تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر حدود عدل و انصاف میں عوام کے ساتھ کھلی بے انصافی کی روک تھام کیا ضلعی حکومتیں کنٹرول کریں گی ،محکمہ خزانہ اس پر قابو پائے گا یا پھر یہ گرانفروشی باہمی ملی بھگت سے بے لگام گھوڑے کی طرح عوام کو اپنے سموں کے نیچے روندتی رہے گی ؟حکومت وقت کا یہ دعویٰ ہے کہ ہم نے تمام تر پالیسیاں عوام کو ریلیف دینے کے لئے بنائی ہیں مگر جو میری آنکھوں نے منظر دیکھا وہ تو سراسر عوام کو تکلیف دینے والا محسوس ہوا ۔قصہ کچھ اس طرح ہے کہ میرے دوست اور معروف لکھاری حامد قاضی کو ایک بیان حلفی کے لئے اشٹام پیپر چاہئے تھا جو کہ والدہ کے کمپیوٹررائزڈ ڈیتھ سرٹیفکیٹ کے حصول کے لئے ساتھ لگانا تھا عمومی طور پر جو اشٹام پیپر بیان حلفی کے لئے استعمال ہوتا ہے وہ بیس سے پچاس روپے مالیت کا ہوتا ہے ۔ ہم نے پوری ضلع کچہری شیخوپورہ چھان ماری مگر کہیں سے بھی بیس اور پچاس روپے والا اشٹام پیپر نہ ملنا تھا نہ ملا باامر مجبوری ہمیں سو روپے والا خریدنا پڑا جو ہمیں ڈیڑھ سو روپے میں ملا پوچھنے پر پتہ چلا کہ جناب خزانے سے سو والا بھی نہیں مل رہا اس وجہ سے یہ آپکو ڈیڑھ سو میں لینا پڑے گا چارونا چار ہم نے دل پر جبر کر کے وہ لیا اور پھر بلدیہ کے آفس میں ڈیتھ سرٹیفکیٹ کے لئے جمع کروا دیا۔
ٹھیک تین دن بعد بڑے بھائی اور ان کے بچوں کے لئے ڈومیسائل بنوانے کے لئے بھی اشٹام پیپرز کی ضرورت پڑی جو کہ ہر فرد کے ساتھ ایک لگانا ضروری تھا ہم پھر کچہری میں ٥٠ روپے والا اشٹام پیپر تلاش کرنے کے لئے سرگرداں ہوئے اب جو منظر دیکھا تو پوری کچہری میں پچاس روپے والا تو درکنار ١٠٠ روپے والا اشٹام پیپر بھی ناپید تھا کیونکہ ڈومیسائل تو بنوانے ہی تھے اس وجہ سے ہر فرد کے لئے پچاس کی بجائے ڈیڑھ سو روپے والا اشٹام خریدنا پڑا وہ بھی دو سو میں ملا یعنی کھلے عام اشٹام پیپروں کی بلیک مارکیٹنگ جاری و ساری ہمارے استفسار پر کہ بھائی میرے جب ١٥٠ روپے کا اشٹام ہے تو پھر آپ دو سو کس بات کے مانگ رہے ہو ؟تو وہ شخص بڑی رعونت سے گویا ہوا کہ اگر آپ کو لینے ہیں تو لیں ورنہ اپنا راستہ ناپیں ہم نے تو اسی قیمت پر دینے ہیں۔
اتنی بڑی لوٹ مار اور وہ بھی ضلعی انتظامیہ کی ناک کے نیچے مگر روکنے والا کوئی نہیں ۔ کیا یہ عوام پہ اضافی بوجھ نہیں ؟کیا یہ ظلم نہیں ؟کہ پاکستان میں رہتے ہوئے ،پاکستانی شہری کو ،پاکستانی شہریت کے حصول کے لئے اس قدر تکلیف اٹھانا پڑے اور اضافی بوجھ والے اخراجات کا طوق اس کی گردن میں ڈال دیا جائے ؟ اس طرح کرنے سے ہم کیسا ریلیف دے رہے ہیں عوام کو ؟یہاں جو چاہے ، جب چاہے ، جس سے چاہے کرتا پھرے اور اسے پوچھنا قابل تعزیر جرم گنا جائے یہ کھلی چھوٹ دینے والا آخر ہے کون ؟ جس بھی اشٹام فروش سے پوچھا کہ بھائی بیس روپے،پچاس روپے ،اور ٨٠ روپے والے اشٹام آخر کہاں گئے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا تو چہار جانب سے اشٹام فروشوں کی ایک ہی آواز گونجی کہ بیس روپے سے لیکر سو والے اشٹام خزانے سے ملتے ہی نہیں ہیں بلکہ وہ تو بند کر دیئے گئے ہیں ڈیڑھ سو والے اشٹام بھی چند اشٹام فروشوں کے پاس دستیاب تھے جو وہ بے دھڑک دو سو روپے میں بیچ رہے ہیں سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ کس کی خوشنودی کے لئے کیا جا رہا ہے اور آخر کیوں ؟محکمہ خزانہ بیس روپے سے سو روپے والا اشٹام پیپر آخر کیوں جاری نہیں کر رہا اور جس طرح یہ کھلے عام بلیک ہو رہے ہیں یہ تو کبھی ہو ہی نہیں سکتا کہ ایوان اقتدار میں بیٹھے ہوئے لوگ اس بات سے ناواقف ہوں ۔ اگر وہ سب جانتے ہیں تو پھر آخر کس مجبوری کے تحت وہ یہ بلیک مارکیٹنگ روک نہیں رہے ؟ یا پھر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ مل ملا کر ہی یہ دھندہ چلایا جا رہا ہو۔
اشٹام پیپرز کی مصنوعی قلت پیدا کر کے مجبور اور بے بس عوام کے لئے ذلت کا سامان پیدا کر کے ،اپنی مالی پیداوار میں اضافہ کیا جا رہا ہو ؟کیونکہ اتنے بڑے پیمانے پر گرانفروشی بغیر ملی بھگت کے ممکن ہی نہیں ۔قارئین کرام جہاں چھ افراد کے ڈومیسائلفارمز کے ساتھ محض تین روپے کے اشٹام درکار تھے فی کس پچاس روپے کے حساب سے ،وہاں ٩٠٠ روپے کے اشٹام خریدنا پڑے وہ بھی ١٢٠٠ روپے میں ۔عوام پر ٩٠٠ روپے کا اضافی بوجھ ڈال دیناکیا عوام دوست حکمت عملی سے تعبیر کیا جائے گا ؟اس سے عوام کو ریلیف ملے گی یا تکلیف ؟فیصلہ عوام پہ چھوڑتا ہوں اور انصاف کا خواستگار ارباب اقتدار و اختیار سے ہوں۔
عوام کو خود ساختہ مہنگائی کے کوڑے آخر کس جرم میں مارے جا رہے ہیں ؟ کیا اس سے ریونیو میں اضافہ ہو گا ؟کب تک عوام کے خون کو لیموں کا جوس سمجھ کر ارباب اختیار اپنی طمع کی سکنجبین بناتے رہیں گے خدارا یہ ظلم ہے اور اس ظلم کے تدارک کے لئے بھی کچھ کریں ظلم کی چکی میں آخر کب تک پستی رہے گی وطن عزیز کی عوام کیا انہیں پاکستانی شہری ہونے کی سزا دی جا رہی ہے ؟ بیس روپے سے سو روپے والے اشٹام آخر کیوں بند کئے گئے ہیں جب قانونی طور پر ایک بیان حلفی کے لئے بیس روپے سے پچاس روپے والا اشٹام چاہئے ہوتا ہے وہاں عام شہری کو کیوں مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ ڈیڑھ سو روپے والا اشٹام خریدے وہ بھی دو سو روپے میں ؟ارباب اختیار سے بس اتنی گزارش ہے کہ اس نا انصافی پر بھی کبھی غور کر لیں اگر آپ کو پانامہ اور جے آئی ٹی کے بیانات سے فرصت ملے تو۔ان اشٹام فروشوں کی گرانفروشی اور محکمہ خزانہ کی اشٹام پیپرز کی مصنوعی قلت کا خاتمہ آخر کب ہو گا ، اور اس گرانفروشی کی ذمہ داری آخر کس پر لاگو ہوتی ہے۔
M.H BABAR
تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر Mobile;03344954919 Mail ;mhbabar4@gmail.com