری کا انتظار کریں۔جلد بازی میں کہیں باری ختم ہی نہ ہو جائے۔
قادری صاحب کو چھوڑیں۔قادری صاحب کا کیا ہے۔آج یہاں ہیں توکل برطانیہ میں بیٹھے مزے لے رہے ہوں گے ۔ان کے مریدین ان کے دیدار کو ترستے رہ جائیں گے۔یہ تو ان کا پرانا وطیرہ ہے۔وہ تو پاکستان کے حامی تھے نہ ہیں۔ان کے پیچھے کوئی اور ہے۔جن کے اشاروں پر چل رہے ہیں۔قادری صاحب صرف کٹ پتلی بنے ہوئے ہیں۔ یہ کیا انقلاب لائیں گے۔؟جو شہید ہونا بھی چاہتے ہیں اور غیر ملکی جہاز کو سکیوڑٹی خدشات پر چھ گھنٹے یرغمال بھی بنا لیتے ہیں۔خدا تعالیٰ پر بھروسہ ہی نہیں ہے۔شہادت کے جذبے سے شرشار مجاہد سکیوڑٹی تھوڑی مانگتے ہیں۔
آج غزہ میں سینکڑوں مسلمان شہید ہو گئے ہیںسینکڑوں بچے یتیم ہوئے ہیں۔زندگی اپاہیج ہو گئی ہے۔جو بچ گئے ہیں ان کا جینا محال ہے ۔ان کے اظہار ہمدردی کے لئے ان کے پاس چار الفاظ ہی نہیںہیں۔کیسے ہوتے؟اگر کوئی بیان دیتے ہیں تو شہریت جاتی ہے ۔صحیح تو یہ ہے پاکستان نے غزہ کے مسلمانوں کی امداد کی ہے جو اسرائیل کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔انہوں نے قادری صاحب کو انتقام لینے کیلئے پاکستان بھیج دیا ہے۔تاکہ مریدوں کو جمع کرکے پاکستان میں افراتفری پھیلائیں ۔پاکستان کی بقاء کو نقصان ہوا۔معیشت کا پہیہ الٹا گھومنے لگے۔کافی حد تک اسرائیل کامیاب نظر بھی آتا ہے۔ سیاستدانوں سے گزارش ہے کہ اپنے مفادات کی جنگ بند کرکے ملکی مفاد کی جنگ لڑیں۔عالمی شازشوں کا منہ توڑ جواب دیں اور پاکستان کی بقاء کے لئے کام کریں۔