تحریر : روہیل اکبر ملک میں اس وقت جہاں خالص سیاستدانوں کی کمی ہے وہی پر خالص اشیاء خردونوش کی بھی کمی شدت اختیار کرچکی ہے ضروریات زندگی میں استعمال ہونے والی عام اشیاء جن میں نمک مرچ ،آٹا اور دودھ وغیرہ شامل ہیں وہ بھی ملاوٹ شدہ اور انتہائی غیر معیاری ہونے کے ساتھ ساتھ مضر صحت بھی ہیں جن کو چیک کرنے کے لیے کوئی بھی اتھاڑٹی یا ادارہ کام کرنے کو تیار نہیں ہے اس وقت اگر صرف لاہور کی آبادی کو ہی دیکھا جائے جو ایک تقریبا ایک کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے اور یہاں پر فروخت کیا جانے والا دودھ کھاد ،سرف اور آئل سے تیار کیا جارہا ہے جو مختلف دوکانوں پر 24گھنٹے فروخت ہوتا ہے یہی صورتحال کراچی ،فیصل آباد ،ملتان سمیت ملک بھر کی ہے جہاں پر ملاوٹ خور مافیانے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں اس کے ساتھ ساتھ پنجاب میں سبز یوں کی کاشت کے دوران زہر یلے پانی کی فراہمی سے سبز یوں میں زہر آلود مواد کا انکشاف بھی نہایت ہی سنگین صورتحال کا پیش خیمہ ہے۔
سبزیاں پورے صوبے کے ہر گھر میں ہر شخص کے کھانے میں شامل ہو تی ہیں ان میں سے بیشتر میں زہر یلے مواد کا پایا جاناشہریوں کی صحت کے لئے خطر ناک امر ہے ۔اس سلسلہ میں میڈیامیں متعدد بار رپورٹس شائع ہو چکی ہیں جن میں انکشاف کیا گیا تھا کہ زہر یلی سبزیاں انسانی جانوں پر کیا اثرات مرتب کرتی ہیں اور یہ کیسے کاشت ہو کر مارکیٹوں تک پہنچتی ہیں لیکن اب محکمہ زراعت کی ایک رپورٹ کے مطابق کہ پنجاب میں شہر یوں کو کھانے کے لئے جو سبزیاں منڈی میں فراہم کی جا رہی ہیں ۔ان میں زہر آلود مواد موجود ہے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 16سبزیوں میں خطر ناک کیمکلز اور دھاتی عنصر پائے جاتے ہیں ۔پنجاب کے 9ڈویژنوں سے حاصل کئے گئے 51نمونوں میں سے22میں خطر ناک تر ین مواد کی نشاند ہی کی گئی ہے
اسکی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ سبزیوں کو جس پانی سے سیراب کی جاتا ہے وہ سیوریج اور فیکٹریوں کا زہر آلود پانی ہے صوبہ میں 504ملین گیلن آلودہ پانی زرعی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے98تحصیلوں میں سے 66تحصیل میونسپل انتظامیہ براہ راست آلودہ پانی سبزیوں کی کاشت کے لئے استعمال کر رہی ہیں جبکہ 28تحصیل میونسپل انتظامیہ آلودہ پانی نہروں میں چھوڈ دیتے ہیں آلودہ اور خطر ناک مواد والی سبزیوں میں آلو ،ٹماٹر ،پیاز ،پالک ،بینگن ،شلغم ،گاجر ،کدو،بھنڈی ،گوبھی ،دھنیہ اور پودینہ وغیرہ شامل ہیں ۔سبزیوں میں پایا جانے والا زہر یلا مواد 9بیماریوں کا باعث بن رہا ہے ان میں کینسر ،بلڈ پر یشر ،ذہنی واعصابی بیماریاں ،گیسٹرو،گردے اور پھپھڑوں، کے متعدد امراض شامل ہیں۔
Bad Water use in Vegetables
صوبائی وزیر زراعت ڈاکٹر فرخ جاوید نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ سبزیوں کی کاشت کے لئے آلودہ پانی استعمال کیا جارہا ہے ان کا کہنا تھا کہ رپورٹ سامنے آنے کے بعد اس حوالہ سے محکمہ نے کاروائی کا آغاز کیا ہواہے متعلقہ محکموں کو بھی احکامات جاری کر دئیے گئے ہیں ۔اس حوالہ سے پورے صوبے میں ڈیٹا اکھٹا کیا جا رہا ہے جیسے مرتب کرنے کے بعد متعلقہ محکموں سے ملکر جامعہ پالیسی مرتب کی جائے گئی ۔پنجاب میں سبز یوں کی کاشت کے دوران زہر یلے پانی کی فراہمی سے سبز یوں میں زہر آلود مواد کا جو انکشاف ہوا ہے یہ نہایت ہی سنگین صورتحال کا پیش خیمہ ہے سبزیاں پورے صوبے کے ہر گھر میں ہر شخص کے کھانے میں شامل ہو تی ہیں ان میں سے بیشتر میں زہر یلے مواد کا پایا جاناشہریوں کی صحت کے لئے خطر ناک امر ہے سبزیوں میں زہر یلے مواد کی نشاند ہی کے بعد اس امر کی جانچ کی جانی چاہئے کہ آیا گندم ،چاول ،دالوں وغیرہ کی کاشت میں بھی یہی پانی استعمال ہوتا ہے تو کیا ان میں زہر یلا مواد شامل ہے یا نہیں ؟
نہروں کے پانی میں سیوریج اور فیکٹروں کا زہر یلا پانی شامل کرنا مجر مانہ حر کت ہے اس حوالہ سے محکمہ انہار کا عملہ اور ضلعی انتظامیہ ذمہ دار ہے ان فیکٹریوں کے خلاف بھی کاروائی ہونی چاہئے جو فیکٹری کا زہر یلا مواد ٹریٹ منٹ کے بغیر فیکٹریوں سے باہر نکال دیتے ہیں ۔اس ضمن میں ضلعی اور ٹاؤن انتظامیہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس امر کا انتظام کریں کہ ایسی زہر یلی چیزیں نہری پانی میں شامل نہ ہو اس حوالہ سے پنجاب کو ماضی میں اس بد انتظامی کے ذمہ درار افراد کے خلاف کاروائی کے ساتھ آئندہ کے لئے جامع پالیسی بنا کر اس پر عملدر آمد کرایا جائے اور اس عملدرآمد کا جائزہ بھی لیا جائے کہ یہ کام درست طر یقے سے ہو تا کہ شہریوں کی زہر یلی سبزیوں اور خوراک سے جان چھوٹ سکے۔
حکومت کی ذمہ داری ہے کہ شہر یوں کے لئے مہیا کی جانے والی اشیاء خردونوش معیاری ہو ۔اس حوالہ سے پنجاب فوڈ اتھارٹی کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملے میں شامل ہو تاکہ شہر ی ان مضر صحت سبز یوں سے خود کو محفوظ بنا سکے۔اور حکومت پنجاب کو چاہئے کہ سیوریج کے پانی سے کاشت ہونے والی سبزیوں کی فروخت پر فی الفور پابندی عائد کریں۔ اور ہر ضلع میں متعلقہ انتظامیہ کوہدایات جاری کی جائے کہ سیوریج کے پانی کو سبزیوں کی کاشت کے لئے استعمال نہ کیا جائے۔